Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 18
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِالْقِسْطِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ
شَهِدَ : گواہی دی اللّٰهُ : اللہ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور علم والے قَآئِمًا : قائم (حاکم) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ جو انصاف پر قائم ہیں وہ بھی (گواہی دیتے ہیں کہ اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں
آیت نمبر : 18۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) حضرت سعید بن جبیر ؓ نے بیان کیا ہے کہ کعبہ معظمہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے جب یہ آیت نازل ہوئی تو وہ تمام سجدے میں گر گئے، (1) (زاد المیسر، جلد 1، صفحہ 294) اور کلبی نے کہا ہے : جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کے پاس اہل شام کے علماء میں سے دو عالم حاضر ہوئے، جب ان دونوں نے مدینہ طیبہ کو دیکھا تو ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی کو کہا : یہ شہر اس نبی مکرم ﷺ کے شہر کے اوصاف کے ساتھ کتنی زیادہ مشابہت رکھتا ہے جو آخر زمانہ میں تشریف لائے گا، چناچہ جب وہ دونوں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ کی علامات اور صفات کو دیکھ کر آپ کو پہچان لیا، تو انہوں نے آپ سے پوچھا : کیا آپ محمد ﷺ ہیں ؟ آپ نے فرمایا ” ہاں “ پھر کہا : کیا آپ احمد ﷺ ہیں ؟ آپ نے فرمایا ” ہاں “ دونوں نے کہا : ہم آپ سے شہادت کے بارے پوچھتے ہیں پس اگر آپ نے ہمیں اس کے بارے بتا دیا تو ہم آپ کے ساتھ ایمان لے آئیں گے اور ہم آپ کی تصدیق کریں گے، تو رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو فرمایا : ” تم مجھ سے پوچھو “ تو انہوں نے کہا : کتاب اللہ میں سب سے بڑی شہادت کے بارے آپ ہمیں بتائیے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ پر یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت) ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو، والملئکۃ واولوا العلم قآئما بالقسط “۔ چناچہ وہ دونوں اسلام لے آئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کردی (2) (اسباب النزول لنیشاپوری، صفحہ 63) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ (آیت) ” اولو العلم “۔ سے مراد حضرات انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور ابن کیسان نے کہا ہے : مہاجرین اور انصار ہیں۔ مقاتل نے کہا ہے : اہل کتاب میں سے ایمان لانے والے اور سدی اور کلبی نے کہا ہے : مراد تمام مومنین ہیں اور یہی قول زیادہ واضح اور ظاہر ہے کیونکہ یہ عام ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) اس آیت میں علم کی فضیلت اور علماء کے شرف وفضل پر دلیل ہے، کیونکہ اگر کوئی اور علماء سے اشرف واعلی ہوتا تو بالیقین اللہ تعالیٰ انہیں اپنے اور ملائکہ کے ملائکہ کے نام کے ساتھ اسی طرح ملا کر ذکر کرتا جیسا کہ علماء کا ذکر کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے علم کے شرف و عظمت کے سبب ہی اپنے نبی مکرم ﷺ کو فرمایا : وقل رب زدنی علما “۔ پس اگر کوئی اور شے علم کی نسبت زیادہ شرف والی ہوتی تو یقینا اللہ تعالیٰ اپنے نبی مکرم ﷺ کو حکم ارشاد فرما تاکہ اس میں زیادتی اور اضافہ کی التجا کریں جیسا کہ علم میں زیادتی اور اضافہ کی طلب کا حکم ارشاد فرمایا : اور آپ ﷺ نے فرمایا ان العلماء ورثہ الانبیاء (3) (سنن ابی داؤد کتاب العلم، جلد 2، صفحہ 157، ) (بلاشبہ علماء انبیاء (علیہم السلام) کے وراث ہیں) اور مزید فرمایا : العلماء امناء اللہ علی خلقہ “۔ (4) (کنزالعلمال، جلد 10، صفحہ 134، حدیث نمبر 28675) (علماء اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کی مخلوق پر امین ہیں) اور علماء کے لئے عظیم شرف اور بہت بڑا اعزاز ہے۔ اور دین میں ان کے لئے بہت بڑا مقام اور بلند رتبہ ہے، ابو محمد عبدالغنی الحافظ نے برکۃ ابن نشیط کی حدیث نقل کی ہے۔ اور یہ عنکل بن حکارک ہیں اور اس کی تفسیر برکۃ بن نشیط ہے اور یہ حافظ ہیں۔ ہمیں عمر ابن مومل، محمد بن ابی الخصیب، عنکل محمد بن اسحاق، شریک نے ابو اسحاق سے حدیث بیان کی کہ حضرت براء ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : العلماء ورثۃ الانبیاء یحبھم اھل السماء ویستغفرلھم الحیتان فی البحر اذا ماتوا الی یوم القیامۃ (1) (کنز العمال، جلد 10، صفحہ 135، حدیث نمبر 28679) (علماء انبیاء (علیہم السلام) کے وارث ہیں جب وہ فوت ہوجائیں گے تو یوم قیامت تک سمندر میں مچھلیاں ان کے لئے مغفرت طلب کرتی رہیں گی، ) اس باب میں حضرت ابو الدرداء ؓ کی حدیث بھی ہے جسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے (2) (سنن ابی داؤد، کتاب العلم، جلد 2، صفحہ 157، ایضا ابی داؤد حدیث نمبر 3157، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (3) غالب القطان نے بیان کیا ہے : میں تجارت کی غرض سے کوفہ آیا اور میں حضرت اعمش کے قریب اترا اور میں ان سے اختلاف رکھتا تھا، پس جب رات ہوئی تو میں نے بصرہ میں نزول کا ارادہ کیا وہ اٹھے اور انہوں نے رات کے وقت نماز تہجد ادا کی اور یہ آیت تلاوت کی (آیت) ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو، والملئکۃ واولوا العلم قآئما بالقسط، لا الہ الا ھو العزیز الحکیم، ان الدین عند اللہ الاسلام “۔ اعمش نے کہا میں اس بارے شہادت دیتا ہوں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے شہادت دی ہے اور میں یہ شہادت اللہ تعالیٰ کے پاس امانت رکھتا ہوں اور یہ میرے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس ودیعت ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین (فقط) اسلام ہے، انہوں نے بار بار یہ کہا : پس میں صبح کے وقت ان کی طرف گیا اور میں نے انہیں الوداع کہا پھر کہا : بلاشبہ میں نے تمہیں یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا ہے اس کے بارے میں تمہیں کیا خبر پہنچی ہے ؟ میں ایک سال تک تمہارے پاس رہا ہوں تم نے اس بارے میں مجھے کچھ نہیں بیان کیا، انہوں نے فرمایا : قسم بخدا ! میں ایک سال تک اس بارے میں تمہیں کچھ نہیں بیان کروں گا، وہ فرماتے ہیں ؛ پس میں اٹھا اور میں نے ان کے دروازے پر اس دن کے بارے لکھ دیا، پس جب سال گزر چکا تو میں نے کہا : اے ابو محمد ! سال گزر چکا ہے تو انہوں نے کہا : مجھے ابو وائل نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یجاء بصاحبھا یوم القیامۃ فیقول اللہ تعالیٰ عبدی عھد الی وانا احق من وفی ادخلوا عبدی الجنۃ (3) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 440) اس آیت پڑھنے والے کو قیامت کے دن لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے بندے نے میرے ساتھ عہد کیا ہے اور میں کسی بھی وفا کرنے والے سے زیادہ حق رکھتا ہوں پس تم میرے بندے کو جنت میں داخل کر دو ) ابوالفرج الجوزی نے کہا ہے : غالب القطان سے مراد غالب بن خطاف القطان ہے جو اعمش سے حدیث شھد اللہ روایت کرتا ہے اور یہ حدیث مفصل ہے، ابن عدی نے کہا ہے : اس کی حدیث میں ضعف بین اور واضح ہے، امام احمد بن حنبل (رح) نے فرمایا غالب بن خطاف القطان ثقہ ہے ثقہ ہے، ابن معین نے کہا ثقہ ہے، اور ابو حاتم نے کہا ہے : یہ صدوق اور صالح ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : تیرے لئے اس کی عدالت اور ثقاہت کے لئے یہی کافی ہے کہ امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علہیم نے اپنی کتابوں میں اس کی حدیث نقل کی ہے اور تیرے لئے یہ کافی ہے اور حضرت انس ؓ سے حدیث مروی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے اپنے سونے کے وقت یہ آیت پڑھی (آیت) ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو، والملئکۃ واولوا العلم قآئما بالقسط لا الہ الا ھو العزیز الحکیم “۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے تر ہزار فرشتے پیدا فرما دے گا اور وہ اس کے لئے یوم قیامت تک استغفار کرتے رہیں گے ، “ اور کہا جاتا ہے : جس نے اس شہادت کے بارے اپنے صحیح قلب سے اقرار کرلیا تحقیق اس نے عدل قائم کرلیا، اور حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : کعبہ معظمہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے قبائل عرب میں سے ہر قبیلے کے لئے ایک یا دو بت تھے، پس جب یہ آیت نازل ہوئی تو تمام بت اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ ریز ہوگئے۔ (1) (زاد المیسر جلد 1، صفحہ 294) مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” شھد اللہ “۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا : اور آگاہ فرمایا، جیسا کہ کہا جاتا ہے : شھد فلان عندالقاضی (اس کا معنی ہے) فلان نے قاضی کے سامنے اس کے بارے بیان کیا جس کا حق ہے یا جس پر حق ہے زجاج نے کہا ہے : شاہد وہ ہوتا ہے جو کسی شے کو جانتا ہے اور اس کی وضاحت کرتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت پر ایسے شے کے ساتھ ہماری راہنمائی فرمائی ہے جسے اس نے تخلیق فرمایا اور بیان فرمایا : اور ابو عبیدہ نے کہا ہے (آیت) ” شھد اللہ “ بمعنی قضی اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے (فیصلہ فرمایا) آگاہ فرمایا، اور ابن عطیہ (رح) نے کہا ہے : یہ کئی اعتبار سے مردود ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 412 دارالکتب العلمیہ) امام کسائی نے قول باری تعالیٰ (آیت) ” انہ لا الہ الا ھو “ اور ” ان الدین “ میں ان کے ہمزہ کو مفتوح پڑھا ہے، مبرد نے کہا ہے : تقدیر کلام یہ ہے ان الدین عند اللہ الاسلام بانہ لا الہ الا ھو “۔ پھر یا کو حذف کردیا گیا ہے جیسا کہ کہا : امرتک الخیریہ “ اصل میں بالخیر ہے، کسائی نے کہا ہے تو ان دونوں کو اکٹھی نصب دے، اس معنی میں شھد اللہ انہ کذا، وان الدین عنداللہ، ابن کیسان نے کہا ہے : دوسرا ان پہلے سے بدل ہے، کیونکہ اسلام ہی معنی توحید کی تفسیر ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے اس کی قرات کی ہے جو کسائی نے بیان کیا ہے (آیت) ” شھد اللہ انہ “ یعنی اسے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے ان الدین اس میں ان کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 412 دارالکتب العلمیہ) اور تقدیر کلام یہ ہے ” شھد اللہ ان الدین الاسلام “۔ پھر ابتدا کی اور فرمایا (آیت) ” انہ لا الہ الا ھو “۔ اور ابو المہلب نے ” شھد اللہ “ حال ہونے کی بنا پر نصب کے ساتھ پڑھا ہے اور ان سے شھداء اللہ بھی مروی ہے۔ (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 412 دارالکتب العلمیہ) اور شعبہ نے عاصم بن زرعن ابی کی سند سے حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ اس طرح پڑھتے تھے ” ان الدین عنداللہ الحنیفیۃ لا الیھودیۃ ولا النصرانیۃ ولا المجوسیۃ “۔ (5) (مسند احمد بن حنبل، جلد 5، صفحہ 132، ایضا ترمذی، باب مناقب اھل بیت النبی ﷺ حدیث نمبر 3726، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابوبکر انباری نے کہا ہے : کسی صاحب تمیز آدمی پر یہ مخفی نہیں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ سے یہ کلام تفسیر کی حیثیت سے مروی ہے اور ناقلین حدیث میں سے کسی نے اسے قرآن میں داخل کردیا ہے۔ اور قائما قول باری تعالیٰ (آیت) ” شھد اللہ “ میں اسم جلالت سے یا قول باری تعالیٰ ” الا ھو “ سے حال مؤکدہ ہونے کی بنا پر منصوب ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 413 دارالکتب العلمیہ) اور فراء نے کہا ہے : وہ قطع کی بنا پر منصوب ہے، اس کی اصل القائم ہے پس جب الف لام کا کاٹ دیا گیا تو اسے نصب دے دی گئی جیسا کہ یہ ارشاد گرامی ہے (آیت) ” ولہ الدین وصبا “۔ اور حضرت عبداللہ ؓ کی قرات میں القائم بالقسط “۔ ہے لغت اور صفت ہونے کی بنا پر، اور القسط کا معنی عدل ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 413 دارالکتب العلمیہ) (آیت) ” لا الہ الا ھو العزیز الحکیم “۔ اسے دوبارہ لایا گیا ہے کیونکہ پہلا دعوی کے محل میں واقع ہے اور دوسرا شہادت حکم کے محل میں واقع ہے اور حضرت امام جعفر صادق ؓ نے فرمایا : پہلا وصف اور توحید ہے اور دوسرا رسم (حکم) اور تعلیم ہے یعنی تم کہو (آیت) ” لا الہ الا ھو العزیز الحکیم۔
Top