بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
وقت قریب آ لگا ہے کہ لوگوں سے حساب لیا جائے ، اس پر بھی ان کا یہ حال ہے کہ رخ پھیرے ، غفلت میں پڑے چلے جا رہے ہیں !
لوگوں کے حساب کا دن قریب آرہا ہے اور وہ ابھی غفلت میں پڑے ہیں : 1۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک روز نبی اعظم وآخر ﷺ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کرکے ارشاد فرمایا کہ ” بعثت انا والساعہ کھاتین “۔ ” میری بعثت اس طرح ہوئی ہے کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں “ یعنی میرے بعد اب کوئی نبی ورسول نہیں آئے گا بلکہ میرے بعد اب قیامت ہی آئے گی اگر تم سنبھل جاؤ گے تو فائدے میں رہو گے اور اگر نہیں سنبھلو گے تو تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نیا پیغام سنانے والا نہیں آئے گا ۔ اس طرح آپ نے واضح فرما دیا کہ انسانی تاریخ اب اپنے آخری دور میں داخل ہوچکی ہے اس کا اول اور وسط گزر چکا ہے ۔ زیر نظر آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ” وقت قریب آچکا ہے کہ اب لوگوں کا حساب لیا جائے گا “ حساب کیا ہے ؟ کمی بیشی کے علم کا ایک طریقہ حساب بھی ہے چناچہ دوسری آسمانی کتابوں کی طرح قرآن کریم میں بھی یہ استعارہ استعمال ہوا ہے اور بار بار فرمایا ہے کہ ہم قیامت میں تمہارے اعمال کا حساب لیں گے مگر اس حساب سے بھی مطلوب یہی ہے کہ انسان کے اعمال کے اچھے اور برے کی وضاحت اس کے سامنے پیش کردی جائے تاکہ کسی کو اس معاملہ میں کوئی شک وشبہ نہ رہے اور اس کا کیا اس کے سامنے واضح کردیا جائے ۔ لیکن اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سے مراد نبی اعظم وآخر ﷺ کے مخالفین ومعاندین کو مطلع کرنا ہے کہ تم نے ہمارے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا جو زور لگایا ہے اور لگاتے ہی چلے جا رہے ہو ہم عنقریب اس کا محاسبہ تم سے کرنے والے ہیں لہذا ان کو واضح الفاظ میں بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے محاسبہ کا وقت قریب آگیا ہے اور اب ضروری ہے کہ فیصلہ کن معاملہ ظہور میں آجائے ، چناچہ وقت فی الحقیقت قریب آگیا تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ہجرت مدینہ کا واقعہ ظہور میں آیا اور دعوت حق کے فتح واقبال اور معاندین حق کے خران وادبار کا دور شروع ہوگیا اور دونوں مطلب ومفہوم اپنی اپنی جگہ درست ہیں ۔ ہر انسان کے لئے جو دنیوی زندگی اس کو دی گئی ہے فقط ایک بار ہے جو شخص بھی پیدا ہوا اس لحاظ سے جب وہ اپنے اعمال کا جوابدہ ہے تو جوں جوں زندگی گزر رہی ہے اور اس سے اس کے اعمال سرزد ہو رہے ہیں توں توں اس کی جوابدہی کا وقت بھی قریب سے قریب تر ہوتا چلا آرہا ہے لیکن انسان ہے کہ وہ اس غفلت میں پڑا ہے کہ ” ہنوز دلی دور است “۔ اس کو اس مثال سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ انسان نے جب سے اس دنیا میں قدم رکھا تو اس کی زندگی چونکہ ایک وقت تک متعین ہے اگرچہ اس کو اس کا علم نہیں اور وہ اس کی زندگی کو ہر دن ‘ ہر گھنٹہ اور ہر سیکنڈ کم کرتا جارہا ہے لیکن وہ خود اور اس کے اہل خانہ اس بھول میں مبتلا ہیں کہ ہمارا بیٹا بڑا ہو رہا ہے بظاہر یہ بات صحیح ہے لیکن اگر غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ اس کی زندگی روبہ زوال ہے اس لئے وہ بڑا ہونے کی بجائے چھوٹا ہوتا چلا جا رہا ہے اور تیری کلائی پر بندھی ہوئی یہ گھڑی اپنی ” ٹک ٹک “ کی آواز سے تیری زندگی کے ایک ایک سانس کو کم کرتی جارہی ہے لیکن تو خوش فہمی میں مبتلا ہے اور تیری خواہشات نے تجھے کس طرح گھیرے میں لے رکھا ہے اور تیری فکر کبھی اس اپنی کلائی پر باندھی ہوئی گھڑی کی طرف بھی مائل نہیں ہوتی کہ تو اس کی ” ٹک ٹک “ پر بھی کبھی دھیان دے لے اور اس کے درس سے بھی کبھی مستفید ہو۔
Top