بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
(قریب آگیا ہے لوگوں کے لیے ان کے محاسبے کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ ۔ (الانبیاء : 1) (قریب آگیا ہے لوگوں کے لیے ان کے محاسبے کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ ) قریش کے رویئے پر تنبیہ قریش اور باقی دنیا کے بگاڑ کا سب سے بڑا سبب دنیا کے بارے میں ان کا غلط تصور تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس دنیا کو اس کے پیدا کرنے والے نے بغیر کسی مقصد کے پیدا کیا ہے۔ اور اگر اس کا کوئی مقصد ہے تو وہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ باقی مخلوقات کی طرح انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ زمین پہ اپنی مرضی کی زندگی گزاریں، کھائیں پییں عیش کریں، لڑیں بھڑیں غرضیکہ جو چاہیں سو کریں۔ اپنے اپنے وقت میں طبعی عمر گزار کر موت کا شکار ہوجائیں اس کے سوا ان کا اور کوئی مقصد نہیں۔ اسی غلط فہمی کی وجہ سے قریش کو ان کے غیرسنجیدہ رویئے پر بار بار توجہ دلانے کے باوجود ان پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔ وہ ہر بات کو ایک مذاق سمجھتے تھے اور یہ بات کہ ایک دن دنیا کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور ازاول تا آخر اس دنیا میں پیدا ہونے والے انسان زندہ کیے جائیں گے۔ ایک محشر بپا ہوگا، ہر شخص اپنا نامہ عمل لے کر پہنچے گا، ایک ایک عمل کا حساب ہوگا اور اسی حساب کے مطابق جزاء و سزا کا ترتب ہوگا۔ قریش یہ باتیں سن کر ازراہِ استہزاء یہ کہتے تھے کہ اربوں کھربوں مخلوق نہ جانے کہاں پیدا ہوئی اور کہاں مٹی میں مل دل گئی۔ اتنی بڑی تعداد میں مٹی بن جانے والے لوگوں کو دوبارہ زندگی کیسے مل سکتی ہے اور اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ ایک آدمی زندگی میں بیشمار اعمال انجام دیتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایک عمل کا ریکارڈ رکھا جائے اور پھر قیامت کے دن اسی ریکارڈ کو نامہ عمل کی صورت میں ایک ایک آدمی کے ہاتھ میں دے کر کہا جائے کہ خود اسے پڑھ کے دیکھو کہ تم دنیا میں کیسے زندگی گزار کے آئے ہو۔ یہ سراسر ایسی باتیں ہیں جن کی حیثیت خیالی تصورات سے زیادہ نہیں، ہم ان اوہام و تصورات کی بناء پر اپنے عیش کو کیسے مکدر کرلیں، اپنی زندگی کے رنگ میں بھنگ کیسے ڈال لیں۔ ان کے اسی رویئے پر تنبیہ کرنے کے لیے غیرمعمولی طرز بیان اختیار کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے غیرسنجیدہ رویئے پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ محاسبے کا مفہوم ارشاد فرمایا گیا کہ لوگوں کے محاسبے کا وقت قریب آ لگا ہے اور ان بدنصیبوں کا حال یہ ہے کہ یہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ محاسبے کا وقت قریب آنے کا معنی و مفہوم کیا ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ قیامت کا زمانہ قریب آگیا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کو اپنا حساب دینے کے لیے اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا۔ قریب آنے سے مراد وہ ہے جسے آنحضرت ﷺ نے اس طرح واضح فرمایا بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ ” میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں۔ “ آپ ﷺ نے دو انگلیاں کھڑی کرکے فرمایا کہ جس طرح دو انگلیوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں، میرے اور قیامت کے درمیان بھی کوئی اور نبی آنے والا نہیں۔ میں انسانوں کی ہدایت کے لیے آخری پیغمبر ہوں، جسے سنبھلنا ہے اس کے لیے یہی ایک موقع ہے، کیونکہ میرے بعد کوئی اور آنے والا نہیں۔ رہی یہ بات کہ آنحضرت ﷺ کی دعوت کو چودہ صدیاں گزر گئیں۔ اگر قیامت قریب ہوتی تو اب تک آچکی ہوتی۔ لیکن یہ محض قلت فکر کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ کائنات اور انسانی زندگی ایسی حقیقت نہیں جسے ہم اپنے حساب کے پیمانوں سے ناپیں۔ جس طرح کائنات کی وسعتیں آج تک علم کی پیمائش میں نہیں آسکیں، اسی طرح اس کا زمانہ بھی ہمارے اندازوں میں آنے والا نہیں۔ قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کا جو زمانہ گزر چکا وہ زیادہ ہے اور جو باقی ہے وہ تھوڑا ہے۔ اور اصلاح و ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فیصلے کے مطابق بعثت انبیاء کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کے آخری رسول تشریف لا چکے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ باقی زمانہ کتنا رہ گیا ہوگا۔ رہا چودہ صدیوں کا گزر جانا تو ہم اپنے اندازوں میں اسے کتنا بھی زیادہ سمجھیں لیکن کائنات کے سفر میں یہ ایک مختصر زمانہ ہے۔ معراج کے سفر میں آنحضرت ﷺ کو دنیا ایک بڑھیا کی شکل میں دکھائی گئی تھی۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا تھا کہ حضور ﷺ آپ اس سے دنیا کی عمر کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ اس کا بچپن، لڑکپن، جوانی اور ڈھلتی عمر کا زمانہ گزر چکا ہے، اب یہ بڑھاپے میں ہے۔ ظاہر ہے کہ گزرے ہوئے زمانہ کی نسبت سے اب اس کا خاتمہ قریب ہے۔ عرب کہتے ہیں کُلُّ مَاہُوَ آتٍ قَرِیْبٌ ” ہر وہ چیز جس کا آنا یقینی ہو وہ قریب ہوتی ہے۔ “ اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ قیامت بہت قریب ہے کیونکہ اس کا آنا بےحد یقینی ہے۔ محاسبہ کا وقت قریب آنے کا دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہر شخص کی موت اس کے پائوں کے تسمے کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ کسی وقت بھی آخری وقت آسکتا ہے۔ موت کے بعد قبر میں پہنچتے ہی ہر انسان کو ایک اجمالی محاسبے سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے اسے شخصی قیامت کہا گیا ہے آنحضرت ﷺ کا ارشادمبارک ہے مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ ” جو شخص مرگیا اس کی قیامت تو قائم ہوگئی۔ “ اس مفہوم کے اعتبار سے تو حساب کا وقت قریب آنابالکل ہی واضح ہے کیونکہ ہر شخص کی موت خواہ عمر کتنی ہی ہو، کچھ دور نہیں اور جبکہ عمر کی انتہا معلوم نہیں تو ہر وقت آدمی کے سر پر موت کا خطرہ سوار رہتا ہے۔ بعض اہل علم نے اس کا ایک اور مطلب سمجھا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ سورة طٰہٰ کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے قریش کو وارننگ دی ہے کہ ہر باخبر شخص اس کشمکش کے نتیجے کے انتظار میں ہے جو مکہ معظمہ میں حق و باطل کے درمیان برپا ہے۔ تم بھی انتظار کرو، عنقریب دیکھ لو گے کہ صحیح راستے پر کون تھا۔ آنحضرت ﷺ تمہیں جس انجام سے ڈرا رہے تھے اور تمہارے لیے عافیت کا راستہ کھول رہے تھے ان کی بات صحیح تھی یا تمہارا غیرسنجیدہ رویہ صحیح تھا۔ اور تم بات بات پر ان سے آیت عذاب کا مطالبہ کررہے تھے۔ اب تمہارا مطالبہ پورا ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔ یعنی اب وہ وقت دور نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کامیابی کی منزلیں طے کرلے گی اور تم میدانِ بدر میں اس عذاب کی ایک جھلک دیکھو گے یعنی تمہاری قیادت کی پہلی صف ہلاک کردی جائے گی۔ اگر مکہ معظمہ میں میں قبول ایمان کا سلسلہ اندر ہی اندر دھیرے دھیرے جاری نہ رہتا تو پیغمبر کی ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق تمہیں تباہ کردیا جاتا۔ جب تک آنحضرت ﷺ نے ہجرت نہیں فرمائی تو ان کا وجود تمہاری خیریت کی ضمانت تھا اور جب وہ ہجرت گئے تو وہ مظلوم و مقہور لوگ جو قبولیتِ ایمان کے باعث تمہارے گھروں میں زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ان کا استغفار تمہاری خیریت کا باعث رہا ہے۔ لیکن اب فتح مکہ کا وقت قریب آرہا ہے، جب وہ انقلاب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوجائے گا جس کے لیے آنحضرت ﷺ تشریف لائے تھے اور تمہارا محاسبہ بھی تمہارے سر پر آپہنچے گا۔ اب وہ شخص بچے گا جو ایمان لے آئے گا یا ملک چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔ اس آیت کریمہ میں ان اہل علم کے نزدیک اس محاسبے کی طرف اشارہ ہے۔ اس عاجز کی ناچیز رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ ان تینوں مطالب کی طرف اشارہ کررہی ہے کیونکہ ان تینوں میں آپس میں کوئی تضاد نہیں۔ اور ساتھ ہی نہایت تأسف سے فرمایا گیا ہے کہ کیسے بدنصیب ہیں یہ لوگ کہ نہایت خطرناک لمحہ ان کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ نہ صرف غفلت میں سر ڈبوئے ہوئے ہیں بلکہ اس دعوت سے اعراض کررہے ہیں جس کا پیغام ان کے لیے زندگی بخش ثابت ہوسکتا ہے۔
Top