Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 46
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ
وَلِمَنْ خَافَ : اور واسطے اس کے جو ڈرے مَقَامَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اسکے لئے دو باغ ہیں
ولمن خاف مقام ربہ جنتان۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: جب جہنمیوں کے احوال کا ذکر کیا تو نیکو کاروں کے لئے جو تیار کیا اس کا بھی ذکر کیا معنی ہے وہ اپنے رب کے حضور حساب کے لئے کھڑا ہونے سے ڈرا تو اس نے معصیت کو ترک کیا۔ مقام مصدر ہے قیام کے معنی میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ اپنے رب کے اپنیاوپر کھڑا ہونے سے ڈرا ‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس کو جھانگ رہا ہے اور اس پر مطلع ہے اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔ مجاہد اور ابراہیم نخعی نے کہا : اس سے مراد وہ آدمی ہے جو معصیت کا ارادہ کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو اس کی پکڑ کے خوف سے معصیت کو ترک کردیتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: یہ آیت اس امر پر دلیل ہے کہ جس نے اپنی بیوی سے کہا : اگر میں جنتی نہیں تو تجھے طلاق۔ کہ وہ حانث نہیں ہوگا اگر اس نے معصیت کا ارادہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے خوف کرتے ہوئے اور اس کا حیاء کرتے ہوئے اس کو ترک کر دے : یہی قول سفیان ثوری کا ہے اور اس پر فتوی دیا۔ محمد بن علی ترمذی نے کہا : ایک جنت اپنے رب سے خوف کی وجہ سے ہے اور ایک جنت اپنی شہوت کو ترک کرنے کی وجہ سے ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : جو فرائض کی ادائیگی کے بعد اپنے رب سے ڈرا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے مقام سے مراد موضع ہے یعنی وہ اپنے رب کے سامنے حساب کے لئے کھڑا ہونے کی جگہ سے ڈرے جس طرح بات پہلے گزر چکی ہے۔ (2) یہ بھی جائز ہے کہ مقام بندے کے لئے ہو پھر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف کردیا جائے یہ اس طرح ہے جس طرح بات پہلے گزر چکی ہے (2) یہ بھی جائز ہے کہ مقام بندے کے لئے ہو پھر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف کردیا جائے یہ اس طرح ہے جس طرح اس ارشاد میں اجل کا لفظ ہے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا : یعنی جو ڈرا اس کے لئے علیحدہ دو جنتیں ہیں پس ہر ڈرنے والے کے لئے دو جنتیں ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے دو جنتیں تمام ڈرنے والوں کے لئے ہیں۔ پہلا قول زیادہ نمایاں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے فرمایا : جنتان سے مراد جنت کے عوض میں دو باغ ہیں ہر باغ سو سال کی مسافت جتنا ہے ہر باغ کے وسط میں نور کا ایک گھر ہے اس گھر میں سے ہر ایک چیز تروتازگی کے عالم میں جھوم رہی ہے اس کا قرار ثابت ہے اور اس کے درخت ثابت ہیں۔ اسے مہدوی نے ذکر کیا ہے اور ثعلبی نے بھی حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے ذکر کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : دو جنتوں سے مراد ہے ایک جنت تو وہ ہے جو اس کے لئے پیدا کی گئی اور ایک جنت وہ ہے جس کا وہ وارث بنا (1) ایک قول یہ کیا گیا ہے : ایک جنت اس کی منزل ہوگی اور دوسری اس کی بیویوں کی منزل ہوگی جس طرح دنیا کے روسا کا معمول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : دو جنتوں میں سے ایک اس کا مسکن اور دوسرا اس کا باغ تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے دو جنتوں میں سے ایک اس کے نچلے محل اور دوسری اس کے بالائی محلات ہیں۔ مقاتل نے کہا : وہ دونوں جنت عدن اور جنت نعیم ہوگی۔ فراء نے کہا : یہ ایک جنت ہے آیات کے سروں کی وجہ سے اسے تثنیہ ذکر کیا۔ قتبی نے اس کا انکار کیا اور کہا : یہ کہنا جائز نہیں کہ آیات کے سروں کی رعایت سے جہنم کے داروغے بیس ہیں فرمایا : وہ انیس ہیں نیز یہ فرمایا : ابوجعفر نحاس نے کہا : فراء نے کہا بعض اوقات جنت ایک ہوتی ہے اور شعر میں اسے تثنیہ ذکر کیا جاتا ہے یہ قول اللہ تعالیٰ کے کلام کے بارے میں بڑا غلط ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جنتان اور اس ارشاد کے ساتھ اس کی صفت بیان کرتا ہے فیھا یہ فول کرنے والا ظاہر کو چھوڑتا ہے اور کہتا ہے : یہ جائز ہے ایک جنت ہو اور شعر سے استدلال کرتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے جنتیں دو ہیں تاکہ ایک ہت سے دوسری جہت کی طرف منتقل ہونے کے ساتھ اس کے مرور میں اضافہ ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے یہ آیت خصوصی طور پر حضرت ابوبکر صدیق کے حق میں نازل ہوئی جب ایک روز جنت کا ذکر کیا حین ارلفت اور آگ کا ذکر کیا حین برزت ‘ یہ عطا اور ابن شوذب کا قول ہے۔ ضحاک نے کہا : ایک روز آپ نے پیاس کی حالت میں دودھ پیا تو وہ اچھا لگا آپ نے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ کو بتایا گیا کہ وہ حلال نہ تھا تو آپ نے قے کردی جب کہ رسول اللہ ﷺ آپ کو دیکھ رہے تھے فرمایا : اللہ تعالیٰ رجھ پر رحم فرمائے تیرے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے اور اس آیت کو آپ پر تلاوت کیا۔
Top