ترکیب ¦ الم نشرح الخ الاستفہام تقریری والمعنی قد شرحنا لک صدرک ووضعنا عنک معطوف علی معنی ماتقدم وعنک متعلق بوضعنا و تقدیمہ علی المفعول الصریح مع ان حقہ التاخر لتعجیل المسرۃ والتشویق المؤخر الذی الخ وصف الوزر ورفعنا الخ معطوف علی السابق یسرا اسم ان مع العسر خبرھا والعسرفی الموضعین واحد لان المعرفۃ اذا اعیدت یرادبھا الاول والیسر غیر الاول ولذا قال النبی ﷺ لن یغلب عسریسرین ان اللہ یقول ان مع العسریسرا الخ۔ اخرجہ عبدالرزاق و سعید بن منصور والبیہقی فی شعب الایمان وغیرھم
تفسیر ¦ یہ سورة بالاتفاق مکہ میں نازل ہوئی۔ جمہور کا اس پر اتفاق ہے۔ حضرت عائشہ ؓ و ابن عباس ؓ کا یہی قول ہے۔ اس میں آٹھ آیات ہیں۔ اس کی مناسبت سورة والضحیٰ سے ایسی ہے کہ بعض نے اس کو پہلی سورة کا جز سمجھ لیا اور کہہ دیا کہ دونوں ایک سورة ہیں۔ چناچہ شیعہ کا یہی قول ہے لیکن دراصل یہ دونوں دو سورت ہیں۔ اس لیے کہ وہاں استفہام غائب کے صیغوں سے ہے جیسا کہ الم یجدک یتیما الخ اور یہاں متکلم کے صیغہ سے اور دونوں کے اسلوب میں بڑا فرق ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سورة کے مضامین سورة والضحیٰ کے اخیر مضامین کا بقیہ ہیں اور آنحضرت ﷺ پر جو جو افضالِ الٰہی ہوئے ہیں۔ ان کی طرف چھوٹے چھوٹے جملوں میں اشارہ ہے اور بعد ان کے دو حکم مؤکد ہیں جو تکمیل و ترقی کے لیے دو رکن رکین ہیں۔
آنحضرت ﷺ کے اندر خدائے پاک نے دو قسم کے کمالات ودیعت رکھے تھے۔ ایک وہ کہ جن کا تعلق مخلوق سے ہے اور دوسرے وہ کہ جن کا تعلق خاص آنحضرت ﷺ کی ذات پاک اور حق سبحانہ سے ہے۔ اول قسم کے کمالات میں سے وہ تین کمال سورة والضحیٰ میں مذکور تھے (1) یتیمی اور اس میں باوجود ایسے اسباب پیدا ہوجانے کے کہ کوئی سرپرست اور معلم نہ رہا تھا۔ پھر کمالات ظاہری باطنی کی ایسے معلم نے تعلیم دی کہ انبیائِ اولوالعزم اور حکمائِ باکمال سے صدہا منازل آگے بڑھ گئے۔ (دوم) ہدایت عطا کرنا اور صدہا اقسام ہیں اور دنیاوی تدابیر اگر موافق مصلحت اور مقتضٰی حال کے نہ ہوں تو گمراہی ہے۔ پھر ان میں سیدھی راہ کی تعلیم والہام ہدایت ہے۔ پھر دینی امور میں قوانین نوامیسیہ سے لے کر قوانین سیاسیہ تک راہ راست سے افراط وتفریط ضلال ہے اور راہ راست کی تعلیم والہام ہدایت ہے۔ اسی طرح اخلاق میں افراط وتفریط ضلال ہے۔ ان میں راہ راست کی تعلیم والہام ہدایت ہے۔ اسی طرح قوائے انسانیہ کی تہذیب ہدایت ہے اور اس کے برخلاف ضلال ہے۔ اسی طرح مراتب قرب و منازل تقرب میں اوپر کے درجہ کی تعلیم ہدایت ہے اور اب یہ نیچا درجہ نقص و ضلال ہے۔
ان سب امور میں حق سبحانہ نے حضرت نبی کریم ﷺ کو ہدایت کی۔ یہ کیسی نعمت و رحمت ہے۔ (3) غنائے نفس اور غنائے مال جو ایک اور نعمت ہے۔ اس کا عطا کرنا بڑا احسان ہے کیونکہ ایسے مصلح قوم بنی آدم کے لیے اگر استغنا نہ ہو تو کوئی فائدہ مترتب نہ ہو۔ یہ تیسرا کمال تھا۔
شرح صدر کی شرح ¦ ان تینوں کمالات کے بعد اس سورة میں تین وہ کمال بیان فرماتا ہے جن کا تعلق خاص آنحضرت ﷺ اور حق سبحانہ کے مابین ہے اور وہ یہ ہیں : (1) شرح صدر : اس کے لفظی معنی ہیں سینہ کھول دینا۔ یہ ہدایت کا اخیر مرتبہ ہے۔ اس مرتبہ میں تمام حقائقِ ملک و ملکوت لاہوت و جبروت منکشف ہوجاتے ہیں۔ زبان اسرار غیب کی کنجی اور دل خزانہ ہوجاتا ہے۔ پھر وہ جو کچھ فرماتا ہے۔ عالم غیب میں مشاہدہ کرکے فرماتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی مرتبہ کے عطا ہونے کی التجا کی تھی۔ رب اشرح لی صدری کہ اے رب میرا سینہ کھول دے۔ یہ مرتبہ اولو العزم انبیاء (علیہم السلام) کو عطا ہوا کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی نبوت کبریٰ کے لیے یہ مرتبہ اور یہ کمال ضروری تھا۔ اس لیے آنحضرت ﷺ کو اس کمال کے حاصل ہونے کی استفہام تقریری کے پیرایہ میں خبر دیتا ہے۔ کیا ہم نے تمہارا سینہ نہیں کھول دیا یعنی کھول دیا تاکہ آپ کو اور لوگوں کو آپ کی نبوت کبریٰ کا اطمینان حاصل ہو۔ اس لیے سب سے اول اسی کمال کا اظہار فرماتا ہے۔ فقال الم نشرح لک صدرک کہ کیا ہم نے اے نبی ﷺ تیرا سینہ نہیں کھول دیا ضرور کھول دیا۔ یہ استفہام تقریری کامل ثبوت کا فائدہ دیا کرتا ہے۔ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ دو بار آنحضرت ﷺ کا سینہ فرشتوں نے چاک کرکے قلب مبارک کو نورانی طشت میں آب قدس سے دھویا۔ ایک بار لڑکپن میں جبکہ آپ حلیمہ سعدیہ کے ہاں پرورش پایا کرتے تھے۔ دوبارہ جبکہ معراج کو تشریف شریف عالم بالا کی طرف لے گئے۔ جمیع الواث بشریہ و کدورات انسانیہ دھو دیے تھے۔ یہ اسی شرح صدر کی تاثیر تھی کہ دنیا ومافیہا آپ کے نزدیک مچھر کے پر کی برابر بھی وقعت نہیں رکھتے تھے اور غم اور خوشی دونوں حالتیں آپ پر کوئی تغیر پیدا نہ کرتی تھیں۔ ہمت عالی کے نزدیک تمام جہان کی اصلاح کے لیے کھڑا ہونا اور دنیا کو ناپاک کرنے والی قوی سلطنتوں کا اکھیڑ کر پھینک دینا کہ جن کی نسبت یہ خیال کرنا بھی جنون شمار ہوتا تھا۔ کوئی بڑی بات نہ تھی۔ ہر حال میں آپ انبساط قلبی کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا کرتے تھے۔ لک کی قید یہ بتلا رہی ہے کہ اور کسی کے لیے شرح صدر مراد نہیں بلکہ خاص آپ ہی کے واسطے۔
فائدہ : شرح صدر فرمایا شرح قلب نہ فرمایا۔ اس میں کیا نکتہ ہے ؟ اس میں یہ نکتہ ہے کہ صدر سینہ کو کہتے ہیں کہ جس کے اندر قلب ہے۔ جب قلب کا قلعہ ہی درست کردیا اور شیطان اور اس کے وسواس کی آمد و رفت بند کردی ہو تو پھر قلب تک کہاں رسائی ہوسکتی ہے۔ کس لیے کہ وہ تو سینہ میں ایک محفوظ جگہ ہے۔ جیسا کہ جب کوئی شہر محفوظ کردیا جاوے تو اس شہر میں جو مخصوص گھر ہے وہ بدرجہ اول محفوظ ہوگا اور جب چور اس محفوظ گھر میں آنا چاہتا ہے تو اول اس شہر میں گھستا ہے، پھر جب کوئی رستہ پاتا ہے تو اس گھر میں بھی آگھستا ہے اور ہموم و غموم دنیا کے زہریلے اثر اور حب الشہوات و حرص آرزوہائے دور دراز کے تلخ ثمر اور دار آخرت سے غفلت اور حق سبحانہ سے محجوبیت کے ظلمات ڈال جاتا ہے۔ پھر نہ کسی طاعت میں لذت نہ اسلام و ایمان میں حلاوت پاتا ہے اور نہ اس کی طرف رغبت کرتا ہے اور جب یہ شہری محفوظ ہوجاتا ہے اور اس میں ایسی روشنی تجلیاتِ الٰہی کی ہوتی ہیں کہ کوئی چورو قزاق روحانی جذبات کے پاسبانوں کے سامنے آنے نہیں پاتا۔ تب عبادات و ریاضات میں حلاوت پاتا ہے۔ اس لیے شرح صدر فرمایا نہ شرح قلب۔
(2) وزر کی تحقیق ¦ اب دوسرے کمال کا اظہار فرماتا ہے۔ ووضعناعنک وزرک الذی انقض ظہرک کہ ہم نے تمہارے اس بوجھ کو کہ جس نے تمہاری پیٹھ توڑ ڈالی تھی تم سے اتار دیا۔ وہ بوجھ کیا تھا ؟ صحیح تر بات یہی ہے کہ جس کی روح میں جو استعداد رکھی گئی ہے۔ اس کے حاصل کرنے میں کوشش کرنا ایک جبلی بات ہے اور جب انسانی قویٰ اور اس کے اعضاء ان چیزوں کی برداشت نہیں کرتے اور ان استعدادات کے حاصل کرنے میں تائید نہیں کرتے تو وہ چیزیں کہ جن کا داعیہ اس کی روح کو ہے ایک بارگراں معلوم ہونے لگتی ہے اور بڑی کشمکش اور اضطراب میں پڑجاتا ہے۔ یہ ہے بارگراں اور یہ ہر شخص پر اس کے روحانی حوصلے کے موافق کم و زیادہ ہوا کرتا ہے۔ چونکہ رسول کریم ﷺ کا حوصلہ بہت ہی بڑا تھا اور خصوصاً اس سبب سے کہ شرح صدر ہوچکی تھی تو آپ کے عزائم کا کیا انتہا اور مکہ میں اس وقت تک آپ کے پاس اس کے سر انجام کے اسباب نہ تھے۔ نہ آپ کے قویٰ وجوارح ان کا تحمل کرسکتے تھے۔ یہ تھا وہ بوجھ بھاری کہ جس نے آنحضرت ﷺ کی پیٹھ توڑ رکھی تھی۔ پیشین گوئی : مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو یوں اتار دیا کہ اس کے سامان بہم پہنچا دیے اور قویٰ وجوارح میں طاقت دے دی یا سامان بہم پہنچانے کا یہ قوی وعدہ ہے۔ چونکہ یقینی ہے اس لیے اس آنے والی چیز کی ماضی کے صیغوں سے خبر دیتا ہے۔ یہ ایک قوی پیشین گوئی ہے جس کا تحقق بہت جلد ہوا۔
