Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 18
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِالْقِسْطِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ
شَهِدَ : گواہی دی اللّٰهُ : اللہ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور علم والے قَآئِمًا : قائم (حاکم) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ نے شہادت دی ہے اس بات کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور ( یہی گواہی دی ہے) فرشتوں نے اور اہل علم نے (اور ان سب نے یہ بھی گواہی دی کہ وہ) عدل و انصاف کو قائم فرمانے والا ہے۔ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اس کے وہ غالب اور حکمت والا ہے
شَہِدَاللّٰہُ اَنَّـہٗ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ لا وَالْمَلٰٓئِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَـآئِمًا م بِالْقِسْطِ ط لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ۔ ط (اللہ نے شہادت دی ہے اس بات کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور ( یہی گواہی دی ہے) فرشتوں نے اور اہل علم نے (اور ان سب نے یہ بھی گواہی دی کہ وہ) عدل و انصاف کو قائم فرمانے والا ہے۔ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اس کے وہ غالب اور حکمت والا ہے) (18) اس سورة کے آغاز میں یہی مضمون گزر چکا ہے۔ اب دوبارہ اسی مضمون کو ایک دوسرے پہلو سے ‘ لیکن ایک شاندار تمہید کے ساتھ بیان فرمایا جارہا ہے۔ پہلے صرف یہ بات بیان فرمائی تھی کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اور اس کا انداز حاکمانہ اور شاہانہ تھا۔ گویا اپنی مخلوق اور رعایا کو پروردگار اپنی اصل حیثیت کے متعلق آگاہ فرما رہے ہیں اور جب یہ حیثیت ان کے سامنے واضح ہوگئی تو اس کے بعد فرمایا کہ ہم چونکہ معبود اور حاکم حقیقی ہیں ‘ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی مخلوق ‘ اپنی رعایا اور اپنے بندوں کے لیے ایسی کتاب نازل کریں ‘ جو ہمارے فرامین کا مجموعہ ہو جس میں بندوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا گیا ہو اور بندگی کے آداب واضح کیے گئے ہوں۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں پروردگار نے اسی بات کو نسبتاً تفہیم کے انداز میں ایک دلیل کے ساتھ واضح فرمایا اور مزید اپنے تعارف میں ایک صفت کا اضافہ فرمایا۔ جس سے بہت ساری حقیقتیں واشگاف ہوجاتی ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس آیت کریمہ میں پانچ باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1 … اللہ ‘ فرشتوں اور اہل علم کی گواہی۔ 2 … اس بات پر گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں۔ 3 … اس بات کی گواہی کہ اللہ انصاف اور قسط کو قائم کرنے والا اور قائم رکھنے والا ہے۔ 4 … اس بات کا تکرار کہ اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں۔ 5 … اللہ تعالیٰ عزیز اور حکیم بھی ہے۔ اب ہم اسی ترتیب سے ان باتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس ترتیب میں اگرچہ گواہی کا ذکر پہلے ہے اور اللہ کی وحدانیت اور اس کے قائم بالقسط ہونے کا ذکر بعد میں ہے ‘ لیکن یہ ترتیب قرآن کریم کے اپنے اسلوب کے مطابق ہے۔ ہم اپنی تحریر و تقریر اور مخاطبت میں ہمیشہ اس کے برعکس طریقہ اختیار کرتے ہیں کیونکہ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کا اپنی الوہیت میں یکتا ہونا ایک دعویٰ ہے اور اس پر اللہ ‘ فرشتوں اور اہل علم کی گواہی دلیل ہے۔ انسانوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ دعویٰ پہلے پیش کرتے ہیں ‘ پھر اس کے ثبوت کے لیے دلیل لاتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کا اسلوب جیسا میں نے عرض کیا اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ اسلوب فطرت کے عین مطابق ہے۔ دعویٰ کی حیثیت انسانی دل و دماغ کے لیے اس طرح کی ہے جیسے زمین میں بیج ڈالا جاتا ہے اور دلیل کی حیثیت ایسے ہے جیسے تخم ریزی سے پہلے زمین کو کاشت کے قابل بنایا جاتا ہے۔ فطری طریقہ یہ ہے کہ زمین کو کاشت کے لیے پہلے تیار کیا جائے اور اس کے بعد تخم ریزی کا عمل شروع ہو کیونکہ اگر زمین کو بیج کے لیے قابل قبول بنائے بغیر بیج بکھیر دیا جائے گا تو زمین چونکہ اس کے لیے تیار نہیں ہوگی اس لیے بیج اپنی جگہ نہیں بنا سکے گا اور بیج ضائع ہوجائے گا۔ دعویٰ اور دلیل کے سلسلے میں بھی دل و دماغ کی حیثیت زمین کی ہے۔ ضروری ہے کہ اسے دعویٰ کی قبولیت کے لیے پہلے تیار کیا جائے اور تیاری کے مراحل کو سر کرنا ‘ جس طرح زمین کے سلسلے میں آلات فلاحی کا کام ہے۔ جس میں بلڈوزر بھی ہیں جو زمین کو ہموار کرتے ہیں ‘ جس میں کلہاڑا بھی ہے جو درختوں اور پودوں کو کاٹتا اور اکھاڑتا ہے ‘ جس میں درانتی اور کَسّی بھی ہے جو جڑی بوٹیوں کو جڑ سے مارتی ہیں۔ دلیل کو بھی مختلف صورتوں میں استعمال کر کے دل و دماغ کو اس طرح ہموار کیا جاتا ہے کہ وہ دعویٰ کو قبول کرنے کے قابل ہوجائے۔ اس آیت کریمہ میں دعویٰ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لیکن اسے پیش کرنے سے پہلے دل و دماغ کو ہموار کرنے کے لیے ایک ایسی دلیل پیش فرمائی گئی ہے جس کے بعد اس کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے کہ دل و دماغ اسے قبول کرنے سے انکار کر دے۔ یہ دلیل تین دلائل کا مرکب ہے۔ پہلی دلیل ہے اللہ کی گواہی اور دوسری ملائکہ کی اور تیسری اہل علم کی۔ جہاں تک اللہ کی گواہی کا تعلق ہے وہ ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے اور کبھی کبھی ہمارے اندر سے بھی جھانکتی ہے اور یہی دونوں چیزیں ہیں ‘ جنھیں دلائلِ آفاق اور دلائلِ انفس کا نام دیا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے دلائلِ آفاق اور دلائلِ انفس کو مآخذ کی حیثیت دیتے ہوئے فرمایا : سَنُرِیْھِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَ فِی اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبِیَّنَ لَھُمْ اَنَّـہُ الْحَقُ ۔ (ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق اور ان کے نفسوں میں بھی دکھائیں گے، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ بالکل حق ہے) وَفِیْ الْاَرْضِ اٰیَاتٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَفِی اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُـکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ فَوَرَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِنَّـہُ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَااَنَّـکُمْ تَنْطِقُوْنَ ۔ (اور زمین میں بھی نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے اور خود تمہارے نفسوں میں بھی کیا تم دیکھتے نہیں اور آسمان میں تمہاری روزی بھی ہے اور وہ چیز بھی جس کی تمہیں وعید سنائی جارہی ہے۔ پس آسمان و زمین کے خداوند کی قسم یہ بات شدنی ہے جس طرح تم بول دیتے ہو) اللہ کی گواہی دلائلِ آفاق کی روشنی میں چناچہ ہم بھی اسی ترتیب سے پروردگار کے وجود اس کی یکتائیت اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہونے پر استدلال کریں گے۔ یہی طریقہ عہداول میں صحابہ کرام کا تھا اور یہی طریقہ ہر دور میں سلف صالحین کا رہا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے خالق کے وجود کو کیسے جانا ؟ فرمایا : شہتوت کے پتے سے۔ سائل نے حیران ہو کر پوچھا کہ وہ کیسے ؟ فرمایا : شہتوت کے پتے کو ریشم کا کیڑا کھاتا ہے تو ریشم بنتا ہے، ختن کا آہو کھاتا ہے تو اس کے ناف سے کستوری نکلتی ہے اور اگر کوئی اور جانور کھاتا ہے تو گوبر کردیتا ہے۔ شہتوت کے پتے میں کوئی خصوصیت ہوتی تو ہر جگہ اس کا اظہار ایک ہی صورت میں ہوتا۔ یہ اظہار کی مختلف صورتیں اور مختلف چیزوں کا وجود میں آنا خود بولتا ہے کہ شہتوت کے پتے کے پیچھے کوئی ہاتھ کارفرما ہے اور یہ اسی کی کارفرمائیاں ہیں جسے ہم مختلف صورتوں میں دیکھ رہے ہیں۔ پس وہ ہاتھ میرے خالق کا ہے۔ قرآن کہتا ہے : اَفلَاَیَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ ۔ (کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اونٹ کو کیسے پیدا کیا گیا ؟ آسمان کو کیسے بلند کیا گیا ؟ پہاڑوں کو کیسے میخوں کی طرح گاڑ دیا گیا ؟ اور زمین کو کیسے بچھونے کی طرح بچھادیا گیا ؟ ) یعنی ایک عرب چاہے وہ مالی لحاظ سے کتنا بھی گیا گزرا کیوں نہ ہو وہ جب آنکھ کھولتا تھا تو اس کی نگاہ ان چار چیزوں پر ضرور پڑتی تھی۔ وہ اونٹ پر سواری کرتا تھا۔ آسمان پر بادل بہت کم آتے تھے اس لیے وہ کھلے آسمان کو ہمیشہ دیکھتا تھا، پہاڑ ہر وقت نظروں کے سامنے گڑے رہتے تھے، زمین پر وہ چلتا پھرتا تھا۔ انہی چارچیزوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے کم سے کم عقل رکھنے والا آدمی بھی ان چار چیزوں کو دیکھتا ہے تو وہ کیا سوچتا نہیں کہ آخریہ چار چیزیں کیسے وجود میں آئیں ؟ اور اگر گہری نظر رکھنے والا اور علم و بصیرت کا حامل آدمی ان چار چیزوں کو دیکھے تو اس کے سامنے علم و دانش کی وہ حیرت انگیز دنیا واشگاف ہوتی ہے کہ سوائے اس آدمی کے جس کی عقل پر پتھر پڑجائیں کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ یقینا اس زمین، آسمان، ان پہاڑوں اور اونٹوں کا کوئی خالق ہے، جس نے ان میں ہمارے لیے منفعت کی ایک دنیا بسادی ہے اور حقائق کا ایک جہاں سمودیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی نے مخلوق پر اس لحاظ سے نظر ڈالی ہے تو وہ اپنے خالق کو پہچانے بغیر نہیں رہ سکا۔ عرب کے ایک بدو سے جب پوچھا گیا کہ تم نے اپنے خالق کو کیسے پہچانا ؟ تو اس نے انتہائی سادگی سے کہا کہ ریگستان میں پڑی ہوئی اونٹ کی لید سے۔ سائل نے حیران ہو کر کہا وہ کیسے ؟ کہا اونٹ کی لید یقینا کسی گزرنے والے اونٹ کی خبر دیتی ہے اور اونٹ ریگستان میں بغیر سوار کے نہیں گزرتا اور کوئی سوار اس بدامنی کے دور میں تنہا سفر نہیں کرتا یقینا کسی قافلے کے ہمراہ گزرتا ہے تو اونٹ کی لید دیکھ کر میں یقین کرلیتا ہوں کہ کوئی قافلہ گزرا ہوگا۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اس نے کہا کہ اگر اونٹ کی لید سے میں ایک قافلے کا یقین کرسکتا ہوں تو کیا اس وسیع و عریض کائنات کو دیکھ کر میں اس کے خالق کا یقین نہیں کرسکتا۔ اسی لیے پروردگار نے فرمایا : مَاغَرَّکَ بِرَبِّـکَ الْـکَرِیْمِ الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَـکَ فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَ (کس نے تجھے اپنے رب کریم سے غفلت میں ڈالا ہے جس نے تجھے پیدا کیا اور پھر ہر لحاظ سے درست کیا اور پھر جس شکل و صورت میں تجھے چاہا بنادیا) اس آیت پر غو رفرمائیے ! پروردگار انسان کو اس کے وجود کی طرف توجہ دلا کر یہ بتارہا ہے کہ تم اگر اپنے آپ کو غور سے دیکھو تو یقینا تمہیں تمہارے ایک ایک ریشے، ایک ایک بال، ایک ایک عضو، ایک ایک احساس، ایک ایک صلاحیت اور استعداد کے پیچھے اپنے خالق ومالک کی قوت تخلیق دکھائی دے گی۔ آخر اتنی واضح شہادت کے بعد وہ کون سی چیز ہے جس نے تجھے اپنے اللہ سے غافل کردیا ؟ انسان کا وجود ہی نہیں بلکہ جب آدمی اس کی صلاحیتوں، اس کے دل و دماغ کی قوتوں، اس کے تجسس، شعور اور اعضاء کی مختلف حالتوں پر غور کرتا ہے تو حیرت میں ڈوب کر رہ جاتا ہے۔ ایک سائنس دان نے اپنی لیبارٹری میں اپنی نواسی کے کان کو دیکھ کر کہا یہ سماعت کا حیرت انگیز پرزہ ایسا ہے جس کی مثال لانے سے انسان عاجز ہے اور پھر سراپا حیرت بن کر کہا جس خالق نے اس کان کو پیدا کیا، کیا وہ خود سنتانھیں ہوگا ؟ پورے جسم کے ایک ایک ریشے پر غور کیا جائے تو حیرت انگیز چیزیں سامنے آتی ہیں بالخصوص ایک انگوٹھے کو دیکھ لیجئے جو کس قدر چھوٹا ہے لیکن اس کے پور پر کھنچے ہوئے خطوط جن کی تعداد ہزاروں میں ہوگی ان میں یہ عجیب و غریب بات ہے کہ ایک انگوٹھے کے خطوط دوسرے انگوٹھے سے کبھی نہیں ملتے۔ اسی وجہ سے انسان کے انگوٹھے کے نشان کو دستاویزات میں قابل اعتبار سمجھا گیا ہے۔ انسانی چہرہ جو ایک بڑی محدود جگہ ہے، جس میں آنکھیں ہیں، ناک ہے، منہ ہے، پیشانی ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی اربوں انسان پیدا ہوئے مگر ایک دوسرے سے ملتی دکھائی نہیں دیتی۔ آپ جب غور کریں گے تو ضرور ایک دوسرے سے فرق محسوس کریں گے۔ اسی لیے یورپ کے فلسفی نے کہا تھا کہ کائنات میں سب سے بڑا معمہ یہ انسان ہے اور اس سے بڑا معمہ اس کا دماغ جو ذہانت، تجسس، شعور، حافظہ، فکر اور خرد کے اوصاف سے آراستہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان اوصاف کا خالق کون ہے ؟ جواب یہ ہے، وہ جسے دل نے تو ہمیشہ پہچانا لیکن خرد ضرور اس سے غافل رہی پھر قرآن نے اسی دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے انسانی ضروریات ہی نہیں بلکہ تمام مخلوق کی ضروریات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ احساس دلایا ہے کہ خالق کائنات صرف خالق ہی نہیں بلکہ تمہاری زندگی کی بقاء کا سروسامان کرنے والابھی ہے۔ تم اس کی عطاکردہ نعمتوں سے فائدہ تو اٹھاتے ہو مگر عطا کرنے والے کو بھول جاتے ہو حالانکہ انسان اپنے کھانے پر ہی غور کرے تو اسے سوچنا چاہیے کہ یہ آخر کہاں سے آیا ؟ انسان اپنی غذا کے لیے دانہ گندم زمین میں کاشت کرکے اسے دفن کرکے آجاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ دانہ مرجائے مگر بجائے مرنے کے اس میں زندگی کی سوئی پھوٹتی ہے جو بڑھتے بڑھتے تنا بنتی ہے، پھر اسے خوشے لگتے ہیں، خوشوں میں دانوں کے موتی بھر دیئے جاتے ہیں، سورج کی کرنیں پانی کے ڈول بھر بھر کر فضا میں ابر کی چادریں پھیلا دیتی ہیں ابر پانی برساکر کھیتی کی آبیاری کا سامان کرتا ہے، سورج اسے گرمی پہنچاتا ہے، چاند اسے حلاوت دیتا ہے۔ ہوا اسے لوریاں دیتی ہے، زمین اپنی قوت نمو بروئے کار لاتی ہے اور پھر قدرت نہ جانے کیسی کیسی قوتوں کو کام میں لاکر انسان کے لیے غذا فراہم کرتی ہے۔ سائنس دان کہتا ہے کہ نائیٹروجن حیوانی ونباتاتی حیات کا لازمی جزو ہے۔ یہ دو طریقوں سے زمین میں داخل ہوتی ہے۔ اول خوردبینی اجرام یابیکٹیریا کے ذریعے جو زمین کی بالائی تہہ میں رہتے ہیں اور کھاد وغیرہ کھاکر ایک ایسا رس خارج کرتے ہیں جن میں نائیٹروجن بہت زیادہ ہوتی ہے۔ نصف چھٹانک زمین میں ان کی تعداد ایک کھرب، پینتیس ارب کے قریب ہوتی ہے اور زمین کے ہر ایکڑ میں ان کا کام بارہ آدمیوں کے برابر ہوتا ہے۔ اگر 100 ایکڑ کھیت میں 10 کسان ہل چلا رہے ہیں تو 1200 مزدوروں کا ایک مخفی لشکر بھی وہاں کام کر رہا ہوتا ہے۔ غور فرمائیے ! اس غذا کو مہیا کرنے اور اسے پروان چڑھانے میں انسان کا حصہ کتنا ہے اور اللہ کا کتنا ؟ پروردگار فرماتے ہیں : اَفَرَئَ یْتُمْ مَّاتَحْرُثُوْنَ ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَـہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعْوُنَ (کیا تم نے اپنی کھیتی پر کبھی غور کیا زراعت کون کرتا ہے تم یا ہم ؟ ) دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فَلْیَنْظُرِالْاِنْسَانُ اِلَی طَعَامِہٖٓ اَنَّاصَبَبْنَا الْمَآئَ صَبًّا ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا فَاَنْبَتْنَا فِیْھَا حَبًّا وَّعِنَـبًا وَّقَضْبًا وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلاً وَّحَدَآئِقَ غُلْبًا وَّفَاکِھَۃً وَّاَبًّا مَّتَاعًالَّـکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ (انسان ذرا اپنی غذا پر نظر ڈالے (کہ کہاں سے آئی) ہم نے مینہ برساکر زمین کا سینہ چیر ا، اس سے غلے، انگور، ترکاری، زیتون، کھجوریں، گھنے باغ، میوے اور چارہ پیدا کیا۔ یہ سب تمہارا اور تمہارے مویشیوں کا متاع حیات ہے ) اس کو اقبال مرحوم نے اپنے انداز میں نظم کیا : پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نور آفتاب کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی یہ خوئے انقلاب انسان کی دوسری فوری اور ناگزیر ضرورت پانی ہے۔ آدمی پانی کی حقیقت پر غور کرے اور پھر اس کے فوائد کو سمجھنے کی کوشش کرے تو اللہ کی قدرت نمایاں نظر آتی ہے۔ جس کے آئینے میں انسان اپنے پروردگار کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس قدر فراخی اور وسعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پانی کے خزانے پیدا فرمائے اور زمین کی تخلیق کے ساتھ جب پانی کو پیدا فرمایا گیا تو کس طرح قیامت تک کی مخلوقات کی ضروریات کو ملحوظ رکھا گیا ‘ نہ جانے کتنے زمانے گزر گئے لیکن آج تک پانی کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آئی اور پھر چونکہ یہ انسان کی ایسی ضرورت ہے جس سے انسان کبھی صرف نظر نہیں کرسکتا اس لیے ہوا کے بعد اس کے ناپیداکنار سمندر پیدا فرمائے اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پانی کا پہنچنا آسان نہیں کیا گیا۔ کہیں سمندروں کو پیدا کیا گیا، کہیں چشمے جاری کردئیے گئے اور پھر ساتھ ساتھ یہ انتظام فرمایا کہ سردیوں میں پہاڑوں پر برف جما کر گرمیوں میں اسے پگھلاکر زمین کی آبیاری کا سامان کیا گیا اور پھر ایک ایساحیرت انگیز انتظام دیکھنے میں آتا ہے کہ سمندر سے بھاپ اٹھاکربادلوں کی چادریں بچھائی جاتی ہیں اور انھیں اس طرح برسایا جاتا ہے کہ زمین کا ایک ایک گوشہ اس سے معمور ہوجاتا ہے اور پھر ایسا نہیں ہو تاکہ سارا پانی زمین میں جذب ہوجائے اور زمین دلدل بن جائے اور نہ ایسا ہوتا ہے کہ سارا پانی بہہ جائے اور ندی نالوں میں پہنچ جائے اور زمین مناسب آبیاری سے محروم رہ جائے بلکہ قرآن کہتا ہے کہ ضرورت کے مطابق ہم پانی زمین میں جذب کرتے ہیں جہاں مزید ضرورت ہوتی ہے اس کو روک دیتے ہیں اور باقی پانی ہم ندی نالوں اور جدولوں کی شکل میں واپس دریائوں سمندروں میں لے جاتے ہیں اور پھر پانی کے اوصاف کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے اور بےساختہ اپنے رب کی یاد آنے لگتی ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ 1 پانی کو سیال پیدا کیا گیا اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سے پیاس بجھتی نہ کپڑے صاف ہوتے اور نہ کھیتیاں سیراب ہوتیں۔ 2 جب پانی جمنے لگتا ہے تو وہ کثیر مقدار میں حرارت خارج کرتا ہے جس سے نیچے کا پانی متاثر ہوتا اور غیرمنجمد رہتا ہے۔ اگر سردیوں میں سارا پانی جم جاتا تو تمام مچھلیاں اور پانی کے دیگر جانور مرجاتے۔ 3 برف پانی سے ہلکی ہوتی ہے یہ پانی کی سطح پر رہ کرنیچے کے پانی کو انجماد سے بچاتی ہے۔ 4 اگر سمندر منجمد ہوتے تو دنیاسردی سے ہلاک ہوجاتی۔ اگر ابل رہے ہوتے تو گرمی سے مرجاتی۔ اس کا اعتدال ہی بقائے حیات کا باعث ہے۔ اسی طرح جب ہم اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نباتات کی چاروں طرف پھیلی ہوئی ایک دنیا دکھائی دیتی ہے۔ درخت سراٹھائے کھڑے ہیں۔ سبزے کی چادریں بچھی ہوئی ہیں، فصلیں لہلہارہی ہیں۔ لیکن کبھی ہم نے نباتات کے اعجاز پر غور نہیں کیا کہ یہ نباتات صرف کائنات کا حسن ہی نہیں یہ ہمارے لیے مدار حیات بھی ہیں۔ یہ غلہ اور پھل جو ہم کھاتے ہیں، یہ کپڑے جو ہم پہنتے ہیں، یہ چائے، کافی اور شربت جو ہم پیتے ہیں، سب نباتات سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ربڑ، یہ کاغذ، یہ کوئلہ، یہ تیل، یہ صابن، سب نباتات کا کرشمہ ہے۔ ہماری یہ الماری میں سجی ہوئی کتابیں، وہ جنگل ہیں جنھیں مزدور کاٹ کر کاغذ کے کارخانوں تک لے گئے تھے۔ پھولوں کے ننھے پودے سے لیکر چنار کے درخت تک آپ کو نباتات کی کروڑوں اقسام نظر آئیں گی۔ ان میں سے کچھ باغوں کی آرائش ہیں، کچھ ہماری غذا ہیں اور کچھ متاع حیات۔ یہ سب ایک ہی زمین سے اگتی ہیں اور ایک ہی پانی سے نشو و نما پانی ہیں۔ لیکن کمال تخلیق دیکھئے کہ سب کی حیثیت، رنگ، قامت، تاثیر، بو اور ذائقہ الگ ہے۔ وَفَی الْاَرْضِ قِطْعٌ مُّتَجَوِّرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٍ وَّنَخِیْلٍ صِنْوَانٍ وَّغَیْرِ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآئٍ وَّاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَھَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاَکْلِ اَنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (زمین میں پاس پاس ایسے قطعات ہیں جن میں کہیں کھیتی، کہیں انگور اور کہیں کھجور کے درخت ہیں۔ ان میں سے کچھ ایک جڑ سے نکلتے ہیں اور کچھ الگ جڑوں سے۔ ان سب کی پرورش ایک ہی پانی سے ہوتی ہے ‘ لیکن ان کے ذائقے الگ الگ ہیں۔ ان باتوں میں اربابِ دانش کے لیے کتنے ہی اسباب و شواہد موجود ہیں) درخت اپنے پتوں کا دامن ہوا اور سورج کے سامنے پھیلاکر ان سے زندگی کی بھیک مانگتے ہیں۔ ان کی جڑیں بطن زمین سے پانی اور غذا لے کر بلند شاخوں تک پہنچاتی ہیں اور پھلوں میں رس، مٹھاس اور خوشبو بھرتی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اتفاقاً ہورہا ہے اور اس انتظام کے پیچھے ایک ہمہ بین آنکھ اور ہمہ دان دانش کارفرما نہیں ؟ کیا یہ ایک اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی شہادت نہیں ؟ دلیلِ توافق کائنات کا مطالعہ ہمارے سامنے نصیحت و عبرت اور علم و دانش کے عجیب و غریب ابواب کھول دیتا ہے کہ ان میں سے ہر باب اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی یکتائیت، اس کے مدبر اعلیٰ اور ہمہ مقتدر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں جو کچھ پیدا کیا گیا ہے ان میں سے بعض مخلوقات ایسی ہیں کہ ان میں ضدین کا تعلق پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم خود کہتا ہے : وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَازُوْجَیْنٍ (ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے) ان میں باہمی نسبت سازگاری کی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہونے کی ہے۔ باایں ہمہ ان کے درمیان ہمیں حیرت انگیز توافق اور سازگاری نظر آتی ہے۔ بجائے ایک دوسرے سے ٹکرانے اور الجھنے کے، ایک دوسرے کے وجود کی حفاظت اور مقصد تخلیق کی تکمیل میں اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود بالکل بےمعنی دکھائی دیتا ہے۔ خودانسان کو دیکھئے اس کو مرد اور عورت کے دوانواع میں تقسیم کردیا گیا ہے اور پھر دونوں کو الگ الگ طبعی خصوصیات، جبلی صفات اور اندرونی احساسات کا اختلاف دے کر بالکل ایک دوسرے سے الگ الگ شخصیتیں بنادیا مگر دونوں میں ایک دوسرے کی کشش اور ایک دوسرے کی تکمیل کی فکر اس طرح دلوں میں راسخ کردی گئی کہ مرد کے پاس جو کچھ ہے وہ عورت کے لیے مطلوب و مرغوب بنادیا گیا ہے اور عورت کے پاس جو کچھ ہے اسے مرد کے تقاضوں کا جواب ٹھہرایا گیا ہے۔ اس طرح باہم ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہوگئے ہیں۔ یہی حال اس کائنات کے تمام اجزائے مختلفہ کا ہے۔ زمین و آسمان، شب وروز، گرمی وسردی، نوروظلمت، حرارت وبرودت، سب زوجین کی طرح ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں مگر باہم شدید اتصال بھی رکھتے ہیں۔ حتی کہ ایک کا دوسرے کے بغیر وجود بےمقصد معلوم ہوتا ہے توافق کا یہ قانون ہم صرف ضدین میں ہی نہیں پاتے بلکہ اس کائنات کے نظام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک ہمہ گیر توافق اور سازگاری ہے۔ ہر چیز اپنی ہستی کی بقا اور اپنے وجود کی نشو و نما کے لیے اس بات کی محتاج ہے کہ یہ پورا کارخانہ اس کے لیے سرگرم کار رہے۔ گیہوں کا ایک پودا ہی لے لیجئے یہ اپنے وجود میں کمال کو نہیں پہنچ سکتا تاوقتیکہ زمین اس کے لیے گہوارے کا کام نہ دے۔ سورج اس کے لیے سمندر سے پانی کے ڈول بھربھرکے فضا میں ابر کی چادریں پھیلا کر اس کے لیے آبیاری کا سامان نہ کرے۔ موسم اس کے لیے نگرانی کا فرض انجام نہ دے۔ چاند اس کو ٹھنڈک نہ پہنچائے، سورج اس کے لیے گرمی مہیا نہ کرے اور ہوائیں اس کو لوریاں نہ دیں، یہ سارے عناصر باہم مل جل کر سرگرم کاررہتے ہیں تب جاکرگندم کا ایک پودا اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے اور گیہوں کا ایک دانہ تیارہوکرخرمن تک پہنچنے کے قابل ہوتا ہے۔ چناچہ قرآن کریم نے اسی حقیقت کو مختلف جگہ بیان فرمایا۔ سوئہ بقرۃ کی آیت نمبر 21 اور 22 میں فرمایا گیا : (اے لوگو بندگی کرو اپنے اس رب کی جس نے تم کو بھی پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رہو۔ اس کی بندگی کرو جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا۔ پھر اس نے تمہاری روزی کے لیے پھل پیدا کیے تو تم اللہ کا ہمسر نہ بنائو درآں حالانکہ تم جانتے ہو) سورة نحل کی آیت نمبر 65 تا 69 میں کائنات کی ہم آہنگی کو زیادہ تفصیل سے بیان فرمایا : (اللہ ہی نے آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے زمین کو زندہ کیا اس کے خشک ہوجانے کے بعد۔ بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو بات کو سنتے ہیں اور بیشک تمہارے چوپایوں میں بڑاسبق ہے۔ ہم ان کے پیٹوں کے اندر گوبر اور خون کے درمیان سے تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ‘ اور کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے بھی۔ تم ان سے نشہ کی چیزیں بھی بناتے ہو اور کھانے کی اچھی چیزیں بھی۔ بیشک اس کے اندر بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر القا کیا کہ تو پہاڑوں اور درختوں پر اور لوگ جو چھتیں اٹھاتے ہیں ان میں چھتے بنا پھر ہر قسم کے پھلوں، پھولوں سے رس چوس، پھر اپنے پروردگار کے ہموار راستوں پر چل۔ اس کے پیٹ سے مشروب نکلتا ہے۔ جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے بیشک اس کے اندر بڑی نشانی ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں ) ان آیات میں اس عالم کی ہمہ گیر ہم آہنگی کی طرف اشارات ہیں۔ بادلوں سے پانی برستا ہے اس سے زمین لہلہا اٹھتی ہے اس کی نباتات کو چوپائے چرتے ہیں ان سے ان کے اندر دودھ بنتا ہے۔ آلائشوں اور خون کے اندر سے سفید دودھ کی دھاریں نکلتی ہیں اور یہ دودھ پینے والوں کے لیے نہایت لذیذ اور قوت بخش غذا کا کام دیتا ہے اور پھر اسی بارش کے پرورش کیے ہوئے انگور اور کھجور کے پھلوں سے انسان اپنی لذت اور ضرورت کی طرح طرح کی چیزیں پیدا کرلیتا ہے۔ پھر شہد کی مکھیاں ہیں جو پہاڑوں کی بلندیوں، پر درختوں کی شاخوں پر اور انگوروں کی ٹٹیوں میں اپنا چھتہ بنالیتی ہیں۔ پھول پھول کے رس چوس کر ان کو جمع کرتی ہیں۔ جن کے رنگ بھی مختلف اور مزے بھی مختلف۔ انسان ان کو پالتا ہے، ان سے لذت بھی حاصل کرتا ہے اور بیماریوں میں شفا بھی۔ ان مناظر کو جو شخص بھی دیدئہ بینا سے دیکھے گا کس طرح باور کرسکتا ہے کہ یہ دنیا اور اس کے یہ تمام حیرت انگیز مظاہر بالکل ایک حادثے کی طرح ظہور میں آگئے ہیں۔ سائنسدان ہمیں بتاتے ہیں کہ آغاز تخلیق میں جب زمین آفتاب سے الگ ہوئی تھی تو اس کا درجہ حرارت وہی تھا جو سورج کا ہے یعنی 12000 بارہ ہزار فارن ہائیٹ۔ جب یہ حرارت کم ہوتے ہوتے 4000 فارن ہائیٹ ہوگئی تو آکسیجن کی ایک خاص مقدار ہائیڈروجن کی طرف بھاگی اور پانی تیار ہوگیا۔ ان گیسوں کی مختلف مقادیر سے کروڑوں مرکبات تیار ہوسکتے ہیں۔ لیکن پانی ان کی صرف ایک ترکیب تقریباً دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن سے بنتا ہے اور باقی تمام مرکبات زہر ہوتے ہیں سوال یہ ہے کہ اوزان ومقادیر کا یہ تعین خودبخود ہوگیا تھا ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کیمیسٹ کی دکان میں مفردادویہ ازخود ایک دوسرے سے ملکر مرکب بن جائیں یالکڑی کے تختے کشتی کی صورت اختیار کرلیں۔ زمین کے سلسلہ میں اس پر غور فرمائیں کہ یہ زمین کہاں سے آئی ؟ ماہرینِ ارض نے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ آج سے ہزارہا صدیاں پہلے ایک بہت بڑا ستارہ سورج کے قریب سے گزرا۔ زورِ کشش سے سورج کے چند ٹکڑے کٹ کر خلا میں گھومنے لگے ان میں سے ایک زمین تھی۔ ان ٹکڑوں کو قریب کے ستاروں نے کھنیچ کر متوازن کردیا۔ زمین کی دو حرکتیں ہیں ایک اپنے گرد جو 24 گھنٹوں میں مکمل ہوتی ہے اور دوسری آفتاب کے گرد جو 365 دن لیتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق زمین کو آفتاب سے جدا ہوئے آج دو ارب صدیاں گزر چکی ہیں۔ لیکن ان گردشوں میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آیا۔ ورنہ علمائے ہیئت کے تمام حساب غلط ہوجاتے۔ اپنے گرد زمین ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور آفتاب کے گرد 68000 میل فی گھنٹہ کے حساب سے۔ اگر اس کی پہلی رفتار کو دس گنا کم کردیا جائے تو شب وروز دس گنا لمبے ہوجائیں گے۔ جون میں 140 گھنٹے کا گرم دن زمین کو جھلس کر رکھ دے گا اور جنوری کی اتنی ہی طویل رات ہر شے کو منجمد کردے گی اور اگر اسے بڑھا دیا جائے تو ہر شے کا وزن کم ہوتاجائے گا اور جب یہ رفتار 16200 میل فی گھنٹہ تک پہنچے گی تو کسی چیز میں کوئی وزن نہیں رہے گا۔ ہوا کا ایک ہلکا ساجھونکا درختوں اور مکانوں کو گرادے گا اور ہا کی کا بال ہٹ ہونے کے بعد ہوا میں اڑجائے گا اور پھر کبھی واپس نہیں آئے گا۔ زمین کا وزن پانچ ارب بلین ٹن ہے اگر آدھا ہوتا تو کشش ثقل نصف رہ جاتی اور اشیاء کا وزن آدھا ہوجاتا اگر یہ وزن دوگنا ہوتا تو ہرچیز کا وزن ڈبل ہوجاتا۔ زمین سورج سے تقریباً 9 کروڑ 29 لاکھ میل دور ہے۔ اگر یہ فاصلہ کم ہوتا تو ہم گرمی سے مرجاتے اور زیادہ ہوتا تو سردی سے مرجاتے۔ کرئہ زمین کا رخ آفتاب کی طرف بالکل سیدھا نہیں بلکہ 23 درجہ کے قریب ایک طرف جھکا ہوا ہے۔ یہی جھکائو موسموں کا سبب ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر دن پچھلے دن جیسا ہوتا اور ہم سردی، گرمی، بہار اور برسات کے مناظر، غذائوں اور پھلوں سے محروم رہ جاتے۔ آغازِ آفرینش میں جب زمین ٹھنڈی ہوئی تو دو گیسیں یعنی نائٹروجن اور آکسیجن باہم مل کر ہوا میں تبدیل ہوگئیں۔ نائٹروجن کی مقدار 78.3 تھی اور آکسیجن کی -20.99 آکسیجن ایک آتش پذیر گیس ہے۔ اگر فضا میں اس کی مقدار زیادہ ہوتی تو آسمانی بجلی کے ایک شرر سے آگ بھڑک اٹھتی اور سب کچھ جل جاتا اور اگر موجودہ مقدار سے نصف ہوتی تو نہ چولہوں میں آگ جلتی اور نہ حیوانی زندگی باقی رہتی۔ کرئہ ہوا میں ذرات گرد آبی بخارات اور گیسوں کی وجہ سے کچھ کثافت ہوجاتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو لاتعداد شہاب جو کثیف ہوا کی رگڑ سے جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ہم پر اتنے شرر اور پتھر برساتے کہ زندگی ختم ہوجاتی۔ سمندر کے پاس ہوا کا دبائو 15 پائونڈ فی انچ ہوتا ہے اور ہزار فٹ کی بلندی پر تقریباً ساڑھے چودہ پائونڈ فی انچ۔ انسان کے کندھے اندازاً 10 مربع انچ جگہ گھیرتے ہیں۔ ان پر ہوا کا دبائو 1160 پائونڈ یعنی ساڑھے چودہ من ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان اس بوجھ کے نیچے پس کیوں نہیں جاتا ؟ جواب یہ ہے کہ اس حکیم مطلق اور عقل کل نے ہوا اور پانی دونوں میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ ان کا دبائو ہر سمت سے ہر سمت کو ہوتا ہے یعنی اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر۔ اسلیے بوجھ کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال اس امر کا نہایت قوی ثبوت ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک حکیم اور اس کا قوی ارادہ ہے جو اس کو وجود میں لایا ہے اور جو علم وقدرت اور ربوبیت و حکمت کی تمام صفات سے متصف ہے۔ وہی ہے جو اپنے علم و حکمت سے اس کے اجزائے مختلفہ میں ربط واتصال پیدا کرتا اور ان کو صالح مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اور ساتھ ہی اس امر کی شہادت بھی مل رہی ہے کہ آسمان سے لے کر زمین تک اور زمین و آسمان کے درمیان صرف ایک ہی ہے جو مالک و متصرف ہے کوئی دوسرا اس کا شریک وسہیم نہیں ہے۔ اگر آسمان اور زمین کے الگ الگ ناظم ومدبر ہوتے یا خیر و شر اور نوروظلمت کے الگ الگ خدا ہوتے تو کائنات کے ان مختلف افراد میں یہ توافق اور یہ ربط نہ ہوتا جو ہم اس دنیا کے ہر گوشے میں مشاہدہ کررہے ہیں۔ انگلستان کے ایک سائنسدان جارج ارس ڈیوس کہتے ہیں کہ میں مدت سے کائنات کے پیجیدہ نظام کا مطالعہ کررہا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک ذرے سے لے آفتاب تک ہر جگہ ایک حیرت انگیز نظم ونسق پایا جاتا ہے۔ روشنی کی ہر شعاع، قطرئہ شبنم کی ہر لرزش اور ہر فطری کیمیائی تغیر پابندآئین ہے۔ یہ امر ناقابلِ تصور ہے کہ یہ نظم وضبط اور یہ ترتیب کسی ناظم کے بغیر خودبخود وجود میں کیسے آگئی ؟ خلاصہ بحث اور نتیجہ مختصر یہ کہ کائنات کے مطالعہ کے نتیجے میں غور و فکر اور تحقیق کا قدم جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے آدمی کے سامنے عجیب و غریب حقائق منکشف ہوتے ہیں۔ کہیں وہ مخلوق کے آئینے میں خالق کو دیکھتا ہے تو کہیں اس کائنات کا حسن اس کے جمال کو آشکارا کرتا ہے۔ کہیں عناصر میں باہمی توافق اور پاسداری اللہ کی بےپناہ قوت کا یقین دلاتی ہے تو کہیں ضد سے ضد کا وجود اسے حیرت میں ڈال دیتا ہے کہیں مظاہرِ کائنات کی تسخیر ایک ہمہ مقتدر ذات کا یقین دلاتی ہے تو کہیں کائنات کی محکم تدبیر اور حیرت انگیز نظم و ترتیب ایک مدبر اعلیٰ کا اذعان پیدا کرتی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان بالآخر یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کائنات کا حاکم ایک ہے اس کی حاکمیت غیرمنقسم ہے۔ اس کی حاکمیت میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں کیونکہ ہم اپنی اجتماعی زندگی میں کسی اجتماعی تنظیم کا تصور اس وقت تک نہیں کرسکتے۔ جب تک حاکمیت کو کسی ایک خاص مرکز میں مرتکز نہ کردیں۔ اب غور کیجیے ! یہ دنیا بیشمار اجزا پر مشتمل ہونے کے باوجود نہ صرف قائم ہے بلکہ پوری قوت و استحکام کے ساتھ قائم ہے۔ اس میں مختلف قویٰ کا تصادم بھی ہے، اضداد کی آویزشیں بھی ہیں، خیر و شر کے معرکے بھی ہیں، لیکن اس دنیا کی کشتی ہے کہ ان موجوں کے تلاطم کے اندر سے بچتی، سنبھلتی، اچھلتی اور کتراتی ہوئی چلتی جارہی ہے اور اس خوبی اور صفائی کے ساتھ کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کون سی بات عقل سے قریب تر ہے کیا مشرکین کا یہ عقیدہ کہ آسمان و زمین کے معبود الگ الگ ہیں یا یہ حقیقت کہ ایک ہی ہے جو زمینوں کا بھی خدا ہے اور آسمانوں کا بھی ؟ کیا اس کائنات سے اس بات کی شہادت مل رہی ہے کہ نوروظلمت کے الگ الگ الہٰ ہیں یا اس بات کی کہ روشنی و تاریکی دونوں کو نکالنے والا ایک ہی ہے ؟ کیا یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ یہ دنیا بیشمار دیوتائوں کی ایک رزم گاہ ہے ؟ یا یہ نظرآتی ہے کہ اس نظام کا ناظم ومدبر صرف اللہ واحدالقہار ہے ؟ اگر پہلی بات صحیح ہے تو یہ شیرازہ بکھرکیوں نہیں جاتا ؟ یہ نظام درہم برہم کیوں نہیں ہوجاتا ؟ عرش والے کے خلاف بغاوت کیوں نہیں پھوٹ پڑتی ؟ حاکمیت کے ایسے تشتت و انتشار کے ساتھ یہ وحدت کیونکر قائم ہے ؟ یہی وہ شہادت ہے جو قرآن کریم نے عربوں کے سامنے اور ان تمام مشرک قوموں کے سامنے پیش کی ہے جو اس کائنات میں کسی نہ کسی نوعیت سے حاکمیت کے انقسام کو تسلیم کرتی تھیں۔ اللہ کی گواہی دلائل انفس کے نتیجے میں پھر اسی پر بس نہیں بلکہ آدمی کے اندر کی دنیا، اس کے باطن کا شعور، اس کی طبیعت کا اقتضا اور اس کی تخلیق کا جوہر، انسان کو یہ بات ماننے پر مجبور کرتے ہیں کہ تمہارا کوئی نہ کوئی خدا ہے اور وہ صرف ایک ہے اور یہی وہ فطری طلب ہے جو انسان کو بعض دفعہ مختلف آستانوں پر جھکنے پر مجبور کرتی ہے اور یہی وہ جستجو ہے جس کا سراغ کبھی وہ مظاہرِ فطرت میں لگتا ہے اور کبھی مظاہرِ قدرت میں۔ یہی چیز کبھی محبت بن کر جھلکتی ہے اور کبھی عقیدت و عبدیت بن کر آشکارا ہوتی ہے۔ لیکن انسان کے اندر کی بےچینی اور بےتابی اس وقت تک سکون پذیر نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے حقیقی مالک کے آستانے کو تلاش نہیں کرلیتا۔ اس کے اندر شکر کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے احسان مندی کا جذبہ اس کے دل کی آواز ہے۔ اس کی تنہائیاں کسی محبوب کے تصور سے آباد ہونے کے لیے بےقرار رہتی ہیں۔ مختلف قوتوں کا پیدا کردہ خوف اسے کسی آغوش کی جستجو پر مجبور کرتا ہے اور اسے اس وقت تک قرار نہیں آتا جب تک یہ حقیقی آغوش اسے میسر نہیں آجاتی۔ شرک کی مختلف صورتوں نے انسان کے لیے عقیدت و محبت کے مختلف پیکر اور عبادت و عبودیت کے مختلف آستانے ضرور تراشے لیکن انسان کو حقیقی سکون صرف اس وقت ملا جب اسے احکم الحاکمین کا آستانہ مل گیا۔ جس طرح نمبروں والے تالے کے مختلف نمبر گم جائیں تو انسان ان نمبروں کی تلاش میں رہتا ہے بالآخر وہ نمبر جو کھولنے کی ضمانت ہیں وہ مل جائیں تو یہ بند تالا کھل جاتا ہے۔ یہی حال انسان کے قلب وضمیر کے قفل کا ہے کہ انسان مختلف تجاویز آزماتا ہے مگر یہ قفل کھلنے میں نہیں آتایہ اس وقت کھلتا ہے جب وہ اپنے خالق ومالک کو پالیتا ہے۔ انسان کی پوری تاریخ اس پر شاہد و عادل ہے کہ لوگوں نے شرک کی ہزاروں صورتیں اختیار کیں لیکن انھیں سکون کی دنیا صرف توحید کے دامن میں نصیب ہوئی۔ اس لیے پروردگار فرماتا ہے : اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِاللّٰہِ اَلاَ بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنَّ الْقُلُوْب (جولوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کی یاد سے ہی سکون پاتے ہیں، خبردار ! اللہ کا ذکر ہی دلوں کے سکون کا باعث ہے) یہ وہ شہادت ہے جو کائنات کا ایک ایک ذرہ دے رہا ہے اور جسے ہم اپنی ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں ‘ کانوں سے بھی سنتے ہیں ‘ حواس سے محسوس بھی کرتے ہیں ‘ عقل سے ادراک بھی کرتے ہیں اور ہمارا باطن بھی جس طرح آپ پڑھ چکے ان باتوں کا ادراک کرتا ہے اور گواہی بھی دیتا ہے۔ اہلِ علم کی گواہی یہی وہ گواہی ہے جو ہمارے وہ اہل علم بھی دیتے ہیں جو انبیائِ کرام کے علم کے وارث ہیں ‘ جو کتاب اللہ کا علم رکھتے ہیں اور اللہ کے دین کو سمجھتے ہیں اور وہ اہل علم بھی اس کی گواہی دیتے ہیں جنھوں نے کائنات کا مطالعہ بغیر کسی ذہنی عصبیت اور تحفظ کے کیا ہے۔ وہ اللہ کی الوہیت اور اس کی وحدانیت کے بارے میں ٹھیک ٹھیک اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں جس کی طرف اللہ کی کتاب رہنمائی کرتی ہے اور جس کے بعض حوالے آپ سابقہ گزارشات میں پڑھ بھی چکے ہیں۔ ملائکہ کی گواہی اسی بات کی گواہی ملائکہ بھی دیتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ کے دین اور اس کے رسول کی صداقت پر یقین ہے وہ اس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ اللہ کی شریعت پیغمبروں پر فرشتوں کے واسطے سے نازل ہوتی ہے اور وہ اس بات کا بھی یقین رکھتا ہے کہ قضا و قدر کے فیصلے فرشتوں ہی کے واسطے سے عمل کی صورت اختیار کرتے ہیں اور اللہ کے احکام کائنات کے ایک ایک گوشے میں ملائکہ ہی کی معرفت نافذ اور جاری وساری کیے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ملائکہ اللہ کے کارپرداز اور کائنات کے نظام کو چلانے والے ہیں۔ ان سے زیادہ اس بات کو کون سمجھ سکتا ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک وحدہ لا شریک ہے۔ اسی کے احکام ہیں جن کی تعمیل میں وہ شب و روز لگے رہتے ہیں۔ ان کا ہر وقت آمادہ اطاعت رہنا اور کائنات کے نظام کو چلانے میں مصروفِ عمل رہنا یہ وہ گواہی ہے جو وہ ہر وقت ادا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ قائم بالقسط ہونے کی گواہی کائنات کا ذرہ ذرہ اور وقت کا لمحہ لمحہ جس طرح پروردگارِ عالم کے ایک ہونے کی گواہی دیتا ہے اسی طرح وہ اس کے قائم بالقسط ہونے کی بھی گواہی دیتا ہے۔ قائما بالقسط ترکیب کے اعتبار سے حال واقع ہوا ہے۔ اہل علم کے نزدیک اس ترکیب کی متعدد صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ لفظ اللہ ذوالحال ہے اور یہ اس سے حال ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ ھوََ ضمیر اسکا ذوالحال ہے اور یہ حال ہو کر معناً اس کی صفت ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ یہ انہ کی ضمیر سے حال پڑا ہوا ہے۔ بعد کی دونوں صورتوں کے حوالے سے قائما بالقسط مشہود بہ ہوگا۔ یعنی اللہ ‘ اس کے فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی الوہیت میں یکتا ہے اسی طرح وہ انصاف کو قائم کرنے والا اور انصاف کو قائم رکھنے والا ہے۔ یہاں قسط کا معنی عدل و انصاف ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ ہر چیز کو جس طرح اس کو پیدا کرنے والے نے پیدا فرمایا، اس کی فطرت بنائی ‘ اس کے خواص مقرر کیے ‘ اس کے حدود وقیود کا تعین فرمایا ‘ وہ چاہتا ہے کہ وہ چیز اپنی فطرت کے مطابق اور اپنی حدود وقیود میں رہ کر کام کرے۔ جب بھی وہ چیز اپنی فطرت اور نقطہ اعتدال سے انحراف کرتی ہے تو وہیں سے ظلم ‘ بگاڑ یا بدصورتی کی ابتداء ہوجاتی ہے۔ عدل و قسط کی ٹھیک ٹھیک بقا کو میزان کہا گیا ہے۔ پروردگار نے اپنی تمام مخلوقات میں ایک میزان رکھی ہے اور اپنے نظام تکوین میں اس بات کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ اس کی کوئی مخلوق اس میزان سے سرتابی کرے۔ سورج اور چاند کا اپنے محور میں گردش کرنا اور کائنات کے ایک ایک کرے کا اپنے مدار میں محو پرواز رہنا اور جن اصولوں میں اس کی بقا رکھی ہے ان کی پاسداری کرنا یہ وہ میزان ہے جس نے کائنات کے پورے نظام کو کامیابی کے ساتھ رو بعمل رہنے اور ہر طرح کے خلل سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنادیا ہے۔ زمین و آسمان کے کسی گوشے میں بھی آپ نظر ڈال کر دیکھ لیجئے کہیں بھی اس نظام میں شکست و ریخت نہیں دیکھیں گے۔ آپ اسے کشش ثقل کا نظام کہہ لیجئے یا کوئی اور نام دے لیجئے ‘ اس کی مخالفت کرنا ‘ کسی کرے کے بس میں نہیں اور یہی اس کی بقا کا راز ہے۔ انسانوں کی زندگی کو شکست و ریخت سے محفوظ رکھنے کا بھی اس کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ اس لیے پروردگار نے جہاں کائنات کی دوسری اشیاء میں میزان کا ذکر فرمایا وہیں انسانوں کو بھی حکم دیا کہ کائنات کا پورا نظام اسی میزان کی وجہ سے ٹھیک نہج پر چل رہا ہے۔ تم بھی اگر زندگی کو الجھنوں اور دشواریوں سے بچانا چاہتے ہو تو میزان کے معاملے میں تجاوز نہ کرو۔ چناچہ سورة رحمان میں ارشاد فرمایا : اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ۔ ص وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ ۔ وَالسَّمَآئَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ ۔ لا اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ ۔ وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ ۔ (سورج اور چاند دونوں ایک حساب کے ساتھ گردش کرتے ہیں۔ ستارے اور درخت سب سجدہ کرتے ہیں۔ اس نے آسمان کو بلند کیا اور اس میں ایک میزان رکھی۔ کہ تم بھی میزان کے معاملے میں تجاوز نہ کرو۔ بلکہ وزن کو انصاف کے ساتھ قائم کرو اور میزان میں کوئی کمی نہ کرو) ( الرحمن : 5 تا 9) جس طرح اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے عمل اور مخلوقات کی عملی سرگرمیوں میں تکوینی طور پر ایک میزان رکھی ہے اسی طرح مخلوقات کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے بھی ایک توازن اور ایک عدل و انصاف رکھا ہے۔ اس کا سورج چمکتا ہے تو اس کی روشنی اور دھوپ سے ہر مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے۔ جس طرح بادشاہ کے محل میں وہ روشنی دیتا ہے اس طرح غریب کا جھونپڑا بھی اس کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔ اللہ نے اگر زمین میں قوت روئیدگی رکھی ہے تو جس طرح ایک جاگیردار اور و ڈیرے کی زمین غلہ اگاتی ہے اسی طرح ایک غریب اور شودر بھی اپنی زمین میں جو کچھ کاشت کرتا ہے زمین اس کو اگانے میں کبھی تأمل نہیں کرتی۔ اس کا چاند جس طرح راجا کے گھر میں خوشیاں بکھیرتا ہے اسی طرح پر جا بھی اسی سے شادکام ہوتی ہے اور انسانی اعمال میں بھی اس کا یہی عدل و قسط کارفرما ہے۔ نیکی پر جزا دے گا اور برائی پر سزا دے گا۔ اپنے اسی عدل و قسط کے حوالے سے ارشاد فرماتا ہے : افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون۔ (کیا ہم فرمانبرداروں اور نافرمانوں کو برابر کردیں ؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ تم کیسے فیصلے کرتے ہو ؟ ) اس کے بعد اپنے دعویٰ کو دہراتے ہوئے فرمایا کہ اللہ، فرشتوں اور اہل علم کی گواہی کے بعد یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو پھر یاد رکھو جو اس معبود اور حاکم حقیقی کو تسلیم کرنے سے انکار کرے گا یا اس کی بندگی سے انحراف کرے گا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ صرف معبود ہی نہیں ‘ عزیز یعنی غالب اور قوت والا بھی ہے۔ وہ جب چاہے پکڑ سکتا ہے اور سزا دے سکتا ہے۔ البتہ تمہیں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ عموماً وہ پکڑنے میں تاخیر کرتا ہے اور بعض دفعہ یہ تاخیر اس قدر طویل ہوجاتی ہے کہ دیکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہمیں پکڑنے والا کوئی نہیں۔ فرمایا یاد رکھو ! پکڑنے میں تعجیل اور جلدی کمزور حکمران کیا کرتا ہے ‘ لیکن وہ غالب اور قوت والا حکمران جس کی پکڑ سے بچ کر کوئی نہ نکل سکتا ہوٗ گرفت میں جلدی نہیں کرتا۔ اللہ بھی چونکہ غالب ہے ‘ وہ جلد باز نہیں بلکہ وہ حکیم ہے۔ اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ نافرمانوں کو بھی مہلت دے۔ تم بعض دفعہ اس کی مہلت کو تاخیر کا نام دیتے ہو اور یا یہ سمجھ بیٹھتے ہو کہ شاید گرفت کرنے والا کوئی نہیں۔ اگر گرفت کرنے والا کوئی نہ ہوتا تو قوموں پر عذاب کبھی نہ آتے اور قیامت کے دن کا آنا کبھی یقینی نہ ہوتا۔ جس کسی کو مہلت ملی ہے اسے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ‘ یہ اللہ کی رحمت ہے۔ اگر وہ ہر غلطی پر پکڑنے لگتا تو کوئی ذی روح زندہ نہ رہتا۔ لیکن اس کی مہلت سے بےفکر بھی نہیں ہونا چاہیے ؎ نہ جا اس کے تحمل پر کہ بےڈھب ہے گرفت اس کی ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
Top