Mafhoom-ul-Quran - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ اس سے چلا اٹھے
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور قوم کا قصہ تشریح : یہاں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کا ذکر کفار مکہ کے سامنے کیا گیا تو وہ لوگ پھولے نہ سمائے اور نعرے لگانے لگے اور شور مچانے لگے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی تو ان کی قوم اللہ مانتی ہے کوئی ان کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں اگر ہم نے بیشمار معبود بنا رکھے ہیں تو کونسی عجیب بات ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کی اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سب لوگوں کے اپنی گمراہی کے عقیدے ہیں کیونکہ عیسیٰ ابن مریم نے تو اللہ کے ایک ہونے اور لاشریک ہونے کی ہی تعلیم دی تھی یہ تو ان کے بعد لوگ مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور مختلف عقیدے گھڑ لیے اور یہ بھی کہ ان کی قوم نے تو اپنی طرف سے ان کو سولی پر چڑھا دیا تھا جب کہ قرآن پاک اس کی تردید کرتا ہے اور ان کی دوبارہ دنیا میں آمد کی اطلاع دیتا ہے کہ وہ دنیا میں اس وقت دوبارہ آئیں گے جب قیامت بالکل قریب ہوگی گویا ان کا آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جیسا کہ آیت نمبر 61 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور وہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کی نشانی ہیں “۔ پھر لوگوں کو تلقین کی گئی کہ نبی ﷺ کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے کیونکہ انہوں نے اس رب العزت، علیم و حفیظ اور قادر مطلق رب العٰلمین کی عبادت کا حکم دیا ہے جو تمام لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں بھلائی کا راستہ ہے۔ توحید کا سبق پہلا بنیادی سبق ہے دوسرا آخرت پر یقین اور تیسرا سنت رسول کی پیروی اس بحث کو محمد یوسف اصلاحی یوں بیان کرتے ہیں : یہ اللہ کا دین ہے جو تمام انسانوں کا رب ہے، سارے ہی انسان اس کے بندے ہیں اور اس کو سب سے یکساں پیار ہے، یہ ہر اس انسان کا دین ہے جو اس کو اپنا کر اس کے مطابق زندگی گزارے تو اسلام کی برکتوں سے مالا مال ہوسکتے ہیں۔ (از شعور حیات) توحید پر قائم ہونا گویا تمام دنیا کے خوف وخطر سے بےنیاز ہو کر ایک کامل انسان بن جانے کی دلیل ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے کیا ڈر جو ہو ساری خدائی بھی مخالف کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے یہی وہ عقیدہ اور جذبہ ہے جو مسلمان کو سیسہ پلائی دیوار بنا دیتا ہے۔ غیر مسلم اس حقیقت سے بیخبر ہے اس لیے گھبراہٹ میں وہ مسلمان کو دہشت گرد کا خطاب دے دیتا ہے جب کہ اسلام امن کا سبق دیتا ہے، ظلم زیادتی، جنگ و جدل اور فساد سے منع کرتا ہے۔ توحید کے بارے میں میجر جنرل غلام محمد ملک صاحب یوں لکھتے ہیں : ” اللہ پر ایمان صرف عقلی دلائل سے پیدا نہیں ہوتا، بلکہ یہ کائناتی علم، روحانی واردات و مشاہدات کے اشتراک سے جنم لیتا ہے۔ آج کا سائنس دان ایک عجیب مقام پر رکا ہوا ہے وہ نہ تو وجود کائنات کی کوئی توجیہہ پیش کرسکتا ہے اور نہ وہ دانش اعلیٰ کو تسلیم کرتا ہے بایں ہمہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں ایسے شعور، احساس اور فکر کے سر چشسمے کو ضرور محسوس کرتا ہے۔ جسے روح اکبر کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ انسان کی روح اسی روح اکبر کو پکارتی آرہی ہے۔ “ (از مطالعہ قرآن ) ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت اچانک آجائے اور ان کو خبر تک نہ ہو “۔ (آیت 67) اگلی آیات میں ان لوگوں کو خوشخبری دی گئی ہے جو اللہ کے مقبول، متقی اور پرہیزگار بندے ہیں کہ ان کو بڑے بڑے انعامات دیئے جائیں گے۔
Top