Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور آپ ان کو اس شخص کا حال 1 ؎ بھی سنا دیں کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دی تھیں سو وہ ان سے نکل گیا۔ پھر اس کے پیچھے شیطان پڑگیا سو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا
1 ؎ مشتق از لہث معنانہ از تشنگی زبان پر ون اور دن صراح۔ یعنی زبان باہر نکالے۔ ترکیب : نباء الذی جملہ مفعول اتل فمثلہ مبتداء کمثل الکلب خبر ان تحمل شرط یلہث جزا جملہ محل حال میں ہے ذلک مبتداء مثل القوم الذین الخ خبر ساء بمعنی بئس اس کا فاعل ضمیر ہے جس کی تمیز مثلاً ہے القوم موصوف الذی موصوف کذبوا الخ صلہ جملہ صفت یہ موصوف صفت بحذف مضاف مخصوص بالذم اور وہ مضاف مثل ہے کس کے لئے کہ مخصوص بالذم جنس فاعل سے ہوتا ہے اور فاعل مثل ہے وانفسہم الخ اما ان یکون معطوفا علی کذبوا فیدخل فی خیر الصلہ بمعنی الذین جمعوابین التکذیب بآیات اللہ وظلم انفسھم واما ان یکون کلامامنقطعا۔ کشاف۔ تفسیر : عہد الٰہی کا ذکر کرکے اس عہد کے توڑنے والوں کا حال پر وبال سناتا ہے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو کہ جب مخصوص لوگوں پر عہد شکنی سے وبال آیا تو اور کسی کا کیا ٹھکانا ہے ؟ فرماتا ہے کہ اے نبی تو ان لوگوں کو اس کا حال سنا کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں ‘ نشانیاں ‘ کرامات یا علم کتاب الٰہی دیا اور وہ خواہش نفسانی کے تابع ہو کر عالم باقی سے رکا اور عالم فانی اور دنیائوں کی طرف جھک پڑا اور اس کا کتے کا سا حال ہوگیا کہ جو دوڑنے پر بھی ہانپتا ہے اور بیٹھا بھی ہانپتا ہے یعنی بغیر اضطراری حالت کے بھی گناہ کی طرف مائل ہے اور حالت اضطرار میں بھی۔ اس طرح ازلی گمراہ ہیں کہ گو ان کو بسبب ضعف کے خواہش نہ ہو مگر تو بھی فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں بوقت غلبہء نفس تو ہوتے ہی تھے۔ علمائِ مفسرین کے اس شخص کی بابت کہ جس کا اس آیت میں ذکر ہے چند قول ہیں ابن عباس و ابن مسعود ؓ و مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے بلعام بن باعور کی طرف اشارہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل مواب کے میدانوں میں نہر یرون کے اس پار شہر یریحو کے مقابل اترے تو بلق بنصفور جو موابیوں کا بادشاہ تھا ڈرا اور اس نے بلعام کے پاس قاصد بھیجے کہ آکر ان پر بددعا کر۔ اول اس نے انکار کیا۔ آخر آنے پر راضی ہوا اور رستہ میں اس کی سواری کا گدھا بیٹھ گیا۔ جب اس کو مارا تو خدا نے اس کو گویائی دی کہ میں ازخود نہیں بیٹھا بلکہ فرشتہ مجھے روکتا ہے۔ بلعام بلق کے پاس گیا اور ایک پہاڑ پر چڑھ کر بنی اسرائیل کو دیکھا مگر اس کے منہ سے بجائے لعنت کے کلمات برکت بنی اسرائیل کے حق میں بیساختہ نکلے (یہ قصہ توریت کتاب عدد کے 24۔ 23 باب میں مفصلاً مذکور ہے) اس آمادگی پر بلعام کی تمام کرامات و برکات جو خدا نے اس کو دی تھیں سلب ہوگئیں بنی اسرائیل کو سنایا جاتا ہے کہ جو مقبولِ الٰہی کا مقابلہ کرتا ہے اس کا یہ انجام ہوتا ہے۔ اب تم محمد ﷺ کا مقابلہ کرتے ہو کہ جس کا دین تمام عالم میں پھیلنے والا ہے۔ وہ چشمہ تو نہ بند ہوگا مگر تم بلعام کی طرح خاک ہو کر بہہ جاؤ گے۔ عبداللہ بن عمر ؓ و سعید بن المسیب و زید بن اسلم و ابو وراق (رح) کہتے ہیں کہ امیہ بن الصلت کی طرف اشارہ ہے جو کتب سماویہ سے واقف اور آنحضرت ﷺ کی رسالت سے ماہر تھا مگر حسد سے برگشتہ ہوگیا۔ قتادہ و عکرمہ و ابو مسلم کہتے ہیں یہ عام ہے اس میں ہر ایک شخص کی طرف اشارہ ہے کہ جس کو خدا علم وہدایت دے اور وہ خواہش نفسانی کا تابع ہو کر اس کو چھوڑ دے۔ علماء کو بھی اس قصہ کو سن کر پر حذر رہنا چاہیے۔ اللّٰہُمّ ثبتنا علی الہدیٰ ۔
Top