بعض صوفیہ کرام فرماتے ہیں کہ وہ نبوت اور اس کے لوازمات کا بوجھ تھا کس لیے کہ آنحضرت ﷺ کا جب شرح صدر ہوچکا تھا اور تجلیاتِ الٰہی و آفتاب ذات حق سبحانہ آپ کی روح پر جلوہ گر ہوچکا تھا تو آپ مقام شہود میں تھے۔ اس وقت سوائے خالق اکبر کے اور کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔ مخلوق کا وجود ہی معدوم معلوم ہوتا تھا۔ پھر ان کے افعال خیر و شر کا تو کیا ذکر تھا۔ پھر کس کو کس بات سے منع کرتے اور کس کو کس بات کا حکم دیتے ؎
بسا میری نظروں میں تو خوبرو ہے
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
پھر ایسے مستغرق الحال کو مخلوق کی طرف متوجہ ہونا اور اعلیٰ مقام سے نیچے تنزل کرنا سخت بوجھ ہے۔ پھر اس بوجھ کو خدا پاک نے یوں اتارا کہ مقام بقاء میں آپ کو ایسی ثابت قدمی عطا فرمائی کہ کثرت وحدت کا حجاب نہ ہوئی عین تفصیل میں جمعیت کا مشاہدہ کرتے تھے اور مخلوق کی طرف متوجہ ہونے سے وہ شہود غائب نہیں ہوتا تھا۔ یہ انتہٰی درجہ کا کمال ہے جو انبیائِ اولو العزم کا حصہ خاص ہے۔
بعض حضرات یوں بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ بوجھ بھاری جس نے کمر توڑ رکھی تھی وہ ہیولانیت اور امکان کا بوجھ تھا جو آپ کو اوپر نہ ابھرنے دیتا تھا اور عالم قدس کے لحوق سے مانع تھا۔ پھر جب اس کو خفیف کردیا اور حدوث و امکان پر تقدس و وجوب کا پر توا پڑگیا تو وہ بوجھ اتر گیا اور باطناً آپ عالم قدس کے لوگوں میں داخل ہوگئے اور اسی لیے طرفۃ العین میں آسمانوں پر تشریف لے گئے اور یہی وہ رفع ذکر ہے جس کا ذکر آتا ہے
(3) رفع ذکر کا بیان ¦ ورفعنا لک ذکرک اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا۔ اذان میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ پانچ وقت آپ کا نام مبارک بھی پکارا جاتا ہے۔ خطبہ میں حضرت ﷺ پر ثناء و درود ہوتی ہے۔ کلمہ جو ایمان کی جڑ ہے اس کے اندر بھی آپ کا ذکر ہے۔ ہر حال میں باستثنائے مواضع چند جہاں حق سبحانہ کا ذکر ہے۔ وہیں آنحضرت ﷺ کا بھی ہے۔ عالم غیب میں آپ سلطان ہیں۔ کوئی جگہ اور کوئی محل نہیں جہاں آپ کا ذکر خیر نہ ہو۔ قبر میں بھی اور حشر میں بھی۔ ملائکہ بھی پوچھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا مطیع تھا یا نافرمان ان پر ایمان بھی لایا تھا یا نہیں۔ جنت کے دروازوں اور عرش کے کنگروں پر بھی اسم گرامی مکتوب ہے۔ موافق یا مخالف کی کوئی ایسی تاریخ نہیں جس میں حضرت ﷺ کا ذکرنہ ہو۔ منکر بھی محامد ہی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اب معمورہ دنیا پر کوئی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں آپ کا ذکر نہ ہو۔ پھر اس سے بڑھ کر اور کیا رفعت ہوگی۔
اول کمرہ ¦ اس رفعت ذکر کو ایک محل رفیع الشان سے تشبیہ دی جاوے کہ جس میں بارہ کمرے ہوں تو نہایت ہی مناسب ہے۔ ہر ایک میں آپ ہی حاکم اعلیٰ ہوں جس کی توضیح یہ ہے کہ ایک کمرہ میں ایک بادشاہ عظیم الشان بیٹھا ہوا ہے اور اس کے سامنے روئے زمین کے بڑے بڑے بادشاہ عرب و عجم ‘ روم، شام، ایران و ہند وغیرہ ممالک کے دست بستہ حاضر ہیں اور تدابیر مملکت اور قوانین جہانداری آپ سے دریافت کر رہے ہیں اور جو کچھ آپ فرماتے ہیں۔ اس کو سر اور آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ کہیں ہارون الرشید دست بستہ کھڑے ہیں۔ کسی گوشہ میں مامون ہیں۔ کسی میں سلاطین سلجوقیہ ہیں۔ کہیں خلفائے مصر ہیں۔ پھر ان سے پیچھے کہیں سلطان بایزید یلدرم ہیں اور کہیں سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ ہیں اور کہیں تیمور صاحبقراں ہیں اور کہیں علاء الدین خلجی اور سلطان محمود۔ الغرض ہر ملک اور ہر زمانہ کے نام آور باقبال بادشاہ جن کے تذکروں سے کتب تواریخ مزین ہیں اور جن کے کارنامے زبان زد خلائق ہیں۔ ایک شاہنشاہ کے سامنے مسلح حاضر ہیں اور حکم کے منتظر ہیں اور وہ ان جملہ بادشاہوں کا بادشاہ کون ہے ؟ وہی ذات بابرکات محمد مصطفیٰ ۔
