Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 18
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِالْقِسْطِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ
شَهِدَ : گواہی دی اللّٰهُ : اللہ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور علم والے قَآئِمًا : قائم (حاکم) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ جو انصاف پر قائم ہیں وہ بھی (گواہی دیتے ہیں کہ اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں
رجوع بسوئے مضمون توحید۔ قال تعالی۔ ابتداء سورت میں نصارائے نجران سے خطاب تھا جس میں توحید کا اثبات اور الوہیت مسیح کا ابطال تھا درمیان میں اور مناسبت مضامین کا ذکر فرمایا اب پھر اصل مضمون توحید کی طرف رجوع فرماتے ہیں کہ جو اصل ایمان ہے کیونکہ توحید کی شہادت ایمان کی اصل الاصول ہے اور توحید ہی پر اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی کا دارومدار ہے گواہی دی اللہ تعالیٰ نے اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں چناچہ اللہ تعالیٰ اپنی کتابوں اور صحیفوں میں برابر اس مضمون کی گواہی دیتا رہا اور صحیفہ کائنات کا ایک ایک ورق اس کی توحید کی شہادت دے رہا ہے وفی کل شئی لہ شاھد۔۔۔ یدل علی انہ واحد، ہر گیا ہے کہ از زمین روید۔۔۔ وحدہ لاشریک لہ گوید۔ اور فرشتوں نے بھی اس کی گواہی دی فرشتوں کی کوئی تسبیح اور تحمید اللہ کی توحید کے ذکر سے خالی نہیں اور علم والوں نے بھی ہر زمانہ میں توحید کی گواہی دی علماء ہمیشہ دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے توحید کو ثابت کرتے رہے اور شرک کو باطل کرتے رہے یہاں تک کہ توحید کا مسئلہ اس درجہ واضح ہوگیا کہ مشرکین بھی اپنے کو مشرک کہنے سے عار کرنے لگے اور وہ معبود بھی اس شان کا ہے کہ ہر تد بیر کو انصاف اور اعتدال کے ساتھ قائم رکھنے والا ہے اور اس کی کوئی تدبیر عدل و انصاف سے باہر نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ مالک مطلق ہے اپنی ملک میں جو چاہے تصرف کرے ظلم وہ ہے جو دوسرے کی ملک میں تصرف ہو اللہ تعالیٰ کی ہر تدبیر کا عین عدل اور عین حکمت ہونا یہ بھی اس کی توحید کی ایک مستقل دلیل ہے چناچہ فرماتے ہیں اللہ کے سوا کوئی لائق بندگی نہیں اس لیے کہ الہ یعنی معبود کے لیے عزت اور حکمت کا ہوناضروری ہے اور وہی عزت والا اور حکمت والا ہے اس کی عزت اور غلبہ کا یہ عالم ہے کہ کوئی اس کے عدل اور تدبیر کو توڑ نہیں سکتا اور حکمت کا یہ عالم ہے کہ اس کی کوئی شے مقتضائے حکمت کے خلاف نہیں۔ نکتہ) ۔ عجب نہیں کہ لفظ قائما بالقسط میں عیسائیوں کے مسئلہ کفارہ کے ابطال کی طرف اشارہ ہو کہ یہ کون ساعدل اور انصاف ہے کہ ساری دنیا کے جرائم تنہا ایک شخص پر لاددیے جائیں اور پھر اس ایک شخص کو بےقصور پھانسی پر لٹکا دیا جائے تاکہ وہ معصوم شخص سارے گناہ گاروں کے لیے کفارہ بن جائے خدائے عادل قدوس اس قسم کی گستاخیوں سے پاک اور منزہ ہے۔ سبحانہ وتعالی عمایصفون۔ آیت۔
Top