Tafseer-e-Haqqani - Ar-Rahmaan : 46
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ
وَلِمَنْ خَافَ : اور واسطے اس کے جو ڈرے مَقَامَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
اور جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا تھا اس کے لیے دو باغ ہوں گے
ترکیب : جنتان مبتداء لمن خاف خبرہ مقام ربہ المقام اما اسم منان ای خاف الموقف الذی یقف فیہ العباد للحساب کمافی قولہ تعالیٰ یوم یقوم الناس لرب العالمین و اما مصدر رففیہ احتمالان امابمعنی قیامہ تعالیٰ علی احوال العباد من قام علیہ اذارقبہ کمافی قولہ تعالیٰ فمن ھو قائم علیٰ کل نفس بماکسبت و امابمعنی قیام العباد بین یدیہ۔ فعلی الاول اضافۃ الی الرب تفخیماً و تھویلاً ۔ وقیل لفظ المقام مقحم ای ولمن خاف ربہ والمعنٰی لکل خائفین منکما اولکل واحد جنتان۔ ذواتا تثنیہ ذوات علی الاصل ولامھاتاء (الجلال المحلی) قال ابن الصائغ الالف قبل التاء بدل من یاء وقیل من واوقال الخطیب فی تثنیہ ذات لغتان الاولیٰ الردالی الاصل فان اصلھا ذویہ فالعین واو واللام یاء لانھا مؤنثۃ ذوی والثانیۃ التثنیۃ علی اللفظ فیقال ذاتان۔ وھو صفۃ الجنتان اوخبر مبتداء محذوف۔ افنان جمع فنن وہی الغصنۃ 1 ؎ التی تنشعب من فرع الشجر۔ وقال الزجاج جمع فن 2 ؎ کدن وھوالضرب والنوع من کل شیء والمراد بھا الالوان وبہ قال عطاء و سعید بن جبیرو جمع عطاء بین القولین فقال فی کل غصن فنون من الفاکھۃ۔ وقیل ذواتا انواعٍ واشکالٍ من الثماروقیل الافنان ظل الاغصان علی الحیطان متکئین انتصابہ علی المدح للخائفین اوحال منھم لان من خاف فی معنی الجمع وجنا الجنتین مبتداء و دان خبرہ اصلہ دانو مثل غازفاعل اعلالہ وجنی فعل بمعنی مفعول الجنی مایجتنی 3 ؎ من الثمار۔ قاصرات الطرف من اضافۃ اسم الفاعل الیٰ مفعولہ تخفیفا۔ لم یطمثہن الضمیر راجع الی الازواج المدلول علیھن بقاصرات الطرف۔ الطمث الجماع وقال ابوعمروالطمث المس۔ تفسیر : یہاں سے اہل سعادت کے منازل بیان فرماتا ہے۔ فقال ولمن خاف مقام ربہ جنتان کہ جو دنیا میں اس بات سے ڈرا کہ مجھے خدا تعالیٰ کے سامنے جانا اور حساب دینا ہے (اور یہی اصول حسنات میں سب سے بڑھ کر ہے یہی نظری اور عملی حسنات پر آمادہ کرتی ہے اور برائیوں سے باز رکھتی ہے) اس کے لیے آخرت میں دو بہشت ہوں گے۔ ایک روحانی دوسری جسمانی اور دو اس لیے کہ ہمیشہ ایک مقام میں رہنے سے طبیعت بھر جاتی ہے کبھی یہاں کبھی وہاں سیروتفریح کے لیے ایک گھر دوسرے سیر کا باغ۔ ایک جنت معصیت ترک کرنے کے بدلے میں، دوسری اطاعت کے بدلے میں۔ یا کہو ایک عقیدہ پاک کے سبب دوسری اعمال کے سبب یا ایک محض فضلِ الٰہی کے سبب۔ آگے ان دونوں باغوں کا وصف بیان فرماتا ہے۔ ذواتا افنان شاخوں والے یعنی پھلے پھولے ‘ ہرے بھرے جن پر خزاں و باد صرصر و گرمی و سردی کا کبھی اثر نہ ہو۔ فبای آلاء ربکما تکذبان۔ فیہما عینان 4 ؎ تجریان۔ یہ دوسری صفت ہے کہ ان دونوں میں دو نہر جاری ہوں گی نہایت صاف اور فرحت خیز پانی بلوریں چھپر اور ان میں منبت کے کام کئے ہوئے اور پھر کہیں فواروں میں سے پانی کا گرنا کہیں چادریں چھٹنا عجب فرحت بخشتا ہے۔ فبای آلاء الخ فیہما من کل فاکھۃ زوجان۔ یہ تیسری صفت ہے صرف بہار ہی نہیں بلکہ ہر ایک قسم کے میوے بھی ان میں ہوں گے جو نہ موسم کے تمام ہونے سے تمام ہوں اور نہ فصلوں کے خراب ہونے سے خراب ہوں۔ زوجان الصفنان والنوعان والمعنٰی فی الجنۃ من کل نوع من ثمار الدنیا نوعان۔ یعنی دنیا میں جس قسم کے میوے ہیں ان کی وہاں دو قسمیں ہوں گی رنگت اور ذائقہ اور خوشبو اور چھوٹے بڑے ہوتے ہیں فبای آلاء الخ متکئین علی فرش بطائنہا من استبرق۔ تکیہ لگا کر ایسے عمدہ فرشوں پر بیٹھے ہوں گے کہ جن کے استر مخمل کے ہوں گے۔ یہ چوتھی صفت ہے کہ پتوں اور گھانس اور پتھروں پر بیٹھنا نہ پڑے گا بلکہ ایسے عمدہ مقامات بنگلے اور بارہ دریاں اور کوٹھیاں ان باغوں میں ان نہروں کے اوپر نہایت صنعت کے ساتھ جواہرات سے بنی ہوں گی کہ جن میں ایسے فرش ہوں گے کہ جن کے استر عمدہ ریشمی مخمل کے ہوں گے پھر ان کے اوپر کے رخ کے تو کیا کہنے ہیں۔ دست قدرت نے کیا کیا اس میں گلکاری کی ہوگی اور کیسا عمدہ کپڑا لگایا ہوگا۔ بطائن جمع بطانۃ وہ رخ جو زمین سے ملا ہو۔ استبرق۔ موٹی دیبا یعنی ریشمی مخمل۔ اور یہ بھی نہیں کہ باوجود اس خوبی کے جنت کے میوے ایسے بلند اور مشکل چڑھائی کے درختوں پر اور شاخوں میں ہوں کہ جن کے لیے محنت اٹھانی پڑے۔ پانچویں صفت ہے۔ عمدہ باغ اور نفیس مکانات اور آراستہ فروش اور عمدہ کھانوں کے بعد انسان کی طبع حسین عورتوں کی طرف مائل ہوتی بلکہ وجنا الجنتین دان۔ ان کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے، ہاتھ بڑھاؤ اور توڑ لو۔ کیسی ہی بلند شاخ ہے جھکی چلی آتی ہے۔ یہ ہے 1 ؎ شاخ۔ 12 2 ؎ قسم۔ 12 3 ؎ چنے ہوئے میوے۔ 12 4 ؎ ابوبکر دراق (رح) فرماتے ہیں عینان تجریان میں اس طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں جو آنکھیں اللہ کی محبت یا خوف میں روتی تھیں وہی جنت میں ہوں گی ان کے آنسو وہاں دو جاری نہر کی صورت میں متشکل ہوں گے۔ ابراہیم خواص فرماتے ہیں اسلام کی جزا دارالسلام ہے۔ دارالسلام جنت کا ایک نام ہے۔ اور یہ جلسہ ان سے دوبالا ہوجاتا ہے۔ ایسے عمدہ مقامات پر یہ نہ ہوں تو حظ نہیں اس لیے فرماتا ہے فیہن قاصرات الطرف لم یطمثہن انس قبلہم ولاجان۔ یہ چھٹی صفت ہے کہ وہاں ایسی نیک سیرت عورتیں ہوں گی کہ جن کی نیچی نگاہیں ہوں گی۔ شوخ چشم غیروں کی گھورنے والیاں نہ ہوں گی اور یہ وصف ان میں پیدائشی ہوگا یہ نہیں کہ پہلے بدکار تھیں پھر توبہ کر کے نیک ہوگئی ہوں۔ ایسی عورتوں سے بھی غیرت مند طبائع نفرت کیا کرتی ہیں بلکہ لم یطمثہن ان کو کسی نے ان سے پہلے ہاتھ ہی نہیں لگایا ہوگا نہ جن نے نہ انسان نے۔ یہ ان کی سیرت کی خوبی بیان ہوئی کس لیے کہ سیرت صورت پر مقدم ہے بدسیرت ہے تو سب حسن صورت ہیچ۔ اس کے بعد حسن صورت بیان فرماتا ہے کانہن الیاقوت والمرجان گویا وہ یاقوت اور مونگا ہیں۔ یہ ان کے صفائے رنگ میں تشبیہ ہے جو کمال حسن کو متضمن ہے۔ فبای آلاء ربکما تکذبان۔ انسان کا جہاں تک خیال جاسکتا ہے اور جن چیزوں پر اس کی رغبت ہے وہ یہی چیزیں ہیں جن کا بہ ترتیب بیان ہوا مگر وہاں اس کے خیال سے بھی بڑھ کر نعمتیں ہیں ھل جزاء الاحسان الا الاحسان دنیا میں جو کوئی نیکی کرتا ہے پھر اس کا وہاں نیک ہی بدلہ ہے گویا یہاں تک نیک بدلہ کی تشریح تھی۔ یہ آیت منجملہ ان چار آیتوں کے ہے کہ جن کے سو سو معنی سے زائد ہیں۔ ان کے کلمات جامع بیشمار معانی کو حاوی ہیں۔ فبای آلاء ربکما تکذبان۔
Top