دوسرا کمرہ ¦ پھر دوسرے کمرہ میں ایک حکیم استاد زمانہ بیٹھا تھا اور اس کے سامنے دنیا بھر کے حکماء اور فیلسوف دست بستہ حاضر کھڑے ہیں اور علوم سیاست منزل تہذیب اخلاق ودرستی آداب حاصل کر رہے ہیں۔ ابو علی سینا کھڑا ہے۔ کہیں ابو ریحاں بیرونی کھڑا ہے۔ کہیں ظہیر فارابی اور کہیں شہرستانی اور کہیں بصیر طوسی وغیرہ وغیرہ حکماء ہر علوم کا استفادہ کر رہے ہیں اور وہ استادِ کل ﷺ ہر ایک کو اس کی استعداد و فہم کے موافق تعلیم دے رہے ہیں۔
تیسرا کمرہ ¦ تیسرے کمرہ میں قانون محمدی کی بہت سی کتابیں دھری ہوئی ہیں۔ ہدایہ وغیرہ اور ایک قاضی القضاۃ (علیہ السلام) بڑی تمکنت اور وقار سے بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے بڑے بڑے معاملہ فہم اور موجد قوانین سیاسیہ و نوامیسیہ حاضر ہیں۔ کہیں امام ابوحنیفہ ہیں تو کہیں قاضی ابو یوسف اور امام محمد اور امام مالک و امام شافعی حاضر ہیں۔ پھر ان کے پیچھے امام الحرمین و ابن دقیق العید و تاج الدین سبکی وغیرہ حاضر ہیں اور آپ کے فیصلہ جات اور ارشادات کو اپنا دستور العمل بنا رہے ہیں۔
چوتھا کمرہ ¦ چوتھے کمرہ میں ایک مفتی مبتحر مسند افتا پر بیٹھے ہوئے ہیں اور علوم و فنون کے دریا جو اس کے سینہ میں جوش زن تھا۔ رواں ہیں۔ کہیں تو نئے واقعات کے احکام کتاب و سنت سے قواعد اصول کے مطابق نکال کر توضیح کی جا رہی ہے۔ کہیں محدثین فخر روزگار فنون احادیث سے بحث کرکے مستفید ہو رہے ہیں اور کہیں مفسرین زمان قرآن مجید کے جلوہ میں جو جو اسرار ودیعت رکھے ہوئے ہیں۔ ان سے استفسار کرکے قلم بند کر رہے ہیں اور کہیں واقعات قرآنیہ کی تحقیق کر رہے ہیں اور کہیں اہل دل ان آیات سے جن میں روحانی جذبات مذکور ہیں استفادہ کرکے حظ وافر اٹھا رہے ہیں۔ کہیں فرائض نویسوں کی ایک جماعت مسائلِ فرائض و میراث دریافت کر رہی ہے اور کہیں قراء بیٹھے ہوئے تصحیح قرأت کر رہے ہیں اور الفاظ قرآنیہ کو انہیں لب و لہجہ سے ادا کرنا سیکھتے ہیں اور کہیں نماز و روزہ ‘ حج و زکوٰۃ و غیرہا فرائض کے آداب و سنن پوچھ رہے ہیں اور کہیں معاملات بیع و رہن وغیرہ کے متعلق مسائل دریافت کر رہے ہیں اور کہیں متکلمین علم عقائد کے مسائل کا استفادہ کر رہے ہیں۔ مخلوق کی ابتداء اور انتہا اور صفات باری اور اس کے افعال اور وجود ملائکہ اور اگلے پیغمبروں اور ان کی کتابوں اور ان کے شرائع سے سوال کر رہے ہیں۔ کہیں مرنے کے بعد سے لے کر جو کچھ اخیر تک روح پر واقعات گزرتے ہیں، ان کا حال دریافت کر رہے ہیں اور کہیں دنیا بھر کے مذاہب کا حال دریافت کر رہے ہیں کہ ان میں سے کون کون سرے سے غلط اور خیالات جاہلانہ پر مبنی تھے اور کون سے من اللہ ہیں جو انبیاء (علیہم السلام) کی معرفت دنیا میں ظاہر ہوئے تھے مگر بعد میں ان میں تحریف و تبدیل ہو کر ان کی صورت بگڑ گئی اور کہیں ایک جماعت اسرار احکامِ الٰہی دریافت کر رہے ہیں اور کہیں علم زہد و رقاق کے وقائق حل کر رہے ہیں۔ یہ مفتی متبحر وہی سرور کائنات ہیں۔ علیہ افضل التحیتہ والصلوٰۃ۔
پانچواں کمرہ ¦ پانچویں کمرہ میں ایک محتسب باوقار مسند حکومت پر بیٹھا ہوا ہے اور احکامِ الٰہی سے نافرمانی کرنے والوں کو سزائیں دلوا رہا ہے۔ کہیں زانی سنگسار ہو رہا ہے اور کہیں چور کے ہاتھ کاٹے جا رہے ہیں اور مسکرات کے استعمال کرنے والوں پر درے پڑ رہے ہیں۔ کہیں ظلم وتعدی کرنے والوں کو سزائیں ہو رہی ہیں اور کہیں لہو و لعب ‘ ناچ باجے والوں پر کوڑے پڑ رہے ہیں۔ شہوات اور فسق و فجور کے رسوم مٹائے جا رہے ہیں۔ دغا بازوں، مکاروں، فریبیوں پر سرزنش ہو رہی ہے۔ مرتشی حکام سے بازپرس ہو رہی ہے۔ یہ صاحب وقار محتسب بھی وہی عالی جناب ﷺ ہیں۔
