اَلَمْ نَشْرَحْ لَـکَ صَدْرَکَ ۔ (النشرح : 1)
(اے نبی کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ کھول نہیں دیا۔ )
شرح صدر کا مفہوم
اعلانِ نبوت کے بعد آپ کو تبلیغ و دعوت کے سلسلے میں جو مشکلات پیش آئیں اس کا سبب ایک تو قریش اور دیگر اہل مکہ کے خیالات کا جمود اور اپنے اعتقادات پر خطرناک حد تک تعصب تھا کہ وہ ان سے مختلف بات سننے کے روادار تک نہ تھے۔ اور دوسری یہ بات کہ مسلسل جہالت اور جاہلیت نے ان کے دل و دماغ کے سانچے ایسے بنا دیئے تھے کہ ان کی کجیوں کو درست کرنا اور ان کے پھرے ہوئے زاویوں کو راست کرنا انتہائی مشکل کام ہوگیا تھا۔ وہ سہل سے سہل بات اور سیدھی سے سیدھی بات بھی آسانی سے قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اور مزید مشکل یہ تھی کہ انھیں یہ بھی برداشت نہ تھا کہ اس معاشرے میں ان کے خیالات اور اعتقادات کیخلاف کوئی بات کہی جائے اور وہ خاموش رہیں، بلکہ وہ تو مشتعل ہو کر ہر ایسی زبان کو خاموش کردینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ ایسا ہمہ جہت قسم کا بگاڑ اور ایسی مشکل قوم کا سدھار چونکہ نہایت تکلیف دہ کام تھا اس لیے آنحضرت ﷺ کی طبیعت پر بہت گراں گزر رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کام کو آسان کرنے کے لیے آپ پر جو احسانات فرمائے ان میں سے پہلا احسان یہ ہے جسے سوالیہ انداز میں آپ سے کہا جارہا ہے کہ کیا ہم نے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ سینہ کھول دینا جسے شرح صدر سے تعبیر کیا گیا ہے اس کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ قرآن کریم نے اسے دو طرح سے استعمال کیا ہے جس سے اس کے دو مفہوم متعین ہوجاتے ہیں۔ سورة انعام آیت 125 میں ارشاد فرمایا فَمَنْ یُّرِدِاللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَّـہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْاِسْلاَمِ ” جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام جو اعتقادات پیش کرتا ہے، جن بنیادی حقائق پر اصرار کرتا ہے، تمدن و تہذیب کے جن اصولوں کو پیش کرتا ہے اور اخلاق کی جن بنیادوں کو استوار کرتا ہے اور تحلیل و تحریم کے حوالے سے جو احکام دیتا ہے اسلام لانے والے کے دل و دماغ میں ان کی سچائی اور حقانیت اتر جاتی ہے۔ اس کے دل و دماغ میں شک و شبہ کی پرچھائیں تک باقی نہیں رہتی۔ آنحضرت ﷺ کا شرح صدر کرنے کا یہ بھی ایک مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو شریعت آپ کو دی اور آپ نے دین کے جن حقائق کو پیش کیا آپ نے لوگوں کو جن اعتقادات کی دعوت دی، آپ نے معاشرت، معیشت، سیاست، حکومت، اخلاق، تہذیب اور تمدن کے جن اصولوں کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ان میں سے ایک ایک چیز کا یقین آپ کے دل و ماغ میں حق القین تک پہنچ گیا۔ ایک مومن کے لیے ان اصولوں پر علم الیقین کافی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول کو صرف ان بنیادی حقائق کی تعلیم ہی دینا نہیں ہوتی بلکہ آپ اس اطمینان کی کیفیت کو بھی ان کے دلوں میں انڈیلنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے اور خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے ایک پیغمبر کے لیے صرف علم الیقین کافی نہیں ہوتا بلکہ وہ عین الیقین سے گزر کر حق الیقین تک پہنچ جاتا ہے۔ شریعت کے مطالبات اس کے نزدیک طبیعت کے مطالبات بن جاتے ہیں اور یہی وہ شرح صدر ہے جس سے آپ کو نوازا گیا تھا۔
