Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 18
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِالْقِسْطِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ
شَهِدَ : گواہی دی اللّٰهُ : اللہ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور علم والے قَآئِمًا : قائم (حاکم) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ نے گواہی دی کہ بلاشبہ کوئی معبود نہیں اس کے سوا، اور فرشتوں نے اور اہل علم نے، وہ انصاف کے ساتھ قائم ہے، کوئی معبود نہیں مگر وہی، وہ غلبہ والا ہے حکمت والا ہے۔
(1) ابن السنی نے عمل یوم ولیلہ میں اور ابو منصور الشجامی نے اربعین میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ فاتحہ الکتاب آیۃ الکرسی اور آل عمران میں سے دو آیتیں (یعنی) لفظ آیت ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو والملئکۃ واولوا العلم قائما بالقسط لا الہ الا ھو العزیز الحکیم۔ ان الدین عند اللہ الاسلام “ اور ” قل اللہم ملک الملک تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر۔ تولج الیل فی النھار وتولج النھار فی الیل وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی وترزق من تشاء بغیر حساب۔ “ تک یہ (آیتیں) عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں یہ کہتی ہیں اے ہمارے رب آپ نے ہم کو اپنی زمین کی طرف اتارا اور اس شخص کی طرف جو تیری نافرمانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں قسم کھاتا ہوں میرے بندوں میں سے جو بھی تم کو پڑھے گا ہر فرض نماز کے بعد وہ جیسا بھی ہو تو جنت میں اس کا ٹھکانہ بناؤں گا اور میں اس کو جنت الفردوس میں جگہ دوں گا اور میں اس کی طرف ہر دن ستر مرتبہ نظر رحمت سے دیکھوں گا اور ہر دن کی ستر حاجتیں پوری کروں گا اس کی ادنیٰ حاجت مغفرت ہوگی، اس کو ہر دشمن سے بچاؤں گا اور اس کے خلاف اس کی مدد کروں گا۔ (2) الدیلمی نے مسند الفردوس میں ابو ایوب انصاری ؓ سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ جب نازل ہوئی ” الحمد للہ رب العلمین “ (یعنی سورة فاتحہ) آیۃ الکرسی آخر تک اور ” قل اللہم ملک الملک “ سے لے کر ” بغیر حساب “ تک نازل ہوئیں تو عرش سے چمٹ گئیں اور انہوں نے عرض کیا آپ نے ہمیں ایسی قوم کے پاس نازل کیا جو تیری نافرمانی کرتی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری عزت اور میرے جلال کی قسم ! اور میرے مکان کی رفعت کی قسم ! جو کوئی بندہ ہر فرض نماز کے بعد تمہیں پڑھے گا اس کا عمل جیسا بھی ہو میں اس کی مغفرت کردوں گا اور اس کو جنت الفردوس میں ٹھہراؤں گا اور ہر دن ستر مرتبہ اس کی طرف نظر رحمت کروں گا اور اس کی ستر حاجتیں پوری کروں گا کہ اس کی ادنیٰ حاجت مغفرت ہوگی۔ (3) احمد طبرانی ابن السنی نے عمل یوم ولیلہ میں ابن ابی حاتم نے زبیر بن عوام ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور آپ عرفات میں یہ آیات پڑھ رہے تھے لفظ آیت ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو “ سے ” ھو العزیز الحکیم “ تک پھر آپ نے فرمایا اے میرے رب میں بھی اسی پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں اور طبرانی کے الفاظ یوں ہیں کہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ غالب اور حکمت والے ہیں۔ (4) ابن عدی طبرانی نے الاوسط میں بیہقی نے شعب الایمان میں اور اس کو ضعیف کہا خطیب نے اپنی تاریخ میں اور ابن النجار نے غالب القطان (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں کوفہ میں تجارت کے سلسلہ میں آیا اور اعمش (رح) کے ہاں ٹھہرا جب رات تھی تو میں نے نیچے اترنے کا ارادہ کیا تو وہ کھڑے ہوئے (یعنی اعمش) اور تہجد پڑھنے لگے جب اس آیت پر پہنچے ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو “ سے ” ان الدین عند اللہ الاسلام “ تک تو انہوں نے فرمایا میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں جس کی اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے اور میں یہ گواہی اللہ تعالیٰ کے ہاں امانت رکھتا ہوں اور یہ میری امانت ہے اللہ تعالیٰ کے پاس کئی مرتبہ ایسا کہا میں نے دل میں کہا کہ آپ نے اس بارے میں کچھ خصوصی بات سن رکھی ہے پھر میں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا مجھ سے ابو وائل نے حضرت عبد اللہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ان آیات کے