بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کے حساب کا وقت آگیا ہے اور وہ غفلت میں اس سے منہ پھیر رہے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 10 اقترب قریب آگیا۔ محمدیث نیا۔ استمعوہ وہ اس کو سنتے۔ یلعبون وہ کھیل کود میں لگے ہیں۔ لاھیۃ غفلت، بھولے ہوئے۔ اسروا چپکے چپکے کرتے ہیں۔ النجویٰ سرگوشی مشورے۔ اضغاث پراگندہ، پریشان خیال۔ احلام خواب۔ اسئلوا پوچھ لو، سوال کرو۔ جسد جسم۔ صدقنا ہم نے سچ کر دکھایا۔ المسرفین حد سے گزرنے والے۔ تشریح :- آیت نمبر 1 تا 10 اعلان نبوت کے بعد ابتداء میں سرداران مکہ نے نبی کریم ﷺ اور قرآن کریم کی تعلیمات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جو شخص بھی آپ کی باتوں کو سنتا اس کا مذاق اڑاتا، بھبتیاں کستا اور ہر طرح کی اذیتیں پہنچانے میں کسر نہ چھوڑتا تھا ان کا گمان یہ تھا کہ یہ سب کچھ وقتی تحریک اور عارضی باتیں ہیں بہت جلد یہ تحریک دم توڑ دے گی۔ لیکن جب سرداران مکہ نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کی مقناطیسی اور انقلابی شخصیت اور دلوں کو گرما دینے والی تعلیمات کو بےپناہ مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور ہر گھر اور ہر فرد بڑی یزی سے متاثر ہوتا جا رہا ہے۔ تو انہیں اس تمام صورتحال پر سنجیدگی سے فیصلہ کرنے کی فکر لاحق ہوگئی بنو قریش کی ایک اہم ترین شخصیت حضرت امیر حمزہ ؓ کے اسلام قبول کرنے سے سرداران مکہ اور بھی بوکھلا اٹھے اور اس نئی تحریک سے اس قدر خوفزدہ ہوگئے کہ سب کے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور نہایت خاموشی اور راز داری سے یہ طے کیا کہ نبی کیم ﷺ آپ کے جانثار صحابہ اور قرآنی تعلیمات کا مسلسل مذاق اڑایاجائے اور لوگوں میں خوف و ہر اس پھیلا دیا جائے جس سے ہر شخص ان کے قریب جانے سے گھبرانے لگے یا نفرت کرنے لگے۔ چناچہ ابن ہشام نے جلد اول میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ قریشی سردار عتبہ ابوالولید قریشی سرداروں کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا جس میں اسی بات پر بحث ہو رہی تھی کہ اس صورتحال کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟ ابوالولید نے کہا میری تجویز یہ ہے کہ اس قصے کو ختم کرنے کے لئے میں خود جا کر محمد (ﷺ) سے یہ معلوم کرلوں کہ آخر وہ ان تمام باتوں سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ کچھ چاہتے ہیں تو اس معاملے کو آپس میں بیٹھ کر طے کرلیتے ہیں اور ان کو کچھ رعایتیں دیدیتے ہیں قریشی سرداروں کو ابوالولید کی فہم و فراست پر پورا اعتماد تھا کہنے لگے کہ تم اٹھو اور محمد ﷺ سے گفتگو کرو چناچہ عتبہ ابوالولید نبی کریم ﷺ کے پاس گیا کہنے لگا کہ ” بھتیجے تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم تمہیں کتنی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں تمہارا نسب بھی اعلیٰ ترین ہے مگر تم مکہ والوں سے ایسی باتیں کر رہے ہو جس سے ان میں شدید انتشار اور زبردست اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ تم ان کے معبودوں کو برا کہتے ہو “ تم ان کے گذرے ہوئے لوگوں کی برائیاں بیان کرتے ہو میری بات غور سے سنو، میں چند باتیں بتاتا ہوں اگر سمجھ میں آجائیں تو ان پر عمل کرلینا۔ نبی کریم ﷺ نے نہایت تحمل اور برد باری سے فرمایا کہ اے عتبہ ابو الولید تم کہو میں تمہاری باتیں سن رہا ہوں۔ ابوالولید نے کہا اگر تم یہ سب کچھ مال و دولت کے لئے کر رہے ہو تو ہم سب مل کر تمہیں اتنا مال جمع کر کے دیدیں گے جس سے تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ گے۔ اگر تم ان باتوں کے ذریعے حکومت کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ اگر تمہارے اوپر کسی جن وغیرہ کا سایا ہے تو ہم اپنا مال خرچ کر کے تمہارا علاج کرا سکتے ہیں اور اس سے تمہیں نجات دلانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ جب عتبہ ابوالولید یہ باتیں کرچکا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابو لولید تم نے کہا میں نے سن لیا اب تم میری چند باتیں بھی سن لو، اس نے کہا سنائیے۔ نبی کریم ﷺ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورة حم السجدہ کی آیتیں تلاوت کرنا شروع کیں اور کافی دیر تک تلاوت فرماتے رہے جب آیت سجدہ آئی تو نبی کریم ﷺ نے سجدہ فرمایا۔ عتبہ ابوالولید ان تمام آیات کو غور سے سنتا رہا۔ پھر وہ اٹھ کر اپنے ساتھیوں کے پاس آگیا۔ سب نے عتبہ کے بدلے ہوئے انداز اور چال سے سمجھ لیا تھا کہ عتبہ میں تبدیلی آ چکی ہے اور اس کا رنگ ڈھنگ بدلا ہوا ہے منتظر لوگوں نے پوچھا ابو الولید کیا خبر لائے ہو اس نے کہا اللہ کی قسم جو کچھ انہوں نے مجھے سنایا ہے آج تک میں نے ایسا کلام نہیں سنا، وہ شعر، جادو یا کہانت نہیں ہے۔ عتبہ نے کہا اے قریشیو ! تم وہ کرو جو میں کہتا ہوں۔ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو اور ان سے الگ رہو، کیونکہ جو بات میں نے سنی ہے اس کی بڑی اہمیت ہے اگر عرب کے لوگ اس پر غالب آگئے تو تمہارے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہوگا۔ دوسروں پر ہوگا۔ اور اگر یہ عربوں پر غالب آگئے تو ان کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی۔ ان کی عزت تمہاری عزت ہوگی۔ اس وقت موجود تمام لوگوں نے کہا کہ ابوالولید تمہارے اوپر بھی اس کا جادو چل گیا ہے۔ عتبہ ابوالولید نے صرف اتنا کہا کہ یہ میری رائے ہے باقی تمہیں جو کچھ کرنا ہے وہ کرو۔ یہ تھے وہ واقعات جنہوں نے پورے قریش کو اس نقطہ پر جمع کردیا تھا کہ اگر اب بھی نبی کریم ﷺ اور قرآن کریم کے متعلق پروپیگنڈے کی مہم کو تیز نہ کیا گیا تو سارا عرب مسلمان ہوجائے گا اور ان سرداروں کی اجارہ داریاں ختم ہو کر رہ جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی مہم کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ محمد (ﷺ) تو ہمارے ہی جیسے بشر ہیں کھاتے ہیں، پیتے ہیں، بازاروں میں چلتے پھرتے اور بیوی بچے رکھتے ہیں ان میں اور ہمارے درمیان وہ کونسی خاص بات ہے جس کی بنیاد پر ہم ان کو نبی مان لیں۔ اگر اللہ کو نبی بنا کر بھیجنا ہی تھا تو ان کے ساتھ کچھ نشانیاں اور معجزات بھیجتے جنہیں دیکھ کر ہم ایمان لاتے کبھی کہتے کہ یہ تو جادوگر ہے جو بھی ان کے قریب جاتا ہے وہ اس پر جادو کردیتے ہیں اور کوئی ان کے جادو سے بچ نہیں سکتا۔ وہ لوگ سے خود ہی سوال کرتے کہ کیا تم جانتے بوجھتے ان کے جادو کے چکر میں پھنسنا گوارا کرو گے ؟ کبھی وہ کہتے کہ یہ محمد (ﷺ) کوئی کاہن یا شاعر ہیں ان کے بکھرے ہوئے پراگندہ خیالات ہیں جن کو وہ خود گھڑ کر اور بنا کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے ان تمام سوالات اور پروپیگنڈے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ اعتراض کرنے والے اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے کہ اگر نبی بشر نہیں ہوتا تو اللہ کی مخلوقات میں آخر وہ کونسی مخلوق ہے جوب شر سے زیادہ محترم ہے۔ فرمایا کہ اللہ کے نبی اور رسول بشر ہی ہوتے ہیں جن کی طرف اللہ وحی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھا سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے گویا یہ فرمایا ہے کہ اے لوگو ! تمہارے دل اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ تمام انبیاء کرام بشر ہی ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں مزید یقین حاصل کرنا ہے تو وہ ان اہل کتاب سے پوچھ کر دیکھ لیں جن سے وہ ہر بات پر مشورہ کرنے پر اعتماد محسوس کرتے ہیں اور ان کی باتوں پر یقین بھی کرلیتے ہیں ان سے پوچھئے جتنے نبی اور رسول آئے ہیں کیا وہ بشر نہیں تھے ؟ کیا وہ فرشتے تھے ؟ کیا ان کو بھوک پیاس نہیں ستاتی تھی وہ موت کے دروازے سے نہیں گذرتے تھے ؟ کیا کوئی ایسا جسم بھی ہے جس پر موت طاری نہ ہوگی ؟ وغیرہ وغیرہ یقینا انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہر شخص کو اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ ان باتوں سے کہیں اس طرح کا عذاب نازل نہ ہوجائے جس طرح پہلے نافرمانوں پر نازل ہوئے تھے جنہوں نے قوموں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ اللہ کا یہ نظام ہے کہ وہ اپنے فرماں برداروں کو بچا لیتا ہے اور نافرمانوں کو ان کے برے انجام تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ فرمایا کہ اے نبی آپ ان لوگوں کے غلط بےبنیاد پروپیگنڈوں اور باتوں کا خیال نہ کیجیے بلکہ اللہ نے آپ کو جس کتاب سے نوازا ہے اور جو پیغام عطا فرمایا ہے اس کو ہر شخص تک پہنچا دیجیے۔ کیونکہ یہ کتاب انہیں لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کی گئی ہے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اس نے جو وعدے کئے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے۔ ان کو کوئی طاقت و قوت اور کسی کا پروپیگنڈا روک نہیں سکتا۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائی ہیں۔ یہ ملاحظہ کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ؟ ارشاد ہے لوگوں کے حساب کتاب کا وقت بہت قریب آگیا ہے مگر وہ اپنی غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے منہ پھیر کر چل رہے ہیں ان کے پاس جب بھی کوئی نئی آیت آتی ہے تو وہ اس کو لاپرواہی سے سن کر پھر اپنے کھیل کود اور تماشوں میں لگ جاتے ہیں۔ فرمایا کہ ان کے دل غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں، وہ چپکے چپکے سرگوشیوں کے انداز میں باتیں کر کے کہتے ہیں یہ تو تمہارے جیسا ہی بشر ہے کیا پھر تم جانتے بوجھتے ان کے جادو کے جال میں پھنسنا چاہتے ہو (نعوذ باللہ) فرمایا پروردگار تو ہر اس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں ہے وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ کفار یہ کہتے ہیں کہ یہ تو پریشان اور بکھرے ہوئے خیالات ہے۔ جن کو اس شخص نے خود ہی گھڑ لیا ہے کبھی کہتے ہیں کہ یہ تو شاعر ہے ورنہ یہ اور نبیوں کی طرح کوئی نشانی (معجزہ) لے کر کیوں نہیں آئے۔ اللہ نے فرمایا کہ ان سے پہلے کوئی بستی ایسی نہیں ہے جس کے تمام لوگوں نے اللہ کے معجزات (نشانیاں) دیکھ کر ایمان قبول کیا ہو بلکہ انکار ہی کیا ہے جس کے نتیجے میں ان کو ہلاک اور برباد کردیا گیا۔ اگر آج ان کو کوئی معجزہ دکھا دیا جائے تو کیا وہ اس پر ایمان لائیں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے ہیں وہ انسان ہی تھے جن کی طرف ہم نے وحی نازل کی تھی آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں اس کا علم نہیں ہے تو جاننے والے اہل کتاب سے پوچھ کر دیکھ لو۔ ہم نے ان انبیاء کے جسم ایسے نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور وہ ہمیشہ جینے والے ہوں اور پھر ہم نے ان سے کئے ہوئے وعدوں کو سچا کر دکھایا۔ ہم نے جس کو چاہا بچایا اور حد سے گذرنے والوں کو ہلاک کردیا۔ فرمایا کہ اللہ نے جس کتاب کو نازل کیا ہے اس میں تمہارا ہی ذکر ہے یعنی یہ کتاب تمہاری ہدایت کے لئے نازل کی گئی ہے کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ؟
Top