چھٹا کمرہ ¦ چھٹے کمرے میں ایک ملکی تدابیر اور پولیٹیکل خیالات کا حل کرنے والا نہایت عزت وقار سے مسند پر بیٹھا ہوا ہے۔ بڑے بڑے مدبران ملک دست بستہ زمانہ کے موافق تدابیر پوچھ رہے ہیں۔ پھر کہیں سلطنت کے اصول بیان فرما رہے ہیں۔ امرھم شورٰی کا اشارہ کرکے کاروبار سلطنت کے لیے مدبران قوم کو کمیٹی یا مجلس قائم ہونے کا حکم دے رہے ہیں اور تمام شاہی اختیارات قومی مشورہ کے سپرد فرما رہے ہیں اور کہیں سلطنت کے استحکام کے لیے قومی لشکر جرار کی تیاری کا حکم دے رہے ہیں۔ واعدوالہم ما استطعتم اور ہر زمانہ کے موافق اسلحہ و سامان حرب میں سب سے اول رکھنے کی تاکید فرما رہے ہیں اور ملازمان سلطنت کو افسروں کی اطاعت کا حکم مؤکد صادر فرما رہے ہیں۔ من اطاع امیری فقد اطاعنی پھر قرب و جوار کی سلطنتوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے۔ اس کے قوانین و دستورات کی تعلیم دے رہے ہیں۔ کہیں ملک میں امن وامان قائم کرنے کی تاکید شدید کر رہے ہیں۔ کہیں عہد ناموں کی پابندی پر مجبور فرما کر قوم کے عزت و وقار کو قائم رکھنے کی تدبیر کر رہے ہیں۔ کہیں قوم کو ماتحتوں پر رحمت و شفقت کی ترغیب دلا رہے ہیں اور کہیں سرکشوں ‘ خیرہ چشموں سے سختی اور جوانمردی کرنے کی تاکید فرما رہے ہیں۔ کس لیے کہ قیام سلطنت کے یہی اصول ہیں۔ کہیں قوم کو نیک چلنی اور پرہیزگاری کی تعلیم و عیش و نشاط میں پڑنے کی ممانعت کر رہے ہیں اور باہمی اتحاد و محبت کے اصول جماعت کی نماز جمعہ وعیدین اور حج اور بیمار کی پرسش اور سلام کا جواب دینا حاجات میں کام آنا معاملات میں درگزر کرنا وغیرہ تعلیم کر رہے ہیں اور کہیں فتوحات کے حوصلے دلا رہے ہیں اور احدی بن کر گھر میں بیٹھ رہنے کی برائیاں بیان فرما رہے ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ وہی عالی جناب رسالت مآب۔
ساتواں کمرہ ¦ ساتویں کمرہ میں ایک عابدو زاہد دنیا ومافیہا پر لات مارے کس استغناء سے بیٹھا ہوا ہے اور صبح سے شام تک اور رات دن میں اپنی عمر گرانمایہ کی ایک گھڑی تو کیا پل بھی بیکار نہیں کھوتا۔ کبھی تلاوت قرآن مع التدبرالتام ہے اور کبھی نوافل میں مشغول ہیں۔ کبھی تسبیح و تہلیل میں مصروف ہیں اور اوراد وادعیہ صبح و شام رات اور دن میں سے کسی کو بھی ترک نہیں کرتے۔ ایک خشک ٹکڑے اور پانی کے گھونٹ اور موٹے پرانے کپڑوں پر اقتصاء ہے اور کسی غار یا ٹوٹے پھوٹے مکان کے گوشہ میں رہتے ہیں۔ ان کے چہرے پر انوار چمک رہے ہیں۔ لوگوں کو ان سے دلی انس ہے۔ ملائکہ علوی و سفلی بھی ان کے پاس آتے ہیں اور بندگان خدا بھی جوق جوق آکر مستفید ہوتے ہیں۔ پھر کسی کو نوافل اور تہجد میں اوراد و اشغال کی تعلیم ہے۔ کسی کو دن کے وظائف کی تلقین ہے۔ نہ کسی امیر کی پروا نہ کسی دولت مند کے آنے کی تمنا۔ یہ حضرت بھی وہی سرور کائنات ہیں۔ صلوٰۃ اللہ علیہ وسلامہ۔
آٹھواں کمرہ ¦ آٹھویں کمرہ میں ایک عارف و کامل تشریف رکھتے ہیں ذات وصفات کے اسرار اور عالم ناسوت و ملکوت کے حقائق اس کے دل فیض منزل پر منکشف ہیں۔ حقائق و معارف مواجید و اشواق کا اس کی زبان فیض ترجمان سے دریا جاری ہے۔ فصوص الحکم و فتوحات مکیہ وغیرہ کتابیں اسی ذات مقدس کے بیانات سے لکھی جا رہی ہیں۔ وہ بھی آپ ہی ہیں ﷺ ۔
نواں کمرہ ¦ نویں کمرے میں ایک واعظ منبر پر بیٹھا ہوا ہے۔ لوگوں کی روح اور دلوں کو اپنے کلام کی تاثیر سے ہلا رہا ہے اور ایسا سکہ جما رہا ہے کہ پھر وہ دور ہی نہیں ہوتا۔ کسی کو ثواب عظیم و اجر جزیل کی ترغیب سے راہ پر لا رہا ہے اور کسی کو عذاب قبر اور عذاب جہنم کی لپٹیں دکھا کر توبہ کرا رہا ہے اور کسی کو دار آخرت کے درجات اور حیات جاودانی کے برکات دکھا کر نیک کاموں پر آمادہ کر رہا ہے۔ ہزاروں کافر و بت پرست کفر و بت پرستی سے توبہ کرکے ایمان لا رہے ہیں۔ بدکار اپنی بدکاری پر نادم ہو کر رو رہے ہیں۔ سنگدلوں کا دل موم ہو کر پگھلا جا رہا ہے۔ مجلس میں آہ و بکا کی آواز دلوں کو ہلا رہی ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ اثر میں وہ قیام ہے کہ پھر وہ دور ہی نہیں ہوتا۔ جو ایک بار بھی اس مجلس میں آگیا اس پر بھی ایسا رنگ جما کہ عمر بھر نہ اترا۔ خونخوار خونی ایسے رحمدل ہوگئے کہ چڑیا کے بچے پر بھی اپنے بچوں سے زیادہ شفقت کرتے تھے۔ شہوت پرست پرہیزگار بن گئے۔ سست و غافل ہوشیار بن گئے۔ کنجوس اور کنٹر سخی ہوگئے۔ دنیا کی کایا پلٹ گئی۔ یہ حضرت واعظ بھی آنحضرت ﷺ ہیں۔
