پہلی سورة کے ساتھ ربط
یہ سورة دراصل پہلی سورة والضحی کا تتمہ ہے۔ گزشتہ سورة میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ پر کئے گئے بعض انعامات کا تذکرہ فرمایا تھا اور اس سلسلہ میں بعض احکام صادر فرمائے تھے۔ اس سورة میں بھی بعض اضافی انعامات کا ذکر ہے جو رب کریم نے نبی علیہ اسللام پر کئے یہاں بھی سورة کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے بعض احکام ہیں۔
شرح صدر
سورة کی ابتداء احسانات کے تذکرہ سے ہو رہی ہے۔ ان میں سے ایک عظیم الشان احسان شرح صدر ہے ، جو حضور ﷺ پر کیا گیا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ الم نشرح لک صدرک کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا ؟ یہاں پر استفہامیہ طریقے سے بات کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے یقینا آپ کے سینے کو کھول دیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ شرح صدر دو طریقوں پر ہے۔ ایک تو ظاہری شرح صدر ہے جس کا ذکر احادیث میں بالتفصیل آیا ہے۔ مگر اس سورة میں جس شرح صدر کا ذکر ہے۔ وہ ظاہری نہیں بلکہ باطنی شرح صدر ہے۔
ظاہری شرح صد ر کے چار واقعات
ظاہری شرح صدر یہ ہے کہ حضور ﷺ کے سینہ مبارک کو چار دفعہ چاک کیا گیا ہے۔ پہلے شرح کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ کی عمر مبارک ابھی چار سال تھی۔ آپ حلیمہ سعدیہ کے ہاں دیا ر بنی بکر میں تھے۔ قبیلے کے بچے بستی سے باہر جانوروں کو چراتے تھے یا کھیل کود میں مشغول تھے اور حضور ﷺ بھی ان کے ہمراہ تھے جب یہ واقعہ پیش آیا روایات میں آتا ہے کہ دو عجیب و غریب قسم کی شخصیتیں واں آئیں۔ انہوں نے حضور خاتم المرسلین ﷺ کو پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور آپ کا سینہ مبارک چاک کردیا یہ دیکھ کر حلیمہ سعدیہ کے بچے بھاگ کر گھر پہنچے اور اپنی والدہ کو بتایا کہ بعض لوگوں نے ہمارے بھائی کو مار دیا۔ حلیمہ اور خاندان کے دوسرے لوگ پریشانی کے عالم میں موقع پر پہنچے تو حضور ﷺ گھر کی طرف روانہ ہوچکے تھے مگر آپ کے چہرہ مبارک پر تغیر کے آثار نمایاں تھے یہ آپ کی زندگی میں شرح صدر کا پہلا واقعہ تھا۔ آپ کا سینہ مبارک چاک کر کے قلب مبارک کو نکالا گیا اور صاف کر کے دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا۔
ظاہر ہے کہ بچپن میں بچوں کے خیالات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ طبیعت کھیل کود کی طرف راغب ہوتی ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات مبارکہ سے بڑا کام لینا تھا۔ اس لئے بچپن کے اس قسم کے رجحانات کو نکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب مبارک کو صاف کیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے سینہ مبارک کو جس مقام سے چاک کیا گیا ، وہاں پر زخم مندمل ہونے کا نشان نظر آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بہ نشان باقی رکھا تھا۔
مسند احمد کی روایت کے مطابق شرح صدر کا دوسرا واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضور ﷺ کی عمر مبارک دس سال کی تھی۔ روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ حضور نبوت کے سلسلے میں آپ کو کن چیزوں سے واسطہ پڑا تو آپ نے فرمایا ۔ سنو ! میری عمر اس وقت دس سال کی تھی۔ میں صحرا میں تھا ۔ میں نے دیکھا کہ عجیب و غریب وضع قطع کے دو شخص آئے۔ یہ اجنبی شخص تھے۔ ان جیسا لباس اور وضع قطع پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ایک شخص نے دوسرے سے کہا ھو ھو کیا یہ وہی ہیں دوسرے نے جواب دیا ہاں ، یہ وہی ہیں ، پھر انہوں نے مجھے پکڑ کر زمین پر لٹا دیا ، اور میرا سینہ چاک کیا اس کو صاف کیا اور پھر اسی طریقے سے جوڑ دیا۔ مگر عجیب بات ہے کہ ایسا کرنے سے نہ تو خون نکلا اور نہ مجھے کوئی تکلیف محسوس ہوئی۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ دس سال کی عمر جوانی کی آمد آمد ہوتی ہے۔ اس عمر میں جس قسم کے انسان کے خیالات ہوتے ہیں ان کو صاف کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے شرح صدر کا یہ انتظام کیا۔
