بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mazhar-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کا حساب (ف 1) (اعمال کا وقت) نزدیک آگیا اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں
قریش کو اللہ تعالیٰ کی تنبیہ۔ (ف 1) شان نزول : مشرکین مکہ نے دین ابراہیمی کو بگاڑ کر بت پرستی اور طرح طرح کی خرابیاں اس میں پیدا کرلی تھیں، جب قرآن شریف میں بت پرستی اور اس کی خرابیوں کی مذمت روز بروز اترنے لگی تو وہ لوگ رسول اللہ کی نسبت طرح طرح کی باتیں اور مشورے کرتے تھے کوئی جادوگر کہتا تھا کوئی شاعر کہتا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح شاعرلوگ اپنے شعروں میں خیالی باتیں باندھتے ہیں، ویسی خیالی باتیں قرآن میں ہیں، کوئی کہتا تھا، اللہ کا رسول آدمی تو نہیں ہوسکتا فرشتہ ہونا چاہیے، کوئی کہتا تھا، اگر یہ رسول ہیں تو پہلے رسولوں کی طرح کوئی ایسا تھا، اگر یہ رسول ہیں تو پہلے رسولوں کی طرح کوئی ایسا معجزہ کیوں نہیں لاتے، قریش کی ان باتوں کا جواب رسول اللہ نے اتناہی دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے آسمان و زمین کی کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے وہ تمہارے بےادبی کی باتوں اور خفیہ مشوروں کو خوب سنتا اور جانتا ہے ایک دن اس کا خمیازہ تم کو بھگتنا پڑے گا، لیکن قریش کے شبہات جو رسول اللہ کی نبوت کی نسبت تھے ، ان کا جواب ادا ہوجانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں، اور فرمایا کہ نبی آخرالزمان یہی ہیں۔ دنیا کی مدت ان نبی آخرالزمان کے بعد تھوری رہ گئی ہے حساب وکتاب کا وقت قریب آگیا ہے لوگ اپنی غفلت ہی میں ہیں امرحق سے منہ پھیر رہے ہیں ۔ اور ان کے پاس جو اہل کتاب رہتے ہیں، ان سے ان کو پوچھ لینا چاہیے کہ ہمیشہ سے رسول انسان ہی آتے رہے ہیں فرشتے نہیں آتے، اور قریش کہتے ہیں کہ کوئی معجزہ ایسا پچھلے انبیاء کا ساظاہر ہونا چاہیے، اس کا جواب یہ ہے کہ تجارت کی غرض سے شام کے ملک کو جب یہ لوگ جاتے ہیں تو قوم ثمود اور قوم لوط کی بہت سی بستیاں ان کو اجڑی ہوئی نظرآتی ہیں، پھر ان کو یہ کیونکر معلوم ہوا کہ پہلے رسولوں کے معجزے سے پہلی امتیں قائل ہوسکیں، اور وہ ایمان لے آئیں، یہ نہیں جانتے کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ انجام ان پچھلی قوموں کا کیوں ہوتا جوان کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ طرح طرح کے عذابوں سے وہ قومیں اجڑگئیں پھر فرمایا کہ اللہ کے رسول کی شان میں بےادبی کے لفظ منہ سے نکالنے والے بڑے بڑے سرکش مشرکین مکہ میں بڑی ذلت سے بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے پھر رسول اللہ نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہوکریہ فرمایا کہ اب تم نے اللہ کے وعدہ کو سچا پالیا۔ معتبر سند سے طبرانی میں روایت ہے جس میں حضرت عبداللہ بن عباس نے ذکر کیا ہے کہ اب تو یہ قریش نادانی سے رسول اللہ اور قرآن کی شان میں طرح طرح کی بےادبی کے لفظ منہ سے نکالتے ہیں ، لیکن ان میں سے جو لوگ رسول اللہ کو سچا اور قرآن کو اللہ کا کلام جانیں گے ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ ان کو بڑی عزت اور ناموری حاصل ہوگی۔
Top