دسواں کمرہ ¦ دسویں کمرہ میں ایک بڑے مرشد کامل صاحب طریقہ و صاحب دل بیٹھے ہوئے ہیں جس کی نگاہ خاک کو کیمیا کر رہی ہے۔ طالبان خدا کا اس کے ارد گرد ہجوم ہے۔ وہ ہر ایک کے اس کی استعداد کے موافق حجاب دور کر رہے ہیں اور وصول الی اللہ کے رستے بتا رہے ہیں اور ان کے مقامات و احوال اور مراتب و مناصب ظاہر کر رہے ہیں اور مریدین کے باطن میں رنگا رنگ توجہات و تاثیرات پیدا کر رہے ہیں۔ کسی کو وجد آرہا ہے۔ کوئی حیرت زدہ ہو رہا ہے۔ کوئی لطائف پر نظر کر رہا ہے۔ کسی پر فنا کا غلبہ ہے تو کسی پر بقاء کا۔ کوئی معیت کے دریا میں ڈوبا ہوا ہے تو کوئی تفرید کے جنگل میں ٹکرا رہا ہے۔ حضرت جنید بغدادی و شبلی و سید عبدالقادر جیلانی و شیخ احمد بدوی و معین الدین چشتی و نظام الدین محبوب الٰہی و شیخ شہاب الدین سہروردی و خواجہ بہاء الدین نقشبند وغیرہ اولیائِ کرام حاضر ہیں۔ یہ مرشد کامل بھی آنحضرت ﷺ ہیں۔
گیارہواں کمرہ ¦ گیارہویں کمرہ میں ایک نور پیکر بیٹھا ہوا ہے جس کے رخساروں پر آفتاب ماہتاب قربان ہو رہے ہیں اور آسمان کے ستارے نثار۔ وہ جمالِ الٰہی کا پورا آئینہ ہے۔ ازلی محبوبیت اس میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔ اس میں ایک ایسی کشش ہے جو تمام بنی آدم کے دل بےخود اس کی طرف کھینچے چلے آرہے ہیں۔ مخلوق پروانہ کی طرح بےاختیار اس شمع پر قربان ہو رہی ہے۔ وہ بھی آپ ﷺ ہی ہیں۔
بارہواں کمرہ ¦ بارہویں کمرے میں ایک رسول صاحب کتاب نہایت عزو شان کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور حضرت ابراہیم و اسحاق و یعقوب و دائود و سلیمان و موسیٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) ان کے گرد تشریف رکھتے ہیں اور یہ خاتم النبیین ﷺ ان کی شریعتوں میں اصلاح کر رہے ہیں۔ کہیں ضرورت زمانہ کے لحاظ سے کچھ احکام بڑھا رہے ہیں۔ کہیں گھٹا رہے ہیں۔ کہیں مٹے ہوئے نشانوں کو از سرِ نو قائم فرما رہے ہیں اور سب تسلیم کر رہے ہیں اور اپنا استاد مان رہے ہیں۔ یہ بھی وہی ہیں۔ ﷺ ۔
یہ ہے وہ شرح صدر اور یہ ہے وہ رفع ذکر جس کی پوری شرح ایک کتاب میں بھی ناممکن ہے۔
حسان بن ثابت انصاری ؓ نے اس معاملہ میں چند اشعار نظم کئے ہیں اور وہ یہ ہیں ؎
اغرعلیہ للنبوۃ خاتم
من اللہ مشہور یلوح ویشھد
وضم الا لہ اسم النبی مع اسمہ
اذقال فی الخمس المؤذن اشہد
وشق لہ من اسمہ لیجلہ
فذو العرش محمود و ھذا محمد
چونکہ یہ رفع ذکر و شرح صدر ووضع و زر جو بڑی نعمت و سرورِ دائمی ہے۔ یوں ہی نہیں مل گئی ہے۔ اس کے لیے حضرت رسول کریم ﷺ نے بڑے بڑے مجاہدات کئے ہیں۔ اس لیے فرماتا ہے فان مع العسر یسرا کہ بیشک ہر سختی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔ جب کوئی سختی اور مشقت کا بوجھ سر پر دھرتا ہے تو بہت دیر کے بعد نہیں بلکہ بہت جلد راحت بھی پاتا ہے۔ اسی لیے بعد کا لفظ نہیں فرمایا بلکہ مع کا یعنی کچھ دیر نہیں۔ اس میں ایمانداروں کو ان کے مساعی جمیلہ پر دنیا و آخرت میں کامیابی کا پورا وعدہ ہے اور اسی لیے اس جملہ کو دوبارہ تاکید کے لیے فرمایا جاتا ہے۔ ان مع العسر یسرا کہ ضرور رنج کے بعد خوشی اور دکھ کے بعد سکھ ہے۔ صبر کا نتیجہ اچھا ہے۔ دنیا میں دیکھو جب کاشتکار زراعت کی مشقت اٹھاتا ہے تو غلہ پیدا ہونے کی خوشی دیکھتا ہے۔ علم میں اور کمالات حاصل کرنے میں جو مشقتیں اٹھاتے ہیں۔ بہت جلد اپنی کوشش کے پھل پاتے ہیں۔ اسی طرح جو ایماندار نفس کو بدخواہشوں سے روکتے اور عبادت و فرائض کے ادا کرنے میں مشقت و محنت اٹھاتے ہیں۔ دنیا میں بھی ورنہ مرنے کے بعد جو بہت ہی قریب زمانہ ہے اور گویا ساتھ ہی لگا ہوا ہے، عمدہ پھل پاویں گے۔ اس میں سستوں اور کاہلوں ‘ تن پر وروں کو تنبیہ ہے کہ وہ کبھی سعادت کا منہ نہیں دیکھیں گے۔