سینہ چاک ہونے کا تیسرا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ کو نبوت ملنے کا وقت بالکل قریب تھا۔ اس وقت آپ کی عمر شریف چالیس سال کی ہوگئی تھی۔ اور شرح صدر اس لئے کیا گیا تاکہ آپ کے اندر نبوت کے بار اٹھانے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ چوتھا شرح صدر آپ کے معراج پر روانگی کے وقت پیش آیا۔ آپ ام ہانی کے مکان پر تشریف فرما تھے۔ فرشتے آئے آپ کو اٹھایا اور مکان کی چھت پھاڑ کر آپ کو حطیم میں لے گئے۔ وہاں آپ کا سینہ مبارک چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر علم و حکمت سونے کی طشت میں رکھ کر لایا گیا اور آپ کے سینہ میں بھر دیا گیا۔ پھر
سینہ مبارک کو سی دیا گیا اور وہ ویسے کا ویسا ہی ہوگیا۔ اس کے بعد آپ کو معراج پر لے جایا گیا۔ معراج میں چونکہ غیر معمولی واقعات پیش آنے والے تھے۔ اس لئے شرح صدر ضروری تھا تاکہ آپ کسی قسم کی گھبراہٹ وغیرہ محسوس نہ کریں۔
باطنی شرح صدر
ظاہری شرح نہیں ہے۔ اگرچہ یہ چار دفعہ شرح صدر کا واقع ہونا اور آپ کے سینہ مبارک سے غلط چیزوں کو نکال کر علم و حکمت بھر دینا بذات خود حضور ﷺ کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے۔ تاہم اس مقام پر الم نشرح لک صدرک سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم ! کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھولا اور اس میں علوم و معارف کے سمندر نہیں اتارے ۔ کیا ہم نے آپ کے سینے میں فرائض رسالت کو ادا کرنے اور مشکلات کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھی اور کیا ہم نے آپ کو عظیم حوصلہ عطا نہیں کیا۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ۔ “ وہ شخص جس کے سینے کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے اور وہ اپنے رب کی طرف سے عطا کردہ روشنی پر ہے ۔ کیا ایسا شخص اس شخص کی مانند ہے جس کے دل میں کفر و شرک کی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے گویا یہاں پر شرح صدر سے مراد دل کی کشادگی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں درخواست کی تھی۔ ” رب اشرح لی صدری “ اے اللہ ! میرا سینہ کھول دے ویسرلی امری “ اور میرے معاملے کو آسان کر دے ۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے شرح صدر اللہ تعالیٰ سے مانگ کرلی تھی۔ ان کا مقابلہ بڑے بڑے ظالموں اور جباروں کے ساتھ تھا اس لئے انہوں نے دل کی کشادگئی کی دعا کی ۔ تاکہ مقابلے میں کہیں تنگ دلی واقع نہ ہوجائے۔ مگر حضور ﷺ کا سینہ مبارک اللہ تعالیٰ نے خود بخود ہی کشادہ فرما دیا۔ اور آپ کو جتلا دیا کہ ہم نے آپ کا سینہ کھول دیا ہے کیونکہ آپ سے بہت بڑا کام لینا ہے۔
اور دنیا میں اقناب برپا کرنا ہے۔ لہٰذا اس کام کی نوعیت کے اعتبار سے آپ کو بڑے عالی حوصلے کی ضرورت ہے۔
دوسری بڑی بات یہ ہے کہ جتنا بڑا کام کسی نے انجام دینا ہو ، اسی کے مطابق اس کا عزم و حوصلہ بھی بلند ہونا چاہئے۔ اگر کام کے مطابق سینہ کشادہ نہیں ہوگا تو کامیابی نہیں ہو سکتی۔ شرح صدر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی قانون ، شریعت ، یا دین یا اصول دیا ہے اس کے مطبا قکسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو ، بلکہ اس قانون کی صحت پر قطعی طور پر یقین ہو۔ چونکہ قرآن پاک کے پروگرام کو حضور ﷺ کی معرفت دنیا میں نافذ کرنا تھا لہٰذا اللہ نے آپ کے سینہ مبارک کو کھول دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ فرعون سے تھا۔ لہٰذا انہوں نے شرح صدر کے لئے اللہ سے دعا کی۔ اسی طرح حضور ﷺ کا مقابلہ اس زمانے کے فرعونوں اور کافر و مشرک طاقتوں سے تھا۔ آپ کو اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر دشمن سے جنگ کرنا تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے کام کی نوعیت کے اعتبار سے بلند حوصلہ اور دل کی کشادگی عطا فرمائی۔
