Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں (اور ہفت پارچہ علم شرائع سے مزین کیا) تو اس نے ان کو اتار دیا پھر شیطان اسکے پیچھے لگا تو وہ گمراہوں میں ہوگیا۔
آیت نمبر : 175 اہل کتاب نے ایک قصہ ذکر کیا ہے جس کا علم انہیں تورات سے ہوا ہے۔ اور اس کی تعیین میں اختلاف ہے جس کے بارے یہ آیات نازل کی گئی ہیں۔ حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس ؓ (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 568) نے بیان کیا ہے : وہ بلعام بن باعوراء ہے، اسے ناعم کہا جاتا ہے وہ بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوا ہے، وہ اس حیثیت میں تھا کہ جب دیکھتا تو عرش کو دیکھتا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد : آیت : واتل علیھم نبا الذی اتینٰہ سے مراد وہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیہ ( ایک آیت) نہیں کہا، اس کے مجلس میں بارہ ہزار پڑھنے والے علامء تھے جو اس سے پڑھتے لکھتے تھے۔ پھر وہ اس طرح ہوگیا کہ سب سے اول اس نے اس بارے میں کتاب لکھی کہ ” علم کو بنانے ولا کوئی نہیں “۔ حضرت مالک بن دینار نے کہا ہے : بلعام بن باعوراء کو بادشاہ مدین کی طرف بھیجا گیا تاکہ وہ اسے دعوت ایمان دے۔ پس اس نے اسے بہت کچھ عطا کیا اور اس خاموش کرا دیا نتیجۃ اس نے اس کے دین کی اتباع کرلی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین کو چھوڑ دیا، چناچہ اس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ معتمر بن سلیمان نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے کہا : بلعام کو نبوت عطا کی گئی تھی (1) ، اس کی دعاقبول کی جاتی تھی، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں آئے آپ جابروں ( اور ظالموں) کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، تو ان جابروں نے بلعام بن باعوراء سے درخواست کی کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے بددعا کرے پس وہ دعا کرنے کے لیے اٹھا تو اس کی زبان اپنے ساتھیوں کی بددعا کی طرف پھر گئی۔ اس بارے میں اسے کہا گیا، تو اس نے کہا : میں اس سے زیادہ پر قادر نہیں ہوں جو تم سن رہے ہو۔ اور اس کی زبان اس کے سینے پر لٹک گئی۔ تو ان نے کہا : تحقیق اب مجھ سے دنیا اور آخرت دونوں چلی گئیں۔ مگر، دھوکہ اور حیلہ کے سوا کچھ باقی نہ رہا، میں عنقریب تمہیں ایک حیلہ اور مکر بتاؤں گا، میری رائے یہ ہے کہ تم اپنی نوجون لڑکیوں کو ان کی طرف نکالون کیونکہ اللہ تعالیٰ زانیوں کو بہت مبغوض جانتا ہے، پس اگر وہ اس میں واقع ہوگئے تو وہ ہلاک ہوجائیں گے۔ تو انہوں نے ایسا ہی کیا اور بنی اسرائیل فعل زنا کرنے لگے، نتیجہ اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون بھیجا تو اس کے سبب ان میں سے ستر ہزار مر گئے۔ یہ خبر مکمل طور پر ثعلبی وغیرہ نے ذکر کی ہے۔ روایت ہے کہ بلعام بن باعوراء نے دعا (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 221) ( یہ قول کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں۔ اس کا رد آگے آ رہا ہے۔ کیونکہ نبی معصوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسے عصمت سے نوازا جاتا ہے) کی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جبارین کے شہر میں داخل نہ ہوں، تو اس کی دعا قبول ہوگئی اور آپ تیہ میں ہی رہے۔ تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اے میرے رب ! کون سے گناہ کے سبب ہم تیہ میں ہی باقی رہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بلعام کی دعا کے سبب۔ تو آپ نے عرض کی : جس طرح تو نے اس کی دعا میرے خلاف سن لی ہے اسی طرح میری دعا بھی اس کے خلاف قبول فرما لے۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس سے اسم اعظم سلب کرلیا اور اسے اس حالت سے بالک نکال دیا جس پر وہ تھا۔ ابو حامد نے کتاب ” منہاج العارفین “ کے آخر میں اس کے بارے کہا ہے : میں نے بعض عارفین کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بعض انبیاء نے اللہ تعالیٰ سے بلعام اور اس کے ان آیات و کرامات کے بعد مطر ود ہونے کے بارے پوچھا، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : جو کچھ میں نے اسے عطا کیا تھا اس پر ایک دن بھی اس نے شکر ادا نہ کیا تھا، اگر وہ اس پر ایک بار بھی میرا شکر ادا کرتا تو میں اس سے سلب نہ کرتا۔ حضرت عکرمہ (رح) نے کہا ہے : بلعام نبی تھا اور اسے کتاب دی گئی تھی۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : بلاشبہ اسے نبوت عطا کی گئی تھی، پس اس کی قوم نے اسے اس پر رشوت دی کہ وہ خاموش رہے چناچہ اس نے وہی کیا اور قوم کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ ماوردی نے کہا (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 279) ہے : یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی نبوت کے لیے منتخب نہیں فرماتا مگر اسے ہی جس کے بارے وہ جانتا ہے کہ وہ اس کی اطاعت کو چھوڑ کر معصیت و گناہ کی طرف نہیں نکلے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص اور حضرت زید بن اسلم ؓ نے بیان کیا ہے : یہ آیت امیہ بن ابی صلت ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے، تحقیق اس نے کتابیں پڑھی تھیں اور یہ جان لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت رسول بھیجنے والا ہے اور اس نے یہ تمنا کی کہ وہی وہ رسول ہے، پس جب اللہ تعالیٰ نے حضور نبی رحمت محمد ﷺ کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اس کا شعور ایمان لے آیا اور اس کے دل نے کفر کیا “ (کنز العمال، جلد 6، صفحہ 171، حدیث نمبر 15241 ) ۔ حضرت سعید بن مسیب نے کہا ہے : یہ آیت ابو عامر بن صیفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ دور جاہلیت میں ٹاٹ پہنتا تھا، پس اس نے حضور نبی مکرم ﷺ کے ساتھ کفر کیا، اس لیے کہ وہ مدینہ طیبہ میں حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے محمد ! ﷺ یہ کیا ہے جو تم لے کر آئے ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں حنفیہ دین ابراہیم لے کر آیا ہوں “۔ اس نے کہا : بلاشبہ میں اسی پر ہوں۔ تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تو اس پر نہیں ہے کیونکہ تو نے اس میں وہ کچھ داخل کردیا ہے جو اس میں سے نہیں ہے “۔ تو ابو عامر نے کہا : اللہ تعالیٰ ہم میں سے جھوٹے کو مار دے اس حال میں کہ وہ مطرود اور اکیلا ہو۔ تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” ہاں اللہ تعالیٰ ہم میں سے جھوٹے کو اسی طرح مار دے “۔ بیشک اس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تعریض کرتے ہوئے کہا جب آپ مکہ مکرمہ سے نکلے۔ پھر ابو عامر شام کی طرف نکلا اور قیصر کے پاس رہنے لگا اس نے منافقین کی طرف لکھا : تم تیار رہو کیونکہ میں قیصر کے پاس سے ایک لشکر لے کر تمہارے پاس آ رہا ہوں تاکہ ہم محمد ﷺ کو مدینہ طیبہ سے نکلا سکیں، پھر وہ شام میں ہی تنہا مرگیا۔ اور اس کے بارے میں یہ ارشاد نازل ہوا : آیت : وارصادل لمن حارب اللہ ورسولہ من قبل ( التوبۃ؛ 107) ( اور ( اسے) کمین گاہ بنایا ہے اس کے لیے جو لڑتا رہا ہے اللہ سے اور اس کے رسول سے اب تک) اس کا بیان سورة برات میں آئے گا۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے ایک روایت میں کہا ہے کہ یہ آیت ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی اس کے لیے تین دعائیں تھیں جو اس کے لیے قبول کی جاتی تھیں، اس کی ایک بیون تھی اسے بسوس کہا جاتا اور اس سے اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔ تو اس نے کہا : تو ان میں سے ایک دعا میرے لیے کر دے۔ تو اس نے کہا : ایک تیرے لیے ہے، بتا تو کیا حکم دیتی ہے ؟ اس نے کہا : تو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کر کہ وہ مجھے بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ خوبصورت اور حسین عورت بنا دے۔ پس جب اس نے اللہ تعالیٰ سے اس کے خلاف یہ دعا کی کہ وہ اسے بھونکنے والی کتیا بنا دے۔ تو اس میں دو دعائیں ختم ہوگئیں، پھر اس کے بیٹے آئے اور کہنے لگے : ہم اس پر صبر نہیں کرسکتے کہ ہماری ماں کتیا رہے لوگ ہمیں اس پر عار دلاتے ہیں، پس تو اللہ تعالیٰ سے دعا کر کہ وہ اسے اس حالت پر لوٹا دیے جس پر وہ پہلے تھی۔ چناچہ اس نے دعا کی اور وہ اپنی پہلے والی حالت پر لوٹ آئی اور اس میں اس کی دعائیں ختم ہوگئیں۔ پہلا قول زیادہ مشہور ہے اور اکثر اسی پر ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓ نے کہا ہے : یہ آیت قریش کے بارے نازل ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی وہ نشانیاں اور آیات عطا کیں جو اس نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل فرمائیں پس وہ ان سے کترا کر نکل گئے اور انہیں قبول نہ کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : بلعام جبارین کے شہر میں سے تھا۔ بعض نے کہا ہے : وہ یمن کا تھا۔ آیت : فانسلخ منھا یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت سن نکل گیا، یعنی اس سے وہ علم چھین لیا گیا جو وہ جانتا تھا۔ اور حدیث طیبہ میں حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت ہے : العلم علمان علم فی القلب فذالک العلم النافع وعلم علی اللسان فذالک حجۃ اللہ تعالیٰ علی ابن آدم ( علم دو قسم کے ہیں ایک علم دل میں ہے وہی نفع بخش علم ہے اور ایک علم زبان کا ہے اور وہی ابن آدم پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہے) پس یہ بلعام اور اس جیسے لوگوں کے علم کی مثال ہے، ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اور ہم اس سے توفیق اور حق پر موت کی التجا کرتے ہیں۔ اورا لانسلاخ کا معنی نکلنا ہے، کہا جاتا ہے : انسلخت الحیۃ من جلدھا یعنی سانپ اپنی جلد سے نکل گیا ( یعنی اس کے کھال اتر گئی) آیت : فاتبعہ الشیطٰن یعنی شیطان کے ساتھ مل گیا۔ کہا جاتا ہے : اتبعت القوم یعنی میں قوم سے مل گیا۔ بعض نے کہا ہے : یہ آیت یہود و نصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی آمد کا انتظار کرتے رہے پھر انہوں نے آپ کے ساتھ کفر کیا۔
Top