اس جملہ کے دوبارہ لانے سے محاورہ عرب کے موافق زبان دانوں نے یہ سمجھا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک سختی کے ساتھ دو راحت عطا کیا کرتا ہے یا کہو دو راحت عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہے کس لیے کہ لفظ عسر الف لام آنے سے معرفہ ہوگیا اور یسر نکرہ ہے اور جب معرفہ باردگر ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے وہی مراد ہوتا ہے۔ برخلاف نکرہ کے کہ اس کے دوبارہ آنے سے پہلے سے غیر مراد ہوتا ہے۔ اس قاعدہ سے عسر تو وہی ایک رہا اور یسردو ہوگئے اور اس کی تائید ان روایات سے ہوتی ہے جو عبدالرزاق و سعید بن منصور و عبد بن حمید و بیہقی وغیرہ محدثین نے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک عسر دویسر پر غالب نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان مع العسر یسرا الخ بزار محدث نے کہا ہے کہ اس روایت کے سلسلہ میں ابو حاتم رازی ہے اور اس کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ حسن بصری سے عبدالرزاق و ابن جریر اور حاکم اور بیہقی نے روایت کی ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ خوش اور شاد گھر سے باہر تشریف لائے، ہنس رہے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ ایک عسر یعنی سختی دویسر یعنی آسانی پر غالب نہ آئے گی۔ فان مع العسر یسراً ان مع العسر یسرا۔ کسی عرب کے شاعر نے بھی اس مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے ؎
اذا اشتدت بک البلویٰ ففکر فی الم نشرح
لعسربین یسرین اذا فکرتہ فافرح
کہ جب تجھ پر کوئی بلا آجاوے تو الم نشرح سورة کو غور کر کہ اس میں ایک مشکل پر دو آسانیوں کا وعدہ مذکور ہے۔ بعض علماء نے مع سے حقیقی معیت سمجھ کر ایک اشکال پیدا کیا ہے۔ پھر اس کا جواب یوں دیا ہے کہ خاص مصیبت کے وقت میں تحمل اور آئندہ آنے والی راحت کی قوی امید پر بھی ایک یسر ہوتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو وہ مصیبت نہ کٹے اور پھر دوسرا یسر اس مصیبت کے بعد میسر آتا ہے جبکہ اس محنت یا مصیبت کا اس رحیم و کریم کی طرف سے بدلہ ملتا ہے۔ مگر یہ سب کچھ ایمان اور صبر کے ساتھ مشروط ہے۔ وہ بےصبر و بےایمان نہ جن کو خدا تعالیٰ کا اعتقاد نہ اس کے وعدہ پر بھروسہ اگر کسی مصیبت کے بعد راحت نہ دیکھیں اور خود مصیبت کے وقت بھی اطمینان وامید کی راحت قلبی ان کو نصیب نہ ہو تو کچھ بعید نہیں اور ایسا دیکھا بھی گیا ہے۔
1 ؎ عرفائے کرام اس آیت کی یوں تفسیر کرتے ہیں کہ عسر مجاہدہ کے ساتھ یسر مشاہدہ ہے اور عسر الفصال کے ساتھ میسر اتصال ہے اور عسر قبض کے ساتھ یسر بسط رکھا ہوا ہو اور اس کے بعد دوسرا یسر کشف حجاب اور رفع عتاب کا ہے۔ یا یوں کہو کہ عسر اول جو احتجاب بالخلق علی الحق ہے اس کے بعد یسر کشف ذات ہے اور دوسرے عسر کے بعد جو احتجاب عن الحق بالحق ہے دوسرا یسر اور وہ شرح صدر اور ثبات مشاہدہ ہے کہ کثرت میں یہی وعدہ کا جلوہ ہے اور یہ مقام نبوت ہے۔ 12 حقانی
بعض علماء فرماتے ہیں کہ ایک یسر سے مراد یسر دینا اور ملکوں اور شہروں کا فتح کرنا اور اعدائے دین پر غلبہ پانا ہے اور دوسرے سے مراد یسر آخرت ہے اور وہ ثواب جنت اور عالم باقی کے درجات ہیں۔ جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔ ھل تربصون بنا الا احدی الحسینین حالانکہ یہاں دونوں حسنیٰ سے حسن ظفر اور حسن ثواب مراد ہے۔ گویا اس جملہ میں ایمانداروں کو بشارت ہے کہ اگر تم اسلام میں سرگرمی اور کوشش کرو گے ‘ سستی اور نامردی اور دنیا پر فریفتہ ہو کر اسلام میں دغابازی نہ کرو گے تو تم کو دو آسانیاں اور فرحتیں اس تکلیف کے بدلے میں ملیں گی۔ ایک دنیا میں فتح و ظفر ‘ عزت و اقبال دوسری آخرت کے درجات اور اگر یہ عسر گوارا نہ کرو گے تو دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب الیم پاؤ گے۔
