بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کے لئے ان کا (وقت) حساب نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں پڑے (اس سے) منہ پھیر رہے ہیں
سورة الانبیاء : (رکوع نمبر 1) اسرارومعارف سورة انبیاء مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ، اس میں سات رکوع اور ایک سو بارہ آیات ہیں اس میں وہی مضمون مسلسل ارشاد ہوتا ہے کہ لوگ دنیا کے کاموں میں اور دولت کے انبار جمع کرنے میں یا پھر جسمانی ضروریات کی تکمیل میں اس قدر انہماک سے لگے ہوئے ہیں کہ آخرت ، حساب کتاب اور عذاب قبر سے بالکل غافل ہوچکے ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی آیات میں ایک سے ایک بڑھ کر اور نئی سے نئی دلیل ہوتی ہے مگر یہ اسے مذاق یا کھیل تماشہ سمجھتے ہیں یا اپنے شغل میں لگے رہتے ہیں اور ان دلائل کی پروا نہیں کرتے حالانکہ امور دنیا میں آدمی ساری عمر بھی جو کام کرتا ہے اگر اسے کوئی کہہ دے کہ اس کام میں اور زیادہ نفع کمایا جاسکتا ہے تو فورا اور پوری توجہ سے آدمی وہ نئی بات سننا چاہتا ہے اور آخرت جو ابدی ہے اور پیش آنے والی ہے اس کے بارے نہ تو کچھ کر رہے ہیں نہ کرنا چاہتے ہیں حتی کہ دلائل پہ غور کرنا بھی گوارا نہیں ایسا اس لیے ہے کہ ان کے قلوب اس طرف سے غافل ہوچکے ہیں ۔ (قلب ذاکر نہ ہو تو آخرت سے غافل ہوجاتا ہے) اور دنیا ہی کے مشاغل سے بھر چکے ہیں یعنی اگر قلب ذاکر نہ ہو آخرت سے غافل ہو کر پوری طرح دنیا کی لذات میں گم ہوجاتا ہے اور پھر بڑی سے بڑی دلیل بھی اس پر اثر نہیں کرتی یہ ظالم آپس میں خفیہ خفیہ بات تو ضرور کرتے ہیں کہ آدمی فطرتا آخرت سے لا تعلق نہیں ہو سکتا چناچہ اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے کہتے ہیں کہ یہ بندہ جو نبوت کا دعوی کرتا ہے بھلا ہم جیسا انسان اور بنی آدم ہی تو ہے یعنی اگر نبی ہوتا تو بشری خصوصیات سے بالاتر ہوتا شاید یہ جادو جانتا ہے اور دلوں کو مسخر کرنے کا کوئی علم جانتا ہے کہ اس سے عجائبات کا ظہور ہوتا ہے اور لوگ اس کی بات ماننے لگتے ہیں ، بظاہر تو کہتے ہیں کہ ہم اس معاملہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے مگر اندر ہی اندر خود کو تسلیاں دیتے ہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں ان سے کہہ دیجیے کہ بندوں سے تو پردہ کرلو گے مگر میرا پروردگار زمین وآسمان میں اور کائنات میں ہونے والی ہر سرگوشی بھی سنتا ہے بھلا اس کی ذات سے کیسے چھپا پاؤ گے کہ وہ خود سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی کہ جو بات لبوں تک نہ بھی پہنچے وہ اسے بھی جانتا ہے پھر اپنی بات پر بھی قائم نہیں رہتے کہ اس کی کوئی بنیاد تو ہے نہیں کہتے ہیں یہ محض پریشان خیال اور الٹے سیدھے خواب ہیں اور انہیں اللہ جل جلالہ کی طرف سے وحی کہہ کر اللہ جل جلالہ پر بہتان باندھا جا رہا ہے یا یہ شخص قادر الکلام شاعر ہے اور مرصع ومقفع عبارتیں جوڑ لیتا ہے اگر ایسا نہیں تو جس طرح پہلی امتوں نے انبیاء کرام ﷺ سے معجزات طلب کیے تھے تو انہوں نے وہی پیش کردیے تھے یہ ہمارے مطلوبہ معجزات کیوں پیش نہیں کرتے ، ان سے کہیے ساری بات کرو ان سے امتوں نے معجزات مانگے جب وہ معجزات ظاہر ہوئے تو وہ لوگ ایمان نہ لائے اور اس کے نتیجہ میں ہلاک ہوگئے ، بھلا یہ کیا ایمان لے آئیں گے ؟ یعنی علم الہی میں ہے کہ یہ بھی ایمان لانے کے لیے معجزہ طلب نہیں کر رہے اور من حیث القوم اللہ ہلاک نہیں کرنا چاہتا لہذا ان کا ہر مطلوبہ معجزہ ظاہر نہیں فرماتا یہ بھی اس کا انداز کرم گستری ہے ۔ (جاہل پر عالم کی تقلید واجب ہے) آپ سے پہلے بھی جس قدر انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور وحی کی دولت سے نوازے گئے سب انسان اور بنی آدم ہی میں سے تھے ان سے کہیے کہ خود تو جاہل ہیں علم رکھنے والوں سے یعنی پہلی کتابوں کے جو علماء ایمان لا چکے ہیں ان سے پوچھ لیں ، یہاں سے علماء نے ثابت فرمایا ہے کہ جاہل پر عالم کی تقلید واجب ہے ۔ کسی نبی کو ایسا مافوق الفطرت وجود نہیں بخشا گیا کہ اس میں بشری خصوصیات نہ ہوں کہ وہ کھاتا پیتا نہ ہو یا کبھی اسے موت نہ آئے ، پھر ان سب سے کیے گئے وعدے پورے ہوئے ان سب کو اللہ جل جلالہ کی رحمت اور ہر پریشانی سے دو عالم میں نجات نصیب ہوئی اور جن لوگوں کو ایمان نصیب ہوا ساتھ ان کو بھی اور ہمیشہ زیادتی کرنے والوں کو تباہ کردیا گیا یہی فطری قانون ہے جسے یہ تمام اقوام کے حالات ہیں دیکھ سکتے ہیں بلکہ اے اہل عرب تم پر خصوصا اور اہل ایمان پر عموما اللہ جل جلالہ کا احسان ہے کہ اس نے اپنی کتاب میں تمہارا تذکرہ فرما کر تمہیں ہدایت ہی نہیں دی دوام بھی بخش دیا اور دنیا کی کامیابی بھی عطا فرما دی ، اگر اللہ جل جلالہ کی کتاب نہ ہوتی تو عربوں کی تاریخ مختلف ہوتی اور کوئی انھیں جاننے والا نہ ہوتا کیا ان لوگوں میں اتنی عقل بھی نہیں کہ اللہ جل جلالہ کے احسانات کو سمجھ پائیں ۔
Top