بوجھ سے مراد اور اس بوجھ میں تخفیف
پہلا احسان شرح صدر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ پر دوسرا احسان یہ فرمایا ووضعنا عنک وزرک اور کیا ہم نے آپ سے بوجھ نہیں اتارا الذی انقض ظھرک جس نے آپ کیپشت کو ٹیڑھا کردیا تھا۔ یہ کون سا بوجھ تھا جو اللہ نے آپ سے ہلکا کردیا۔ یہ بوجھ دین کے نفاذ کا بوجھ تھا۔ یہ کون سا بوجھ تھا جو اللہ نے آپ سے ہلکا کردیا۔ یہ بوجھ دین کے نفاذ کا بوجھ تھا۔ جو آپ کو دے کر مبعوث کیا گیا۔ تاکہ آپ اس دین کو قائم کریں اور اس بوجھ کو ہلکا اس طریقے سے کیا کہ آپ کے ساتھ ایک جماعت پیدا کردی ، جو قرآن پاک کے پروگرام کو ھپیلانے کے لئے کمر بستہ ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ اتنے بڑے پروگرام پر عملدرآمد کرنا کسی اکیلے شخص کا کام نہیں بلکہ اس کے لئے جماعت ناگزیر تھی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آپ کی امداد کے لئے صحابہ کی جماعت کو پیدا کیا۔ کیونکہ جماعت کے بغیر نہ کوئی قانون نافذ ہو سکتا ہے۔ نہ کسی پروگرام پر عمل درآمد ہو سکتا ہے۔ اور نہ عدل قائم کیا جاسکتا ہے لہٰذا جماعت کے ذریعے کام کو تقسیم کر کے اللہ نے حضور ﷺ کا بوجھ ہلکا کردیا۔
جماعت بندی کا حکم
امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ چند آدمی جمع ہوجائیں ، تو جماعت تشکیل پا جاتی ہے حدیث میں جماعت کی بڑی اہمیت ائٓی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ما من ثلثۃ
یعنی اگر تین آدمی بھی کسی بادیہ ، بستی یا دہایت میں موجود ہوں اور وہ نماز با جماعت ادا نہ کریں تو ان پر شیطان غالب آجاتا ہے۔ مقصد یہ کہ جس مقام پر صرف تین آدمی بھی ہوں تو ان پر جماعت بندی لازم ہوجاتی ہے۔
بعض فرماتے ہیں کہ کسی کام کی اشاعت کے لئے دس آدمیوں کی جماعت کافی ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ جماعت چالیس 40 آدمیوں سے قائم ہوتی ہے گویا چالیس آدمی ایک جگہ موجود ہوں تو ان پر جمعہ فرض ہوجاتا ہے۔ اسی طرح چالیس آدمیوں سے نظام حکومت قائم ہو سکتا ہے۔ اگر نظام کو سمجھنے والے اور صحیح معنوں میں پروگرام کو چلانے والے ہیں تو حکومت قائم کرسکتے ہیں۔ سارا نظام چل سکتا ہے۔ حضور ﷺ نے تھوڑے سے آدمیوں کے ساتھ تبلیغ کا کام شروع کردیا تھا۔ پیر کے روز آپ کو نبوت عطا ہوئی اور دوسرے روز یعنی منگل کے دن آپ نے نماز با جماعت ادا کی۔ آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر حضرت علی ام المومنین حضرت خدیجہ اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور متنبی حضرت زید تھے۔ تبلیغ کا کام شروع ہوگیا ۔ جماعت بندی ہونے لگی۔ اگرچہ مکی زندگی میں آپ کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم جماعت تشکیل پا گئی۔ اور پھر مدنی زندگی میں نظام حکومت بھی قائم ہوگیا۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ احسان فرمایا کہ جس قسم کے مخلص ، سمجھدار اور تبلیغ دین کا بوجھ اٹھانے والے لوگ آپ کو درکار تھے۔ اللہ نے پیدا کردیئے۔ حضور ﷺ کو بڑی فکر تھی کہ دنیا میں قرآن پاک کا نظام کس طرح قائم ہوگا۔ یہ آپ پر بہت بڑا بوجھ تھا۔ اللہ تاعلیٰ نے صحابہ کرام کی جماعت کے ذریعے اس بوجھ کو ہلاک کردیا۔
