Mafhoom-ul-Quran - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دیں جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں، پس وہ ان کو چھوڑ نکلا، پھر اس کے پیچھے شیطان لگ گیا اور وہ گمراہوں میں ہوگیا۔
شیطان کی پیروی کا انجام تشریح : جیسا کہ پچھلی آیات میں بتایا گیا ہے کہ ہم سے اللہ عہد لے چکا ہے تو اس لحاظ سے ہمیں اپنے اعمال کا اور اپنی سزا و جزا کا خود ذمہ دار بنا دیا گیا ہے۔ پھر رب العالمین رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اچھی طرح سمجھا دیں اور ان کو اس شخص کی مثال بھی دیکر سمجھائو کہ وہ شخص (اس کی نشاندہی اللہ نے نہیں کی، لہٰذا اس سے مراد صرف انسان ہے) بڑا ہی دیندار، متقی اور مقبول الٰہی اتنا کہ جو دعا کرتا ضرور قبول ہوجاتی کہ یکایک اس پر دنیا کا لالچ سوار ہوگیا اور وہ روپے پیسے کے لالچ میں آکر دین کی باتوں کو توڑمڑور کر لوگوں کی مرضی کے مطابق بتانے لگا۔ لوگ کیونکہ اس کو بڑا اچھا اور اللہ والا انسان سمجھتے تھے، اس لیے اس کی باتوں کا نہ صرف یقین ہی کرتے بلکہ غلط باتوں کو اوروں تک بھی پہنچاتے۔ کرتے کرتے اس شخص کا ضمیر اور روح اس قدر مردہ ہوگئی، یعنی شیطان نے پوری طرح اس کو اپنے قبضہ میں کرلیا کہ وہ انسانیت کے درجہ سے گر کر جانوروں سے بھی بدتر ہوگیا۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ اس کتے جیسی دیتے ہیں کہ اس پر بوجھ لادو تو زبان نکالے رکھتا ہے نہ بوجھ ڈالو تو بھی زبان نکالے رکھتا ہے۔ ہانپتا اور کانپتا رہتا ہے، یعنی بےعمل عالم جانوروں سے بھی بدتر ہے اور جب وہ اپنے آپ کو دنیاوی فائدوں میں پوری طرح جکڑ کر دین، آخرت اور اللہ سے بالکل لاپروا ہوجاتا ہے تو پھر اس کا درجہ بہترین مخلوقات سے گر کر بدترین مخلوقات تک پہنچ جاتا ہے ایسے ہی لوگوں کی مثال رب العزت لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جب ایک دفعہ انسان ضمیر کے پہرے سے نکل کر شیطان کے قبضہ میں آجاتا ہے تو پھر اس پر تمام نیکی کے دروازے تقریباً بند ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ایسے شخص کا دل سخت ہوجاتا ہے اور جب دل سخت ہوجاتا ہے تو نہ وہ نیکی کی بات کا اثر لیتا ہے نہ اچھائی کا راستہ دیکھنا پسند کرتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ ان کو اندھا، بہرہ اور گونگا کہا جاسکتا ہے تو اس طرح کے لوگ اور اسی طرح جن بیشمار دنیا میں بھرے پڑے ہیں اور ایسے ہی لوگوں اور جنوں سے دوزخ بھر دیا جائیگا۔ مطلب سمجھانے کا یہ ہے کہ کبھی بھی علم و حکمت پر فخر کرکے اللہ سے دور اور عمل سے بےپروا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ دنیا حسد، بغض، لالچ اور ہر طرح کے گناہوں سے بھری پڑی ہے۔ کسی بھی وقت بڑائی تکبر یا لالچ میں آکر انسان شیطان کی پیروی کرسکتا ہے۔ ایک دفعہ ضمیر مرجائے تو پھر کوئی برائی برائی نہیں لگتی کوئی گناہ گناہ نہیں لگتا اور پھر انسان دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰکہتے ہیں کہ اگر انسان گناہوں کی طرف چل پڑے تو گندے راستے خودبخود اس کے لیے آسان ہوتے چلے جاتے ہیں اور اگر نیکی، عبادت اور اللہ کی رحمت کی طرف انسان چلنا چاہے تو نیکی کے راستے خودبخود اس کے لیے آسان ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یعنی انسان کا ارادہ اور ضمیر ہی اس کا رہبر ہوتا ہے اللہ نے تو دونوں راستے ہر ایک کے لیے کھول رکھے ہیں بندے کی اپنی مرضی ہے جو راستہ چاہے اختیار کرلے۔ اگلی آیات میں غفلت کا علاج بتایا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
Top