نبی ﷺ کے لیے دنیا میں انعامات کی خوشخبری
تشریح : بڑی ہی خوبصورت اور جامع سورت ہے اس میں بہت سے حقائق زندگی انتہائی مختصر الفاظ میں بیان کر دئیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے تو اللہ کی نعمتوں ' برکتوں ' فضل وکرم اور مہربانیوں کا ذکر ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں پر ہر وقت کرتا رہتا ہے۔ اور ان میں کوئی تخصیص نہیں۔ سب کو برابر عطا کرتا ہے مگر یہاں خاص طور سے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے خاص طور سے ان پر مہربانیوں کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ پچھلی سورت میں بھی کیا گیا تھا۔ یہ احسان جتانے کے طور پر نہیں بلکہ تسلی دینے کے لیے ہمت بڑھانے کے لیے کہا گیا ہے تاکہ آپ ﷺ انسان ہونے کے ناطے گبھراہٹ ' پریشانی اور مشکلات سے دل برداشتہ نہ ہوجائیں۔ سب سے پہلے تو سینہ کھول دینے کا ذکر کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ دل سے تمام وسوسے ' خلجان ' شکوک و شبہات اور بےیقینی پوری طرح دور کردی گئی۔ اور نور الٰہی کی ایسی روشنی نے دل کو منور کردیا کہ وہ اللہ کے سچے اور پکے فرمانبردار بندے بن گئے اور وہ یقین و ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے ان کے اندروہ تمام خوبیاں پیدا ہوگئیں جن کا حکم اللہ نے دیا ہے ' یعنی توحید و رسالت پر یقین اور پھر عقائد و احکاماتِ الٰہی پر عمل یعنی بہترین اخلاق ' تمدن ' تہذیب ' معاشرت ' عبادات اور اللہ کی بندگی۔ یہ ایسے اعمال ہیں جو انسان کو انسانیت کی معراج تک پہنچا دیتے ہیں۔ شرح صدر کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ جیسا کہ پیغمبر بھی کرتے رہے ہیں۔ مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا مانگی۔ '' میرے رب میرا سینہ میرے لیے کھول دے اور میرا کام میرے لیے آسان کردے ''۔ (سورۃ طہٰ : 26-25)
اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارا سینہ کھول دیا ہے۔ یعنی نور ایمانی سے پوری طرح منور کردیا ہے اور اب آپ ﷺ کے اندر اللہ کی مدد کا ایسا چراغ روشن ہوگیا ہے جو کفر و شرک اور اس وقت کی پھیلی ہوئی تمام برائیوں کو دور کرنے اور لوگوں کے ساتھ نمٹنے کی جرات اور ہمت پیدا کر دیگا۔ اور آپ ﷺ کے اندر حوصلہ ' ہمت اور جرات پیدا کردی گئی ہے کہ اب آپ ﷺ منصب نبوت کی مشکل ترین ذمہ داریوں کو بڑی آسانی سے پورا کرسکیں گے ہرگز نہ گبھرائیں۔ کیونکہ ہر پریشانی کے بعد راحت ضرور ملتی ہے یہ نظام قدرت ہے اور آپ ﷺ کے لیے تو اس قدر بڑی خوشیوں اور درجات کا اہتمام کیا جا چکا ہے کہ جب آپ ﷺ کو معلوم ہوگا تو آپ پر سے ہر قسم کا بوجھ اور پریشانی دور ہوجائے گی۔ اور اپنے اردگرد کفرو شرک اور بد کاری و بےحیائی کی وجہ سے جو آپ ﷺ پریشان رہتے ہیں یہ سب پریشانی اور بو حھ یکسر دور کردیا جائے گا۔ آپ ﷺ خوش ہوجائیں ' مطمئن ہوجائیں کہ آپ ﷺ نے جس پر بھروسہ کیا ہے ' جس کو مددگار سمجھا ہے ' جس کے نام کے لیے اپنی بڑی بڑی مصیبتیں برداشت کی ہیں اور جس کا سہارا آپ ﷺ نے لیا ہے وہ بڑا کارساز ہے۔ مہربان ہے ' محسن ہے اور سب سے بڑی طاقت کا مالک ہے۔ اس کے لیے کوئی کام ہرگز مشکل نہیں۔ یہ جو دنیا اور اس کے رہنے والے ' نیکی و بدی اور کارخانہ ئِ حیات بنایا ہے تو یہ سب اس کے پروگرام کے تحت ہو رہا ہے۔ اس کے پروگرام میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ آپ ﷺ کو ان تمام مشقتوں کا اتنا بڑا انعام اس دنیا میں دینے والا ہے کہ جس کا آپ گمان بھی نہیں کرسکتے۔ اور وہ خوشخبری یوں بیان کی ''۔ اور تمہارا ذکر بلند کیا ''۔ (آیت 4)
یہ اس وقت کی بات ہے جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ ایک شخص اور پھر ایک چھوٹی سی کمزور جماعت اس قدر کامیابی سے ہمکنار ہوجائے گی کہ اس کا بول بالا پوری دنیا میں ہونے لگے گا۔
1 ۔ سب سے پہلے یہ کام تو خود کافروں سے اللہ نے کروا دیا وہ اس طرح کہ حج کے موقعہ پر (جو کہ اس وقت کفار کے طریقوں سے کیا جاتا تھا) جب دوردراز سے قبیلے جمع ہوئے تو کفار مکہ نے ان کو حضور ﷺ سے متنفر کرنے کے لیے سب کو آپ ﷺ سے دور رہنے کی ترغیب دی۔ اور یوں آپ ﷺ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ لوگوں میں شوق پیدا ہوگیا آپ ﷺ کو دیکھنے کا۔ اسی کڑی کا دوسرا مرحلہ آپ ﷺ کی ہجرت مدینہ سے ہوا۔ کہ اس چھوٹی سی اسلامی ریاست نے اپنے بہترین خدوخال سے دور دور اپنے بہترین اثرات مرتب کرنے شروع کر دئیے اور یوں 10 سال کے اندر یہ ہوا کہ پورے عرب میں اسلام کا بول بالا ہوگیا اور وہاں بھی کلمہ کی صدا بلند ہونے لگی جہاں سے آپ ﷺ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ ہے نا ! اللہ کی مہربانی اور مدد کی برکات۔ اس کے بعد تو پھر ہمارے سامنے ہے کہ دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں جہاں اذان میں اللہ کے نام کے ساتھ اور کلمہ میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ ﷺ کا نام نہ لیا جاتا ہو۔ آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجا جاتا ہے اور آپ ﷺ کی تعلیمات قرآن و سنت کی شکل میں ہر جگہ موجود ہیں۔ اور یہ تعلیمات اس قدر بہترین اور قابل ستائش اور عملی زندگی میں آسان ہیں کہ دنیا کا کوئی مذہب اس کی برابری نہیں کرسکتا۔ القرآن۔ '' بیشک یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بہت ہی سیدھی ہے '' (بنی اسرائیل : 9) مطلب یہ ہے کہ قرآن کا پڑھنا باعث ثواب ' سمجھنا باعث ہدایت اور اس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔
اب ہم قرآن کی اس خوشخبری کی طرف رجوع کرتے ہیں جو اس سورة مبارکہ کی آیت 4 میں دی گئی ہے۔ '' اور تمہارا ذکر بلند کیا ''۔ کلمہ طیبہ ' کلمہ شہادت اور اذان میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ ﷺ کا نام اللہ نے رکھ دیا اور یہ ثبوت ہے قرآن کی سچائی اللہ کی قدرت ' عظمت اور وحدانیت کا اور پھر رسول ﷺ کے رسول خدا ہونے کا۔ اور آخر میں عبادتِ الٰہی کی تاکید کردی گئی ہے۔ کہ ہر صورت ' ہر لمحہ اور ہر حالت میں اللہ کو یاد کرنا اس کا شکر ادا کرنا اور اس سے مدد مانگتے رہنا ضروری ہے کیونکہ اسی سے روحانی بلندی ' مستقل مزاجی ' ہمت ' جرات اور بہادری کے جواہر انسان میں پیدا ہوتے اور بڑھتے رہتے ہیں۔ خلاصہ یہی ہے کہ برترو بالا تو اللہ کی ذات ہی ہے۔ انسانی پستی ' بلندی اور کامیابی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے ہر حال میں اس کے سامنے جھکنا اور اس کا شکر ادا کرنا ضروری ہے ' لازمی ہے اور فرض بھی ہے۔ کیونکہ وہی الہ العٰلمین ' اللہ الصمد ' نہ اس کو کسی نے پیدا کیا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ' بس وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا۔ اور کوئی اس کا ہم سر نہیں۔
'' لا الہ الا اللہ ''۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں '' محمد الرسول اللہ ' اور محمد رسول ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
مہ و ستارہ ہیں تجھ سے یہ کہکشاں تجھ سے
بہار تجھ سے ہر اک صبح گلستان تجھ سے
عبادات اور مذہبی عقائد کو غور سے دیکھا جائے تو یہ انسان کو ذہنی مرکزیت کی طرف لے جاتے ہیں اور یہ مرکزیت ایک خاص نکتہ پر قائم ہے اور وہ ہے اللہ باری تعالیٰ جو کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اسی حقیقت کو پانے کے لیے اعمال اور ارکان کا نظام ترتیب دیا گیا ہے جو ظاہری و باطنی طور پر انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ '' جب تم نماز پڑھو تو یہ تصور کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر تم نہیں دیکھ رہے تو خیال کرو کہ اللہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے ''۔ یہی وہ مشق ہے جو انسان کو ظاہری و باطنی غلاظتوں سے پاک کر کے روحانی سر بلندی ' طہارت اور عرفانِ الٰہی عطا کرتی ہے۔ جیسے جسم کو کپڑوں کو ہمیشہ صفائی کی ضرورت رہتی ہے اسی طرح روح کو بھی صفائی ' طہارت اور تازگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہی ضروریات کے تحت عبادات کا نظام مرتب کیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف صحت و صفائی کا ہی ذریعہ ہے بلکہ اللہ کی قربت کا احساس ہوتا ہے جو نفس کو پاک صاف کردیتا ہے۔ خوف خدا اور نور ایمان سے روح کو پاکیزہ اور بلندی کی طرف راغب کرتا ہے۔ اور یہی احساس انسان کو جسمانی اور روحانی بیماریوں سے پاک صاف کر کے صحت مند اور کامیاب انسان بناتا ہے۔
یہ عمل اس قدر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کامل آخری رسول ﷺ کو حکم دیا ہے۔ حالانکہ وہ تو خود ہی برگزید ' مرد کامل اور بندہ خدا ہونے کا نمونہ تھے کہ ان کی صحبت میں جو لوگ رہتے تھے وہ علم و عرفان ' روحانی پاکیزگی ' تفکر و تدبر اور تقویٰ کا پیکر بن جاتے تھے۔ اتنی بابرکت اور متقی شخصیت کو اللہ نے یہی حکم دیا کہ '' جب فارغ ہوا کرو تو عبادت میں محنت کیا کرو اور اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجایا کرو ''۔ (آیات 8-7)
اللہ ہمیں سب کو آخر وقت تک نور ایمان سے منور رکھے اور ایمان کی سلامتی کے لیے عبادات کی توفیق دے آمین۔
بفضل خدا سورة الم نشرح ختم ہوگئی الحمد للہ