بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
قریب آ لگا ہے لوگوں سے ان کے حساب کا وقت، اور وہ ہیں کہ غفلت میں پڑے منہ موڑے بیٹھے ہیں،1
1 یوم حساب کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " قریب آلگا ہے لوگوں سے ان کے حساب کا وقت مگر لوگ ہیں کہ غفلت میں پڑے ہیں "۔ کیونکہ اس نے بہرحال آ کر رہنا ہے اور آنے والی ہر چیز بہرحال قریب ہی ہوتی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے " کُلّ آتٍ قَرِیْب "۔ اور اس کے قرب کی سب سے بڑی نشانی خود حضرت خاتم الانبیائ ﷺ کی بعثت اور تشریف آوری ہے۔ جس کے بعد اب قیامت تک کسی پیغمبر نے نہیں آنا۔ اسی لئے آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر ارشاد فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح ہیں جس طرح یہ دونوں انگلیاں۔ یعنی جس طرح ان دونوں کے درمیان کسی تیسری انگلی کا فاصلہ نہیں اسی طرح اب قیامت کے اور میرے درمیان کسی اور نبی نے نہیں آنا۔ نیز ہر شخص کی قیامت تو اس کی اپنی موت ہی ہے۔ موت کے بعد کسی انسان نے اس دنیا میں بہرحال واپس نہیں آنا۔ اور ہر کسی کی موت اس کے سر پر اس طرح کھڑی ہے کہ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ اس کو کب، کہاں اور کس طرح آجائے ؟۔ سو اس طرح لوگوں کے حساب کا وقت بہرحال قریب آ لگا ہے اور وہ ہیں کہ اس کی فکر و تیاری کی بجائے غفلت کا شکار ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اسی لئے اللہ پاک اپنی بےپایاں رحمت و عنایت سے بندوں کو اس کی یاد بار بار اور طرح طرح سے دلا رہا ہے تاکہ وہ اس کیلئے تیاری کرسکیں قبل اس سے کہ فرصت حیات انکے ہاتھ سے نکل جائے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { اَتٰی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ سُبْحَانَہ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ } ۔ (النحل : 1) ۔ نیز فرمایا گیا ۔ { اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ، وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌ} (القمر : 1-2) ۔ نیز ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ وَعْدَہ، وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ } ۔ (الحج : 47) ۔ نیز فرمایا گیا ۔ { اِنَّہُمْ یَرَوْنَہ بَعِیْدًا وَّنَرَاہُ قَرِیْبًا } (المعارج : 6-7) ۔ سو اس طرح کے ان تمام ارشادات سے یہ واضح فرما دیا گیا کہ قیامت کا وقت قریب ہے۔ لہذا اس کے لئے تیاری کرو قبل اس سے کہ فرصت عمر ہاتھ سے نکل جائے اور پھر تلافی مافات کی کوئی صورت ممکن نہ رہے ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوفِیْق وَھُوَ الْہادی اِلٰی سَوَائِ الصِّراط۔ بہرکیف یہی مطلب ہے قیامت کے قریب آلگنے کا اور اس میں لوگوں کی تنبیہ ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر آخرت کیلئے تیاری کریں اور فرصت حیات کو غنیمت سمجھیں۔ (محاسن التاویل، معارف القرآن، فتح القدیر، ابن کثیر اور صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ یہاں پر ان لوگوں کے بیک وقت دو جرموں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک غفلت و لاپرواہی اور دوسرا اعراض و روگردانی ۔ والعیاذ باللہ من کل زیغ و انحراف - 2 غفلت و لاپرواہی بیماریوں کی بیماری ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یہ لوگ ہیں کہ غفلت میں پڑے ہیں منہ موڑ کر "۔ اور وہ اس بارے میں غور و فکر سے کام نہیں لیتے بلکہ دنیا اور پیٹ ہی کے پیچھے لگے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور ان کو اس کا کوئی خیال اور پاس و احساس نہیں کہ ان کیلئے کس قدر ہولناک دن اور کیسا مشکل وقت آنے والا ہے۔ اور یہ کہ فرصت حیات کے خاتمے کے بعد اس کیلئے تیاری کی کوئی صورت پھر ممکن ہی نہیں ہوگی۔ سو آیت کریمہ کا اصل خطاب تو اگرچہ کفار و مشرکین سے ہے جو آخرت کے قائل ہی نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمان کا بھی یہی حال ہے کہ وہ آخرت سے غافل اپنے مادہ اور معدہ کے تقاضوں کی تکمیل میں لگا ہوا ہے۔ اور اس کو اس سے فرصت ہی نہیں ملتی ۔ الاء ماشاء اللہ ۔ (معارف للکاندھلوی (رح) ) ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں۔ سو یہ غافل ہیں اپنے مقصد حیات سے اور یہ غافل و لاپرواہ ہیں زندگی کے اصل اور بنیادی حقائق سے غافل و لاپروا۔ سو یہ غافل و لاپرواہ ہیں اپنے خالق ومالک کی معرفت اور اس کے ذکر اور اس کی عبادت و بندگی اور اس کی یاد دلشاد سے۔ ان سب اصلی اور بنیادی حقائق سے۔ اپنی پیٹ پوجا اور اہواء واغراض کی پرستش میں لگے ہوئے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے عقل جیسے جوہر عظیم کو بھی مادہ و معدہ کی خدمت میں لگا دیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ غفلت و لاپرواہی سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔
Top