حضور ﷺ پیر کے دن اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس دن آپ نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ ادا نہیں فرمائی۔ کیونکہ آپ کو بڑی تکلیف تھی۔ اس دن لوگ حضرت ابوبکر صدیق کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضور ﷺ نے اپنے کمرے سے پردہ ہٹا کر لوگوں کو باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو بڑے خوش ہوئے اور آپ مسکرائے آپ کا شوق دیکھ کر لوگ سمجھے کہ شاید آپ تشریف لا رہے ہیں اور انہوں نے پیچھے ہٹنا چاہا مگر آپ نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ قائم رہو اور نماز پڑھتے رہو۔ چناچہ آپ پر دہ ڈال کر کمرے میں واپس تشریف لے گئے۔ اس مقام پر مفسرین کرم فرماتے ہیں کہ جماعت کو دیکھ کر آپ کا اظہار مستر اس وجہ سے تھا کہ آپ کو اطمینان ہوگیا تھا کہ جس کام کے لئے اللہ نے آپ کو مبعوث کیا تھا۔ وہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ ایک ایسی جماعت قائم ہوچکی تھی ، جس نے اشاعت دین کے کام کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیا تھا۔
عشرہ مبشرہ کی جماعت مکی زندگی میں ہی قائم ہوچکی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جو نظام اسلام کو چلانے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔ لہذا حضور ﷺ خوش ہوگئے کہ ان کا مقصد پورا ہوگیا اور اب مشن کی ناکامی کا کوئی امکان نہیں۔ نظام کو چلانے کے لئے باجماعت پیدا ہوچکی ہے۔ لہٰذا آپ کا بوجھ اللہ نے کم کردیا۔
وحی الٰہی کے نزول کا بوجھ بھی حضور ﷺ کی ذات پر تھا۔ سورة مزمل میں ہے۔ ” انا سنلقی علیک قولاً ثقیلاً “ یہ نزول قرآن کی ابتدائی آیات میں سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم آپ پر ایک بھاری بوجھ ڈالنے والے ہیں۔ اس لئے آپ پہلے اللہ کی عبادت اور ریاضت کریں ، تاکہ آپ کو اعلیٰ درجے کی روحانی ترقی نصب ہو اور آپ میں بوجھ برداشت کرنے کی قوت پیدا ہوجائے۔ مطلب یہ کہ ذمہ داری کے اس بوجھ نے آپ کی پشت کو ٹیڑھا کردیا تھا۔ جسے اللہ نے صحابہ کی جماعت کے ذریعے ہلکا کردیا۔
حضور ﷺ کے ذکر کی بلندی
تیسرا احسان اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ” ورفعنا لک ذکرک یعنی ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کردیا۔ مخالفین تو مکی زندگی میں ہی آپ کو پریشان کرنا چاہتے تھے۔ مگر اللہ نے آپ کا ذکر اس طرح بلند کیا کہ ہر محفل میں آپ کا ذکر خیر ہوتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے نبی (علیہ السلام) جس مقام پر میرا نام لیا جائے گا۔ اس کے ساتھ آپ کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔ اذان میں دیکھ لیں جہاں اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ ساتھ حضور ﷺ کا نا م بھی بھی ضرور لیا جائے گا۔ اذان میں دیکھ لیں جہاں اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ ساتھ حضور ﷺ کا نام بھی آتا ہے نماز جیسے اعلیٰ فریضہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ نبی (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔ خطبے میں جہاں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ حضور ﷺ پر بھی درود پاک بھیجا جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی مقام ایسا نہیں ہے۔ جہاں آپ کا ذکر خیر نہ ہوتا ہو۔ اور آپ کی فضیلت نہ بیان کی جاتی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر کو اس قدر بلند کردیا کہ تمام کائنات میں آپ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ لوگ اس نام کو مٹانا چاہتے ہیں۔ مگر اللہ جل جلالہ اس نام کو بلند فرمانا چاہتے ہیں۔ یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ جہاں اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ وہاں ﷺ پر درود بھی پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر کو پھیلا دیا ہے مکہ کے مشرکین جس قدر مخالفتک رتے تھے ، اسی قدر دین کی ترویج ہوتی تھی۔ باہر سے جو وفد بھی حضور ﷺ کے پاس آتا ، آپ کا ذکر ہمراہ لے کرجاتا۔ ایک سال تقریباً ڈیڑھ سو وفود آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے سب کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی۔ اور آپ کا مشن لے کر لوٹے جو کوئی اسلام سے محروم رہتا تھا وہ کمزور ہو کرجاتا تھا۔ اس میں مقابلے کی تاب باقی نہ رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رعب اس قدر بڑھا دیا تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ ڈرتے تھے۔ الغرض ورفعنا لک ذکرک ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا۔
