Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 46
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ
وَلِمَنْ خَافَ : اور واسطے اس کے جو ڈرے مَقَامَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے سے ڈرتا رہا دو باغ ہیں
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ (الجن : 46، 47) (اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے سے ڈرتا رہا دو باغ ہیں۔ تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلائو گے۔ ) اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کا انجام گزشتہ رکوع کا آغاز بھی اسی حقیقت کے بیان سے ہوا تھا کہ زمین پر بسنے والی ہر مخلوق فنا ہونے والی ہے اور باقی رہنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ مقصود اس سے یہ تھا کہ لوگ اپنی موت اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے تصور سے بہرہ ور ہو کر زندگی کے طرزعمل کو درست کرنے کی کوشش کریں۔ اس رکوع کے آغاز میں بھی اسی حقیقت کو دوسرے پہلو سے نمایاں کیا گیا کہ آخرت کا انکار کرنے والے اپنے تئیں کیسے ہی استکبار کا شکار ہوں اور اپنے بارے میں جیسی چاہیں غلط فہمیاں پال لیں اور اس کے حصار میں رہنے کی کوشش کریں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آخرت کائنات کے وجود کی توجیہ اور جن و انس کی اخلاقی زندگی کا ایسا تقاضا ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ چناچہ جس شخص نے بھی دنیا میں اس حقیقت کو پا لیا اور اس نے شتر بےمہار بن کر زندگی گزارنے کی بجائے انسانیت اور عبدیت کے دائرے میں زندگی گزاری، اس نے اپنے مقصد وجود کو سمجھا اور اس بات کا یقین پیدا کرلیا کہ ایک نہ ایک روز مجھے اپنے رب کے حضور پیش ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ تو اس سے خودبخود دل سے یہ بات ابھرتی ہے کہ اعمال کے جواب دہی میں کامیابی اسی صورت میں ہوگی جب زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اور اس کے احکام کی تعمیل میں گزری ہوگی۔ پھر خودبخود پائوں ان راستوں کی طرف نہیں بڑھتے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی طرف جاتے ہیں۔ ہاتھ اس طرف دراز نہیں ہوتے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔ اور نگاہ کبھی آوارہ نہیں ہوتی کہ وہ اپنی جواب دہی کے احساس کو بھول جائے۔ ایسا ہی شخص ہے جو قیامت کے دن نوازا جائے گا۔ اسی لیے دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی، فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاوٰی ” جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور ہَوائے نفس کی پیروی سے اپنے آپ کو روکا تو جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔ “ پیش نظر آیت میں یہی فرمایا گیا ہے کہ ایسا شخص جو اپنے رب کے حضور پیشی سے ڈرتا رہا تو قیامت کے دن اس کے لیے دو باغ ہوں گے۔ یعنی ایک باغ تو ہر اس جنتی کو ملے گا جسے اللہ تعالیٰ نے جنت میں جانے کا استحقاق بخشا۔ لیکن یہاں جن لوگوں کا تذکرہ ہورہا ہے معلوم ہوتا ہے یہ مقربینِ بارگاہ ہیں، جنھوں نے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اعمال ہی انجام نہیں دیئے بلکہ نامساعد حالات میں اعلائے کلمۃ الحق کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بھی دی۔ ان کے لیے دو باغ ہوں گے۔ ان کی کیفیت اور تفصیل کیا ہوگی یہ عالم غیب کی باتیں ہیں جن کے بارے میں آج کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے بعد آیت ترجیع ہے اور اس میں اٰ لَآئِ کا لفظ نعمتوں یا قدرتوں کے معنی میں آخر سورة تک استعمال ہوا ہے۔ اس میں بھی خطاب ان ہی لوگوں کو ہے جو آخرت کا انکار کرتے تھے اور تمسخر اڑاتے ہوئے یہ بھی کہتے تھے کہ یہ جو غریبوں کا طبقہ اور فتوفقیر مسلمانوں کا گروہ جنت کے شوق میں خواہشاتِ نفس کی پیروی سے گریز کررہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار رہتا ہے اسے گمان یہ ہے کہ جنت کی نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اسی کے لیے پیدا فرمائی ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات نے جنھیں دنیا میں سرافراز کیا ہے وہی آخرت میں بھی سرفراز ہوں گے۔ اور یہ لوگ نعمتوں کو یہاں بھی ترستے رہے، وہاں بھی ترستے رہیں گے۔ ان سے بار بار یہ بات کہیں جارہی ہے کہ تم آج جو چاہو سمجھو، لیکن حقیقت میں جنت کی نعمتیں ان ہی لوگوں کو ملیں گی جنھیں آج یہ نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے دماغوں سے اس خناس کو نکالنے کے لیے بار بار اس آیت کو لایا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کو عزت دی جائے اور یہ نام نہاد سربلند لوگ اپنے انجام کو دیکھ سکیں۔
Top