Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 18
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِالْقِسْطِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ
شَهِدَ : گواہی دی اللّٰهُ : اللہ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور علم والے قَآئِمًا : قائم (حاکم) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ اور فرشتے اور علم والے عدالت کے ساتھ گواہی دے چکے کہ اس کے سوائے کوئی معبود نہیں کوئی بھی خدا نہیں مگر وہی (ایک) زبردست حکمت والا۔
ترکیب : شہد فعل اللّٰہ فاعل ‘ انہ یہ جملہ بیان شہادت والملائکۃ واولوا العلم معطوف ہے لفظ اللّٰہ پر قائما بالقسط حال ہے فاعل شہد سے ‘ الدین اسم ان الاسلام خبر عنداللہ ظرف ومن مبتدا یکفر خبر اور ممکن ہے کہ من شرطیہ یکفر الخ شرط فان اللّٰہ جزا۔ تفسیر : اس بیان کو تمام کرکے پھر مسئلہ توحید کی طرف رجوع کیا جاتا ہے پہلے فرمایا تھا کہ دنیا اور اس کے نعماء فانی ہیں اور دار آخرت اور وہاں کی نعمتیں باقی ہیں اور وہ نعمتیں ان کے لیے ہیں جو کہتے ہیں ربنا اننا آمنا الخ یعنی جن کی قوت نظریہ ایمان ‘ کامل توحید اور اس کی صفات پر یقین ہے اور قوۃِ عملیہ بھی کامل ہے جیسا کہ الصابرین الخ میں اشارہ ہے اب یہاں اس بات کو ظاہر فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ اور اس کی توحید پر ایمان لانا جو نجات کا مدار ہے کوئی خلاف واقع اور بےاصل بات نہیں جیسا کہ بےعقل لوگ جو صرف محسوسات ہی کا وجود مان کر اور چیزوں کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ بلکہ یہ بات بہت واضح اور کھلی ہے خدا نے خود آسمان و زمین اور ان کے اندر کی کائنات کو اپنے وجود اور توجہ کے لیے شاہد بنا رکھا ہے جس طرح کوئی نقش پائوں رکھنے والے کے وجود پر بغیر اس کے کسی نے اس کو آنکھ سے دیکھا ہو با آواز بلند گواہی دے رہا ہے اسی طرح ہر چیز مخلوقِ الٰہی بزبان حال اس کے وجود وحدت کو بیان کررہی ہے۔ ففی کل شیء لہ شاہد یدل علی انہ واحد شہداللّٰہ الخ کے یہ معنی ہیں اس کے علاوہ یوں بھی خدا تعالیٰ کتب الہامیہ میں شہادت دے رہا ہے اور نیز وہ ملائکہ سے اور ملائکہ انبیاء سے کہتے ہیں وہ علماء سے فرماتے ہیں وہ عامہ خلائق کو سناتے ہیں والملائکۃ واولو العلم اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ جب عقل نور الہام کی روشنی سے آنکھ اٹھا کر عالم ہستی میں دیکھتی ہے تو اس مخلوقات کو اس کا مظہر اور ظل جان کر سوائے اس کے اور کوئی نظر نہیں پڑتا۔ ع بخدا غیر خدا در وو جہاں چیزے نیست۔ لا الہ الاللّٰہ مگر بسبب لطافت کے وہ عزیز حکیم حس بصری سے محسوس نہیں ہوسکتا اور جبکہ یہ عقائد اور یہ اعمال صالحہ وہ ہیں کہ جن کا تسلیم کرنا عقل سلیم کے نزدیک ضرور ٹھہرا تو یہی مذہب حقانی اور مقبول عنداللہ ہوا اور مذہب اسلام اسی کا نام ہے تمام انبیاء اور ہر بنی آدم کا فطرتی مذہب یہی ہے حضرت محمد ﷺ اس کے مجدد ہیں نہ موجد اور اب جو یہود اور نصاریٰ اور دیگر مذاہب اختلاف کرتے ہیں تو یہ سب دلائلِ حقہ سے اعراض کرکے محض ضد اور نفسانیت سے کرتے ہیں۔ اس کے بعد مذہب اسلام کا عجیب لطف سے برحق ہونا ثابت کرکے اہل کتاب سے مناظرہ شروع فرماتا ہے اور ان کو ان کے عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ کا سدہ پر اذ غدوت من اھلک تک الزام دیتا ہے۔ اسلام کے لغوی معنی فرماں برداری کرنا اور شرع میں ایمان اور اسلام سے ایک معنی مراد ہیں، ہاں کبھی لغوی معنی کے لحاظ سے دونوں میں فرق ہوتا ہے جیسا کہ قل لم تو منواولکن قولوا اسلمنا تب ایمان سے مراد تصدیق قلبی اور اسلام سے انقیاد ظاہری لی جاتی ہے۔
Top