قرآن کریم نے دوسری جگہ اسے ایک اور مفہوم میں بھی پیش کیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے عظیم منصب پر مامور فرمایا اور انھیں حکم دیا کہ وہ فرعون کے پاس جائیں اور اس کی عظیم سلطنت اور اقتدار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صاف صاف اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کا دین پیش کریں۔ تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا رَبِّ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِبُوْنِ وَیَضَیْقُ صَدْرِیْ ” میرے رب میں ڈرتا ہوں کہ وہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے اور میرا سینہ تنگ ہورہا ہے۔ “ چناچہ اس کے تدارک کے لیے سورة طہٰ ٰمیں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ ” میرے رب میرا سینہ میرے لیے کھول دے اور میرا کام میرے لیے آسان کردے۔ “ یہاں سینے کی تنگی سے مراد یہ ہے کہ نبوت کا کارعظیم سنبھالنے اور تنِ تنہا کفر کی ایک جابر و قاہر طاقت سے ٹکر لینے کی آدمی کو ہمت نہ پڑ رہی ہو۔ اور شرح صدر سے مراد یہ ہے کہ آدمی کا حوصلہ بلند ہوجائے اور کسی بڑی سے بڑی مہم پر جانے اور کسی سخت سے تخت کام کو انجام دینے میں اسے تأمل نہ ہو۔
آنحضرت ﷺ کے سینہ کھول دینے سے یہ دوسرا معنی بھی مراد ہوسکتا ہے کہ آپ کو جن فرعونوں سے واسطہ پڑا ان میں سے ایک ایک شخص اپنی ذات کے پندار میں اس طرح غرق تھا کہ اپنے خیالات سے مختلف بات سننا اسے گوارا نہ تھا۔ طائف کے سرداروں نے آپ کی دعوت کے جواب میں جو کچھ کہا اس کا ایک ایک لفظ اس پر شاہد ہے۔ اشرافِ قریش بھی آنحضرت ﷺ کی دعوت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ آپ کو ہر طرح کی اذیت پہنچائی گئی۔ لیکن آپ کے قتل کی منصوبہ بندی میں اس لیے تاخیر ہوئی کہ وہ جانتے تھے کہ آپ کے قتل کی صورت میں قبائل میں لڑائی چھڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کا اس طرح سے شرح صدر فرمایا کہ ان تمام فرعونوں کو آپ کی نگاہوں میں کٹ پتلیاں بنادیا۔ آپ ان کی ثروت و وجاہت سے مرعوب ہونا تو دور کی بات ہے آپ ان کو خاطر میں لانے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وہ حوصلہ، وہ ہمت، وہ اولولعزمی اور وہ وسعت قلب عطا فرمائی جو اس منصب عظیم کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے درکار تھی۔ آپ تنِ تنہا ان کے مقابلے کے لیے اٹھے پھر آہستہ آہستہ ایک قافلے کی صورت بنتی گئی۔ آخر آپ نے ان تمام جتھوں کو توڑ ڈالا جو اسلام کی راہ میں مزاحم تھے۔ اور اس راستے میں مخالفت کے بڑے بڑے طوفان اٹھے، دشمنی نے نہایت ہولناک صورتیں اختیار کیں۔ لیکن آپ ہر طرح کی مخالفت سے بےنیاز ہو کر نہایت اطمینانِ قلب کے ساتھ اپنے راستے پر آگے بڑھتے گئے۔
اس کا ایک تیسرا مفہوم بھی ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ نفس کو قوت قدسیہ اور انوارِ اِلٰہیہ سے اس طرح منور کردیا جائے کہ وہ معلومات کے قافلوں کے لیے میدان بن جائے، ملکات کے ستاروں کے لیے آسمان بن جائے اور گوناگوں تجلیات کے لیے عرش بن جائے۔ جب کسی کی یہ کیفیت ہوتی ہے تو اس کو ایک حالت دوسری حالت سے مشغول نہیں کرسکتی۔ یہاں صدر کا یہی معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں اس میں علوم و معارف کے سمندر اتار دیئے اور لوازمِ نبوت اور فرائضِ رسالت برداشت کرنے کو بڑا وسیع حوصلہ دیا۔
آنحضرت ﷺ کی ساری زندگی اس آیت کی آئینہ دار ہے۔ آپ نے جس بلند حوصلگی اور اولعزمی سے فرائضِ نبوت کو ادا کیا، جس صبر اور شکر کے ساتھ اس راہ میں آنے والی مشکلات کو برداشت کیا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرح صدر کے بغیر ممکن نہ تھا۔ پھر آپ نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو اپنے علم کے نور سے منور کیا۔ اس کو بھی شرح صدر کی برکت کے بغیر اور کیا کہا جاسکتا ہے۔