جہاں تک تجربہ ہو اور تواریخ زمانہ شہادت دے رہی ہیں۔ اس سے یہی ثابت ہوا کہ جب مسلمانوں نے اسلام کے فرائض بجا لانے کی تکلیف گوارا کی۔ خصوصاً اعدائِ دین کے مقابلہ میں جوانمردی کی تو وہ ملکوں کے مالک اور آخرت کے حصہ دار ہوگئے۔ جس کی نظیر صحابہ کرام ؓ اور ان کے بعد اسلامیوں کے عروج کا زمانہ ہے۔ پھر جب فرائضِ اسلام ترک کئے عیش و نشاط میں پڑے۔ نامردی اور خیانت اور حمق میں مبتلا ہوئے تو دنیا میں غیروں نے ان کے تاج و تخت چھینے ان کی عزتوں کو خاک میں ملایا۔ غلامی کی ہتھکڑیاں اور فرمانبرداری کا طوق جو لعنت کا طوق ہے۔ ان کی گردنوں میں ڈالا۔ پھر دین بھی برباد ہوا۔ دنیا بھی گئی۔ سب سے اول خلافت عباسیہ کا انجام دیکھو کہ اس عہد کے نالائق خلیفہ کی عیاشی اور عہدہ داروں کی تن پروری اور غفلت اور عیش پسندی اور خیانت نے کیا آفت برپا کی۔ دجلہ کا پانی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوا ‘ عورتوں کی عصمت تاتاری کفار کے ہاتھ کیسی خراب ہوئی۔ سلطنت گئی ‘ خزانے گئے ‘ علوم مٹے ‘ کتب خانے برباد ہوئے ‘ مدارس و مساجد منہدم ہوئے۔ اسی طرح اندلس کی حالت ہوئی۔ پھر اس زمانہ میں جس پر پوری ایک صدی بھی نہیں گزری۔ فرانس نے الجیریا اور ٹونس پر اور روس نے ترکستان پر ‘ انگریزوں نے ہندوستان اور اس کے ملحقات پر کیسا تسلط کیا۔ یہ جو کچھ ہوا مسلمانوں کی عیاشی ‘ بدکاری ‘ سستی اور جہالت اور فرائضِ اسلامیہ سے غفلت کا نتیجہ ہے۔
) فاعتبروا یا اولی الابصار (
ان نعمتوں کے بعد یہ بھی ارشاد ہوتا ہے کہ فاذا فرغت فانصب یعنی جب رسالت کے کام سے (جو تبلیغ احکام ‘ وعظ و پند ‘ تدبیر امور ‘ فیصل قضا یا ہیں) فراغت ہوا کرے تو عبادت کے لیے کھڑے ہوجایا کرو۔ منجملہ ان دو راحتوں کے جو ایک سختی کے بعد عطا ہوتی ہیں۔ ایک بڑی راحت مشغولی بحق بھی ہے۔ کس لیے کہ ارواح طیبہ کا حیز طبعی تقرب الٰہی ہے اور تمام مشاغل ایک قسم کے عوائق ہیں جہاں دور ہوئے۔ فوراً ادھر ہی میلان ہوا اور یہی ان کا آرام جان ہے۔ الابذکر اللہ تطمئن القلوب۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جو تو تندرست ہو تو اپنا نکاح عبادت سے کر ( یہ اس لیے کہ نصب کے معنی تکان کے بھی ہیں) یعنی بڑی کوشش اور سعی عبادت میں کر کہ تھک جاوے۔ قتادہ و ضحاک و مقاتل فرماتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ جب نماز فرض سے فارغ ہو تو نوافل کے لیے کھڑا ہو اور دعا کر اور خوب کر کہ تھک جاوے۔ بعض فرماتے ہیں کہ جب مشاغل سے فراغِ دل حاصل ہو۔ نماز کے لیے کھڑا ہونا مراد ہے۔ حقیقت میں جو اپنے فراغ کو اس کام میں صرف نہ کرے بلکہ لہو و لعب میں تو وہ عمر گرانمایہ کو برباد کرتا ہے مگر بعض ایسے بھی بدنصیب ہیں کہ انہیں دنیاوی جھگڑوں سے کبھی فراغت ہی نہیں ہوتی۔ پھر ان کو اللہ کی عبادت کی فرصت کہاں اسی جنجال میں موت آلیتی ہے۔ عاقل کو ضرور فارغ ہونا چاہیے۔ یہ نعمت الٰہی کا شکریہ ہے۔ (2) والی ربک فارغب کہ اپنے رب کی طرف رغبت کر اس کی طرف پھر اسی کو مدنظر رکھ۔ یہ دوسرا یسر ہے یعنی ہر کار اور ہر شان اور ہر حال میں اسی محبوب حقیقی کی طرف نظر رہے۔ خصوصاً عبادت میں نہ ریاکاری مطلوب ہو نہ دنیا نہ آخرت بلکہ اس کی ذات اور اسی کا شوق اسی کا جذبہ محبت۔ اس میں اشارہ ہے کہ شرح صدر میں اس قدر عروج تھا کہ بجز ذات حق کے اور کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔ محویت کبریٰ تھی۔ پھر جب دنیا کی تکمیل کا آپ پر بوجھ ڈالا گیا جو بڑا بھاری بوجھ تھا اس لیے کہ حق سے خلق کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا تو ایسی حالت میں روح پر وہ رنگ جو خاص مشغولی بحق میں ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی قدر متغیر ہوجاتا ہو۔ سو اس کی تدبیر بھی ارشاد فرما دی کہ جب اس کام سے فارغ ہوا کرے تو پھر روح کو اس کے تقرب سے قوی اور منور کرلیا کرو اور پھر اسی مقام پر شہود میں آجایا کرو تاکہ ماندگی دور ہوجاوے ؎
ہرچند پیر و خستہ دل و ناتواں شدم
ہر گہ کہ یاد روئے تو کردم جواں شدم
(اللہ اکبر)