بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
ترجمہ : لوگوں کے حساب کا وقت ان کے قریب آگیا ہے اور وہ غفلت میں پڑے اس سے منہ پھیر رہے ہیں۔
غافل لوگ، عقیدہ آخرت اور انبیاء کا رد کرنیوالوں کا انجام تشریح : ان آیات میں ان عربی بدوئوں کے اعتقادات ‘ اعتراضات ‘ ہٹ دھرمی اور دین سے نفرت کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ سیدنا آدم (علیہ السلام) کو نبوت دی گئی اور اس کے بعد تمام انبیاء نے لوگوں کو توحید کا سبق دیا اور سب سے آخر میں سیدنا محمد ﷺ تشریف لائے۔ انہوں نے بھی توحید کا ہی سبق دیا۔ جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا تھا کہ جب بھی کوئی نبی اور رسول کسی قوم کی طرف بھیجا جاتا تو لوگوں میں تین گروہ پیدا ہوجاتے یعنی مومن کافر اور منافق۔ منافقین دونوں طرف گھومتے رہتے کفار اعتراضات اور مخالفت رسول میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے جیسا کہ کفار مکہ نے آپ کو اس لیے رسول ماننے سے انکار کیا کہ آپ عام لوگوں کی طرح انسان ہیں۔ قرآن مجید پر یوں اعتراض کرتے کہ یہ تو شائد خیالی اور جنونی باتیں ہیں یا پھر اشعار ہیں جو آپ سناتے رہتے ہیں۔ حالانکہ قرآن پاک دنیا کی سب سے بہترین کتاب اور رشدو ہدایت کا مجموعہ ہے کیونکہ جن وانس کی پیدائش کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ اور روحانی اور اخلاقی تربیت دینے کے لیے نبی بھیجے اور یہی علم و معفرفت ہی تو ہے جس نے انسان کو تمام مخلوقات بلکہ فرشتوں پر بھی برتری دلائی۔ تسبیح و تقدیس تو فرشتے بےحد کرتے رہتے ہیں۔ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد بہت بڑا ہے یونہی کھیل تماشہ کے لیے دنیا نہیں بنائی گئی۔ انسان کو حق و باطل ‘ نیکی و بدی اور عمل و بےعملی کے میدان میں آزمانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اور ہمیں باخبر کردیا گیا ہے جیسا کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کو شیطان سے ہوشیار رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی آیات پر عمل کرنا ہر بندے کی اپنی ہی بہتری کے لیے ہے ایک جاہل سے جاہل آدمی بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ یہ اتنی بڑی کائنات اور اس کا اتنا بڑا انتظام جو بغیر کسی انجینئر مستری اور دکھائی دینے والے کاریگر کے چل رہا ہے یہ صرف کسی ایک ہی طاقت کا کام ہے اور وہ طاقت ہے اللہ وحدہ ‘ لا شریک لہ ایک معمولی گھر دو سربراہوں کے کنٹرول میں نہیں چل سکتا تو یہ اتنا بڑا نظام دو ہستیاں یا زیادہ کیسے چلا سکتی ہیں۔ توحید کے ثبوت کے لیے یہ ایک عمدہ مثال ہے کہ اللہ واحد ہے، پھر جب وہی ایک ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اور یہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان والی ساری چیزیں پیدا کیں تو پھر ضروری ہے کہ صرف اسی کا ہی شکر ادا کیا جائے۔ شکر ادا اسی طرح ہوسکتا ہے کہ اسی کو مدد کے لیے پکارا جائے مددمانگی جائے اپنی تمام ضرورتوں ‘ کامیابیوں اور صحت و تندرستی کے لیے صرف اللہ کو پکارا جائے۔ پکارنے اور مدد مانگنے کے طریقے قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں اب جو خوش نصیب ہیں اس پر ایمان لاتے ہیں۔ ان کو تو غیب کی باتیں بھی معلوم کروائی جاتی ہیں کہ اس زندگی کے بعد تم دوبارہ ضرور زندہ کیے جاؤ گے اس لیے یہ عارضی زندگی بڑی ہی احتیاط سے گزارو۔ کیونکہ یہاں گزارے ہوئے ہر لمحہ کا حساب لے کر آخرت میں ٹھکانا ملے گا۔ اچھے کاموں کا اچھا بدلہ۔ اور برے کاموں کا برا بدلہ۔ قرآن کو غور سے پڑھو ‘ کائنات کے ذرے ذرے پر اور خود اپنے آپ پر غور کرو تمہیں اللہ اپنی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب نظر آئے گا۔ انسانی تاریخ اور خاص طور سے قرآن نے جو گزری ہوئی قوموں کا ذکر کیا ہے وہ صاف طور پر یہی خبر دی گئی ہے کہ وہی قومیں پھلتی پھولتی ہیں جو اللہ کی نشانیوں پر غورو فکر کر کے ان سے نئی نئی ایجادات کرتی ہیں اور اللہ کے سامنے سجدہ شکر ادا کرتی ہیں۔ اور جو قومیں غفلت ‘ بدکرداری ‘ نفرت ‘ حسد اور بغض میں بےترتیب زندگیاں گزارتی ہیں تو ان کی انہی بدفعلیوں کی وجہ سے ان کو عذاب کے طور پر نیست و نابود کردیا جاتا ہے اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو آباد کردیا جاتا ہے۔ آج کل تو سائنسی ترقی کا زمانہ ہے اور سائنسی ترقی کی تو بنیاد ہی قرآن ہے۔ آج کا سائنسدان آخرت کو ماننے پر تیار ہو رہا ہے جب وہ ویڈیو فلم بنا کر اس کو دیکھتا ہے تو اسے یقین ہونے لگتا ہے کہ واقعی ہماری تمام زندگی فلم کی شکل میں ہمارے سامنے ضرور چلائی جاسکتی ہے۔ یہ تو ایک مثال ہے اب تو قدم قدم پر نت نئی ایجادات دکھائی دیتی ہیں۔ جن کی خبر چودہ سو سال پہلے قرآن پاک میں دی جا چکی ہے۔ کچھ ملحد تو ان کی وجہ سے ایمان کی روشنی سے فیض یاب ہوچکے ہیں اور کچھ سوچ میں پڑے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ یہ خبر ملی ہے کہ مئی 1969 ء میں امریکی محکمہ ڈاک نے اپالوہشتم کی خلائی پرواز کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا ان پر چاند کے مدار سے لی گئی زمین کی تصویر دکھائی گئی تھی اور ان پر یہ عبارت بھی درج تھی ” خدائے عظیم جس نے زمین و آسمان پیدا کیے۔ “ یہ سائنسدان اللہ کو مان گئے اس کی عظمت کو مان گئے اور اس کی خلاقی (پیدا کرنے کی طاقت) کو بھی مان گئے مگر دل سے ایمان لانے والے ان میں کتنے ہوئے ! یہ معلوم نہیں۔ غرض سب کچھ اللہ نے ہر شخص کو دے رکھا ہے۔ اس کے دیے ہوئے اختیارات کو بندہ اگر صحیح طور پر استعمال کرتا ہے تو اچھے نتائج نکلتے ہیں۔ اگر غلط سمت میں استعمال کرتا ہے تو ظاہر ہے اس کے برے نتائج نکلتے ہیں۔ مگر ہر کام میں اخلاص اور صراط مستقیم پر چلنے سے ہی اللہ راضی ہوتا ہے۔ برکت دیتا ہے ورنہ کفر کو ظلم کہا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” اور جو شخص ان میں سے یہ کہے کہ اللہ کے سوا میں معبود ہوں تو اسے ہم دوزخ کی سزا دیں گے اور ظالموں کو ہم ایسی ہی سز ادیا کرتے ہیں۔ “ (سورۃ الانبیاء آیت 29 )
Top