مشکل کے ساتھ آسانی
تین انعامات یا احسانات یعنی شرح صدر ، بوجھ میں تخفیف اور ذکر کی بلندی کا تذکرہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ آپ مشکلات سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ ہمارا اصول ہے۔ فان مع العسر یسراً بےشکل مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ تاکیداً اس جملے کا تکرار فرمایا ان مع العسر یسراً بےشکل مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ مشکلات آئیں گی مگر آپ یقین جانیں کہ آگے آسانی کی منزل آنے والی ہے۔ جو کوئی دنیا میں مشکلات کو خندہ پیشانی سے قبول کرے گا۔ اس اصول کے مطابق آخرت میں اس کے لئے آسانیاں ہوں گی۔ ہر شخص کو جان لینا چاہئے کہ تکلیف آسانی کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔
محنت اور ریاضت
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا فاذا فرعت جب آپ ، تبلیغ اور دیگر فرائض سے فا رغ ہوجائیں فانصب تو آپ محنت بھی اٹھائیں محنت سے مراد اللہ تعالیٰ کی خاص عبادت اور ریاضت ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر خاص احسانات فرمائے ہیں۔ لہٰذا جب آپ کو دیگر امور سے فرصت ملے تو اللہ کی خصوصی طور پر عبادت کریں۔
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جس نے اجتماعی کام کرنا ہے۔ تبلیغ کا فریضہ انجام دینا ہے اس کے لئے ضرویر ہے کہ وہ کچھ وقت کے لئے تنہائی میں ذکر الٰہی کرے ورنہ وظائف کریں تاکہ روحانی طور پر توقیت حاصل ہو اور وہ فرائض کی ادائیگی زیادہ بہتر طریقے پر کرسکے۔ حضور ﷺ کے صحابہ کرام اسی طریقے پر عمل کرتے تھے۔ یہی وجہ کہ انہیں اعلیٰ درجے کی روحانیت حاصل وہئی۔ اللہ کے ساتھ ان کا تعلق درست ہوگیا۔ یہ چیز انہیں ” وتبتل الیہ تبتیلاً “ پر عمل کرنے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ انہوں نے تنہائی میں تعلق باللہ قائم کیا اور کامیابی حاصل کی۔
حضور ﷺ کے مکاتیب
بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ فاذا فرعت فانصب کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ چھوٹی جنگ سے فارغ ہوجائیں تو بڑی جنگ کی طرف توجہ دیں چناچہ جب آپ نے معاہدہ حدیبیہ کی صورت میں قریش مکہ سے معاملہ طے کرلیا تو آپ دور کے بادشاہوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کو خطوط لکھے جن میں اسلام کی دعوت دی آپ نے سب کو لکھا ادعوک بدعایۃ الاسلام اسلم تسلیم ۔ یعنی میں آپ کو اسلام کی دعوت دے رہا ہوں۔ اسلام قبول کرلو۔ سلامتی پا جائو گے۔ اگر اکڑ دکھائو گے تو رعایا کا گناہ بھی تم پر پڑے گا کیونکہ تم ان کے پیشرو ہو۔ اس زمانے میں جتنے بھی جبار زمین پر تھے سب کی طرف آپ نے خطوط لکھے (والی کل جبار الآیہ) ان تمام خطوط کو جمع کیا گیا ہے اور ان میں سے بعض کی نقول بھی ہیں۔ ہندوستان کے جلیل القادر عالم حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی نے ” مکاتیب سید المرسلین “ کے نام سے دو جلدوں میں کتاب لکھی ہے۔ ان میں یہ تمام خطوط درج ہیں ۔ اس کی شرح بھی ساتھ لکھی ہے
یہ بعض مفسرین نے فرمایا ہے ۔ تاہم اس آیت کا عام مفہوم یہی ہے کہ جب آپ فرائض سے فارغ ہوجائیں تو خصوصی عبادت یعنی تنہائی میں ذکر الٰہی کی طرف توجہ دیں۔ ایسا کرنے سے روحانیت کی بلند منزل حاصل ہوگی۔ تاکہ آپ جماعت کے کام کو آگے چلا سکیں۔ فرمایا والی ربک فارغب خصوصی عبادت کے ذریعے اپنے رب کی طرف راغب ہوجائیں۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعامات کے بعد محنت اٹھانے کا حکم بھی دیا۔ حضور ﷺ کی اتباع میں امت کے لوگوں کو بھی یہی حکم ہے کہ دیگر فرائض کے علاوہ ذکر اذکار بھی کرنا چاہئے تاکہ روحانیت صحیح طور پر قائم رہے۔