پڑھنے والے کو لایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے بندے نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور میں زیادہ حقدار ہوں وعدہ کو پورا کرنے کا پس میرے بندے کو جنت میں داخل کردو جنات سے حفاظت کا نسخہ (5) ابو الشیخ نے العظمہ میں حمزہ زیات (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں ایک رات کوفہ کے ارادہ سے (گھر سے) نکلا رات کو ایک ویران جگہ میں اتر کر اندر داخل ہوا اس درمیان میں کہ میں اس (ویران جگہ) میں تھا میرے پاس جنات میں دو دیو آئے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا یہ حمزہ بن حبیب زیات ہے جو لوگوں کو کوفہ میں (قرآن) پڑھاتا ہے اس نے کہا ہاں (ٹھیک ہے) اللہ کی قسم میں اس کو ضرور قتل کروں گا دوسرے نے کہا اس کو چھوڑ دے یہ مسکین ہے مسکین کی زندگی گذار رہا ہے اس نے کہا میں اس کو ضرور قتل کروں گا جب اس نے مجھے قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تو میں نے پڑھا لفظ آیت ” بسم اللہ الرحمن الحیم ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو والملئکۃ واولوا العلم قائما بالقسط لا الہ الا ھو العزیز الحکیم “ اور کہا میں اس پر گواہوں میں سے ہوں اس کے ساتھی نے اس سے کہا خبردار اب میں اس کی صبح تک حفاظت کروں گا۔ (6) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ؓ کی قرأت میں یوں ہے۔ لفظ آیت ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو “ اور اس کی قرات یہ بھی ہے ” ان الدین عند اللہ الاسلام “۔ (7) ابن ابی حاتم کے طریق سے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” قائم بالقسط “ سے مراد ہے کہ اے ہمارے رب عدل قائم فرما۔ (8) ابن ابی حاتم نے ضحاک سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” بالقسط “ سے مراد عدل ہے۔ (9) ابن جریر نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ وہی گواہی دینے والا ہے فرشتے اور لوگوں میں سے علماء بھی (کیونکہ) لفظ آیت ” ان الدین عند اللہ الاسلام “ (یعنی اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام ہے) ۔ (10) محمد بن جعفر بن زبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ (یہ آیت) ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو والملئکۃ واولوا العلم “ خلاف ہے اس کے جو نصاری نجران نے کہا۔ (11) عبد بن حمید ابن جریر نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” ان الدین عند اللہ الاسلام “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اسلام سے مراد ” لا الہ الا اللہ “ کی گواہی دینا ہے اور اقرار کرنا ہے جو اللہ کے پاس سے آیا ہے اور اسلام وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا اور اسی کے ساتھ اپنے رسولوں کو بھیجا اور اسی کی طرف اولیاء نے لوگوں کی رہنمائی کی اس کے سوا کوئی دین قبول نہیں فرمائے گا اور اسی پر بدلہ دے گا۔ (12) ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے لفظ آیت ” ان الدین عند اللہ الاسلام “ کے بارے میں روایت کیا ہے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اسلام کے ساتھ۔ (13) عبد بن حمید ابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ بیت اللہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے عرب کے ہر قبیلہ کا ایک یا دو بت تھے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو “ تو سارے بت کعبہ کو سجدہ کرنے کے لئے گرپڑے۔ قولہ تعالیٰ : وما اختلفت : الا یہ۔ (14) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما اختلف الذین اوتوا الکتب “ سے بنو اسرائیل مراد ہیں۔ (15) ابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الا من بعد ما جاء ہم العلم بغیا بینہم “ سے مراد ہے کہ دنیا کہ محبت اور اس کی حکمرانی اور اس کی بادشاہی کو طلب کرنے کے بعد گمراہ ہوئے سو ان کے بعض نے بعض کو قتل کیا دنیا کی لالچ میں جبکہ وہ علماء میں سے تھے۔ علماء کو بادشاہ سے دور رہنا چاہئے (16) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جب موت حاضر ہوئی (یعنی موت کا وقت قریب آیا) تو انہوں نے بنی اسرائیل کے ستر بڑے بڑے علماء کو بلایا ان کو تورات شریف امانت دی اور ان کو اس پر امین بنایا ہر عالم کو ایک حصہ دیا یوشع بن نون موسیٰ (علیہ السلام) کے خلیفہ ہوئے جب پہلی صدی گذر گئی پھر دوسری بھی گذر گئی تو ان کے درمیان آپس میں اختلاف ہوگیا اور یہ وہ لوگ تھے جو علم دئیے گئے تھے ان ستر کے بیٹے تھے یہاں تک کہ انہوں نے آپس میں خون بہایا اور (ان کے درمیان) شر اور اختلاف واقع ہوگیا اور یہ سارا معاملہ ان لوگوں کی طرف سے ہوا جو علم دئیے گئے تھے اور اس کا سبب دنیا کی محبت اس کی بادشاہی اور اس کے خزانوں اور اس کی زیب وزینت کی طلب تھی پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے ظالم بادشاہوں کو مسلم کردیا۔ (17) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما اختلف الذین اوتوا الکتب “ سے نصاری مراد ہیں (اور) ” الا من بعد ما جاء ہم العلم بغیا بینہم “ یعنی وہ علم جو ان کے پاس آچکا یعنی اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شرک نہیں۔ (18) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فان اللہ سریع الحساب “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ (19) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” فان حاجوک “ سے مردا ہے کہ اگر تیرے ساتھ یہود و نصاری جھگڑا کریں۔ (20) ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے رورایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فان حاجوک “ سے یہود و نصاری مراد ہیں انہوں نے کہا بلاشبہ دین یہودی اور نصرانی کا ہے (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) اے محمد ﷺ آپ فرما دیجئے ” اسلمت وجھی للہ “ یعنی میں اپنے چہرہ کو اللہ کے سپرد کردیا (یعنی میں اللہ کا فرمانبردار بن گیا) ۔ (21) ابن جریر نے محمد بن جعفر بن زبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فان حاجوک “ سے مراد ہے یعنی وہ لوگ خلقنا۔ فعلنا۔ جعلنا کے قول سے باطل استدلال کریں اور ان کا شبہ باطل ہے اور وہ حق کو خوب جانتے ہیں اس لیے آپ ان کو کہہ دیجئے لفظ آیت ” فقل اسلمت وجھی للہ “ (میں تو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوگیا) ۔ (22) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے ” ومن اتبعن “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ انہیں بھی آپ کی طرح کہنا چاہئے جو شخص آپ ﷺ کی تابعداری کرلے۔ قیامت کے دن اعضاء گواہی دیں گے (23) حاکم نے (اور اس کو صحیح کہا) بہز بن حکیم (رح) سے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا اے اللہ کے نبی ! میں آپ سے اللہ کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کس چیز کے ساتھ ہمارے رب نے آپ کو بھیجا ہے ؟ آپ نے فرمایا اسلام کے ساتھ میں کہا اس کی نشانی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اسلام کی نشانی یہ ہے کہ تو کہے لفظ آیت ” اسلمت وجھی للہ “ (میں اللہ تعالیٰ کے لیے فرمانبردار ہوگیا) پھر تو ہر چیز سے الگ ہوجائے اور تو نماز کو ادا کر زکوٰۃ ادا کر ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حرام ہے (اس کا خون اس کا مال اور اس کی عزت) وہ دونوں بھائی ہیں ایک دوسرے کی مدد کرنے والے اللہ تعالیٰ کسی مسلمان سے جس نے شرک کیا اسلام لانے کے بعد کوئی عمل قبول نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ جدا ہوئے مشرکین سے مسلمانوں کی طرف مجھ پر یہ لازم نہیں ہے کہ تمہاری کمروں سے پکڑ کر جہنم سے بچاؤں خبردار بیشک میرا رب مجھ کو بلانے والا ہے خبردار وہ مجھ سے پوچھنے والا ہے کیا تو نے میرے بندوں کو (میرا پیغام) پہنچا دیا تھا اور میں کہوں گا اے میرے رب میں نے ان کو پہنچا دیا تھا سو چاہئے کہ تم میں سے حاضر لوگ غائب لوگوں کو (اللہ کا پیغام) پہنچا دیں پھر بیشک تم کو اس حال میں لایا جائے گا تمہارے مونہوں کو فدام سے بند کردیا ہوگا پھر سب سے پہلے تمہارے اعضاء میں سے جو بولے گی وہ اس کی ران اور ہتھیلی ہوگی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ ہمارا دین ؟ آپ نے فرمایا تمہارا دین ہے جب تو اس پر اچھی طرح عمل کرلے گا تجھ کو کافی ہوجائے گا۔ (24) ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وقل للذین اوتوا العلم “ سے مراد یہودی اور نصاریٰ ہیں (اور ) ” والامیین “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو لکھنے والے نہیں ہیں۔ (25) ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فان اسلمعوا فقد اھتدوا “ سے مراد ہے کہ جس شخص نے سچے دل سے ایمان قبول کیا وہ ہدایت پا گیا۔ ” وان تولوا “ (اگر وہ پھرگئے) ایمان سے تو آپ کا قصور نہیں۔
Top