Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 18
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِالْقِسْطِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ
شَهِدَ : گواہی دی اللّٰهُ : اللہ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور علم والے قَآئِمًا : قائم (حاکم) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ اور فرشتے اور سب اہل علم بھی راستی کے ساتھ اس پر گواہ ہیں کہ اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی الٰہ نہیں ہے۔ “
یہ وہ پہلی حقیقت ہے ‘ جس پر اسلام کے نظریاتی تصورات قائم ہیں یعنی عقیدہ توحید ‘ الوہیت میں توحید ‘ قیومیت میں توحید اور یہ کہ اس کائنات کی پوری نگہبانی اصول انصاف وعدل پر منجانب اللہ ہورہی ہے ۔ اس پہلی حقیقت کے ساتھ اس سورت میں کلام کا آغاز ہوا تھا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ …………… ” اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور وہ زندہ جاوید اور نگہبان ہے۔ “ اس آغاز سے ایک تو اسلامی عقیدہ کا اظہار اور توضیح مقصود تھی اور دوسری جانب سے اہل کتاب کے پھیلائے ہوئے شبہات کا رد مطلوب تھا ۔ ایک تو خود اہل کتاب کے لئے ان کے موروثی عقیدہ توحید کی تشریح اور توضیح بھی مقصود تھی ‘ دوسرے یہ کہ ان کے پھیلائے ہوئے شبہات کا جو اثر اہل اسلام پر ہورہا تھا ‘ اس کی توضیح بھی مقصود تھی ‘ کیونکہ بعض اوقات اہل اسلام بھی ان سے متاثر ہوجاتے تھے ۔ اللہ کی شہادت ‘ کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ‘ یہ ہر اس شخص کے لئے کافی وشافی عقیدہ ہے ‘ جو ایمان لاچکا ہے ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اللہ کی گواہی تو ان کے لئے کافی وشافی ہوسکتی ہے۔ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہوں ‘ اور جو لوگ ایمان لے آئے ہوں ۔ پھر ان کو شہادت کی ضرورت کیا رہتی ہے ۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اہل کتاب تو اللہ پر ایمان لاتے تھے لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے لئے اولاد بھی ٹھہراتے تھے اور اس کے لئے شریک بھی ٹھہراتے تھے ۔ بلکہ مشرکین مکہ بھی خدا پر ایمان لاتے تھے ۔ وہ گمراہ اس حوالے سے ہوتے تھے کہ وہ اللہ کے ساتھ کئی شرکاء بناتے تھے ۔ کئی کو اللہ کے مساوی ٹھہراتے تھے ۔ اللہ کے لئے بیٹے اور بیٹیوں کے قائل تھے ۔ اس لئے جب قرآن کریم نے اس بات کی تصدیق کی کہ خود وہ جس خدا کے قائل ہیں وہ شہادت دے رہا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ شہادت ان کے تطہیر افکار کے لئے ایک مؤثر شہادت تھی ۔ نیز یہ معاملہ جس طرح کہ ہم نے اس حصے سے قبل اپنے تبصرے میں اس کا جائزہ لیا ہے ۔ یہ ایک بڑا ہی گہرا اور دقیق معاملہ ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نظریہ توحید پر شہادت اس لئے دی گئی ہے کہ شہادت توحید کے ساتھ اس کے تقاضے بھی وابستہ ہیں اور ان تقاضوں کا ذکر بعد میں آرہا ہے ۔ اور وہ یہ عقیدہ توحید کے حاملین سے بندگی اور اطاعت بھی صرف اس وحدہ لاشریک کی متوقع ہے ۔ اور وہ بندگی اور اطاعت بھی صرف اسلام کی شکل میں ہے ۔ اور اسلام بھی سر تسلیم خم کردینے اور مکمل انقیاد کے معنی میں مطلوب ہے ۔ اسلام سے مراد صرف شعور ‘ تصور اور عقیدہ مراد نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مراد عمل ‘ اطاعت اور مکمل انقیاد بھی ہے ۔ اور یہ انقیاد بھی اسلامی نظام زندگی کی اس شکل و صورت کے مطابق جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہے ۔ اس پہلو سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دور اور ہر زمانے میں لوگوں کی اکثریت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ایمان لاچکے ہیں ‘ لیکن وہ اس اللہ کے ساتھ بیشمار غیروں کو شریک بھی ٹھہراتے ہیں ‘ اس صورت میں جب وہ اپنے فیصلے ایسے قوانین کے مطابق کراتے ہیں جو شریعت پر مبنی نہیں ہیں اور وہ ایسے لوگوں کی اطاعت کرتے ہیں جو اللہ اور رسول کی اطاعت نہیں کرتے ‘ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اخلاق واقدار ‘ اپنے تصورات و افکار اور اپنے حسن وقبح کے پیمانے غیر اللہ سے لیتے ہیں ‘ تو یہ سب باتیں ان کے اس قول سے متصادم ہوتی ہیں کہ ہم ایمان لاچکے ہیں ‘ نیز ان کا یہ طرزعمل خود اللہ کی شہادت کے بھی منافی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اب سوال رہ جاتا ہے ‘ ملائکہ اور علماء کی شہادت کا ‘ تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ علماء اور ملائکہ کے مکمل طور پر اللہ اور اس کے اوامر ونواہی کی اطاعت کرتے ہیں ‘ وہ صرف اللہ سے ہدایات لیتے ہیں ۔ اور اللہ کی جانب سے جو کچھ نازل ہوتا ہے اس کی پیروی کرتے ہیں ۔ نہ اس کے بارے میں بحث ومناظرہ کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی اس میں کسی قسم کا شک کرتے ہیں ۔ بشرطیکہ یہ ثابت ہوجائے کہ یہ بات منجانب اللہ ہے ۔ اس سورت میں اولوالعلم کا حال بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا تھا۔ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا …………… ” اور علم میں جو لوگ پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں ہم ایمان لائے ہیں ‘ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے ۔ یہ ہے اہل علم اور فرشتوں کی شہادت یعنی تصدیق ‘ اطاعت اتباع اور انقیاد ‘ اور فرشتوں ‘ اہل علم کی شہادت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور وہ عدل و انصاف کے ساتھ قائم ہے۔ یعنی عدل و انصاف ایک ایسی صفت ہے جو اس کی شان الوہیت کے ساتھ وہ قائم و لازم ہے۔ “ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ” اللہ خود اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور فرشتے اور سب اہل علم بھی شہادت دیتے ہیں کہ اللہ راستی اور انصاف کے ساتھ قائم ہے۔ “ جس طرح عبارت نص سے معلوم ہوتا ہے قائمابالقسط ایسی حالت ہے جو شان الوہیت کے ساتھ لازم ہے ۔ اور یہ اس بات کی وضاحت ہے جو اس سے پہلے سورت میں کہا گیا کہ اللہ قیوم اور نگہبان ہے ‘ مطلب یہ ہوا کہ اس کی نگہبانی عدل پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جہان کے چلانے کے لئے جو تدابیر اختیار کی ہیں ‘ یا یہاں لوگوں کی زندگی کے قیام و دوام کے لئے جو تدابیر اختیار کی ہیں وہ عدل و انصاف کے اصولوں پر کی ہیں ۔ اس لئے لوگوں کی زندگیوں میں عدل تب قائم ہوسکتا ہے جب ان کی زندگیاں کتاب اللہ کی شریعت پر استوار ہوں ‘ جس طرح اس کائنات کو نوامیس فطرت کے عادلانہ اصولوں پر قائم کیا گیا ہے اور وہ استوار ہے ۔ صرف اسی صورت میں انسان اور فطرت ہم آہنگ ہوکر چل سکتے ہیں ‘ شریعت وہ نظام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔ اگر یہ ہوگا تو اس جہان میں عدل و انصاف نہ ہوگا اور یہاں توازن و اعتدال قائم نہ ہوسکے گا۔ اس کائنات کی چلن اور انسان کی چلن کے درمیان تطابق اور ملائمت نہ ہوگی ۔ نتیجہ ظلم ‘ افتراق اور قوتوں کے ضیاع کی صورت میں برآمد ہوگا۔ انسانی تاریخ شاہد عادل ہے کہ اس میں انسانیت نے عدل و انصاف کا مزہ انہیں ادوار میں چکھا جن میں صرف کتاب اللہ کی حکمرانی رہی ۔ اور ان کی زندگی اس طرح منظم اور استوار ہوئی جس طرح اس زمین کے گردش منظم اور استوار ہے ۔ اس قدر جس قدر انسانی فطرت کے لئے ممکن ہو ۔ یعنی فطرت انسانی کے رجحانات اطاعت اور جحانات معصیت کے درمیان توازن ہو ۔ اور ان دونوں پلڑوں کے درمیان توازن ہو ۔ اور انسان اسلامی نظام زندگی کے قیام اور کتاب اللہ کی حکمرانی کی صورت میں اللہ کی اطاعت کی طرف مائل ہو۔ اگر انسانی زندگی پر کوئی ایسا نظام حکمران ہو ۔ جو خود انسان نے بنایا ہو تو اس میں لازماً انسانی جہلات کا دخل ہوگا۔ انسان کے تصور اور ادراک کا قصور اس میں شامل ہوگا۔ اور اس کے نتیجے میں یہ نظام کسی نہ کسی شکل میں ظلم اور تضاد کا شکار ہوگا۔ کبھی ایک فرد پوری سوسائٹی پر ظلم ڈھائے گا ، اور کبھی ایک سوسائٹی ایک فرد پر ظلم کررہی ہوگی ‘ یا کبھی ایک طبقہ دوسرے طبقہ پر ظلم کررہا ہوگا یا ایک قوم دوسری اقوام پر ظلم کررہی ہوگی یا ایک نسل دوسری نسل پر ظلم کررہی ہوگی ‘ رہا اسلامی نظام زندگی تو وہ ان تمام میلانات رجحانات سے پاک ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ سب کا الٰہ ہے ۔ اور اس ارض وسماء میں کوئی راز مخفی بھی نہیں ہے ۔ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ……………” اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ۔ وہی غالب ہے اور وہی حکیم ہے۔ “ یہاں اس آیت کے اس ٹکڑے میں دوبارہ وحدت الہٰیت کو دو اہم صفات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ ایک صفت یہ کہ وہ غالب ہے قوت والا ہے اور دوسری یہ کہ وہ حکیم ہے اور قدرت و حکمت دونوں ایسی صفات ہیں جن کا موجود ہونا اللہ کی شان عدل ونگہبانی کے لئے ضروری ہے ۔ اس لئے کہ عدل کا مفہوم یہ ہے کہ حقدار کو حق ملے اور اسے حق دلایا جاسکے ۔ اور اللہ کی صفات کا تصور یہ ہے کہ مثبت کارکردگی کا شعور دیتی ہے ۔ اس لئے کہ اسلام کے تصور خدا میں کوئی سلبیت نہیں ہے ۔ ایجاب ہی ایجاب ہے ‘ اور یہ تصور اللہ کا سب سے مکمل تصور ہے ۔ سب سے سچا تصور ہے ‘ اور یہ تصورخود اللہ تعالیٰ نے اپنے حوالے سے پیش کیا ہے ۔ اور اس مثبت اور ایجابی فعالیت کا اثر انسان پر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل اللہ کے ارادے سے متعلق ہوجاتا ہے ۔ اس لئے انسان کا عقیدہ زندہ اور موثر عقیدہ ہوتا ہے ‘ وہ محض خشک تصور ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر فعالیت اور تروتازگی ہوتی ہے۔
Top