Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیے جس کو ہم نے اپنی نشانیاں دی تھیں پھر وہ ان سے بالکل نکل گیا سو شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں داخل ہوگیا،252 ۔
252 ۔ ایسا کوئی شخص حقیقۃ سلف میں گزر چکا ہے۔ کون تھا ؟ کہاں کا تھا ؟ کب تھا ؟ یہ متعین نہیں اور جب قرآن اس بارے میں ساکت ہے تو کسی فرد کی تعیین پر اصرار صحیح ہی نہیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ اشارہ رسول اللہ ﷺ کے معاصر امیہ بن ابی الصلت کی جانب ہے۔ وھو صاحبکم امیہ بن ابی الصلت (ابن جریر۔ عن ابن عمر) ایک گروہ کی رائے میں اشارہ عہد بنی اسرائیل کے مشہور زاہد بلعم باعور کنعانی کی طرف ہے ھو بلعم بن باعورا (ابن جریر عن ابن عباس ؓ رجل من بنی اسرائیل یقال لہ بلعم (ابن جریر، عن ابن مسعود ؓ) قال اخرون کان من الکنعانیین (ابن جریر) قال ابن مسعود ؓ وابن عباس ؓ ھو بلعام بن باعوراء (قرطبی) اسی بلعم باعور اء (قرطبی) اسی بلعم باعور کا ذکر توریت میں بھی ہے۔ (گنتی۔ باب 22 ۔ باب 23 ۔ باب 24) بہرحال اشارہ جس بھی فرد متعین کی طرف ہو اہل تحقیق کا اس پر اتفاق ہے کہ مثال عام ہے اور ہر اس شخص پر صادق آتی ہے کہ جو دین حق کی نعمت پاچکنے کے بعد پھر اس کا تارک ہوگیا ہو۔ قتادہ۔ عکرمہ۔ وغیرہ تابعین اور اکثر مفسرین کا مسلک یہی ہے۔ (آیت) ” واتل علیھم “۔ الخ، یعنی ایک ایسے شخص کا حال بہ طور مثال ونظیر پڑھ کر سنائیے۔ (آیت) ” الذی اتینہ ایتنا “۔ یعنی اسے اپنے احکام علم کی نعمت ہم نے عطاء کی تھی۔ (آیت) ” فانسلخ منھا “۔ یعنی اس نے ان نعمتوں کی قدر نہ کی بلکہ تمردد سرکشی پر آمادہ ہوگیا۔ ضمیر ھا، ایات کی طرف ہے اے من معرفۃ اللہ تعالیٰ اے نزع منہ العلم الذی کان یعلمہ (قرطبی) فانسلخ من الایات (مدارک) (آیت) ” فاتبعہ الشیطن “۔ سو شیطان اس پر مسلط ہوگیا۔ انسان جب اپنے ارادہ سے فسق اختیار کرتا ہے تو شیطان لازمی طور پر اس سے مستقل رفاقت پیدا کرلیتا ہے۔ “ محدث طیبی نے لکھا ہے کہ جو شخص اس مثال میں غور کرے گا اس پر روشن ہوجائے گا کہ علماء سوء اس سے بھی ابتر حالت میں ہیں مال وجاہ دنیوی اور اس کی لذتوں میں کھپے ہوئے۔ عن الطیبی ان من تفکر فی ھذ المثل تحقق لہ ان علماء السوء اسوء واقبح من ذلک (روح)
Top