بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 1
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ
اَلَمْ نَشْرَحْ : کیا نہیں کھول دیا لَكَ : آپ کے لئے صَدْرَكَ : آپ کا سینہ
(اے نبیؐ) کیا ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لیے کھول نہیں دیا؟
[اَلَمْ نَشْرَحْ : کیا ہم نے کھول نہیں دیا ][ لَكَ صَدْرَكَ : آپ ﷺ کے لیے آپ ﷺ کے سینے کو ] نوٹ 1: شرح صدر (سینہ کھولنے) کا لفظ قرآن میں جن مواقع پر آیا ہے ان پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر قسم کے ذہنی خلجان اور تردد سے پاک ہوکر اس بات پر مطمئن ہوجانا کہ اسلام کا راستہ ہی برحق ہے۔ دوسرا یہ کہ نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے کی اس میں ہمت پیدا ہوجائے۔ مثلاً سورة انعام۔ آیت۔ 125 ۔ میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ یہاں یہ لفظ پہلے معنی میں ہے۔ جبکہ سورة طٰہٰ ۔ آیات 25 ۔ 26 ۔ میں ہے کہ نبوت ملنے کے موقعہ پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا مانگی تھی کہ اے میرے رب میرا سینہ میرے لیے کھول دے اور میرا کام میرے لیے آسان کر دے۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہے غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس سورة کی پہلی آیت میں رسول اللہ ﷺ کا سینہ کھول دینے سے یہ دونوں معنی مراد ہیں۔ (تفہیم القرآن) نوٹ 2: وِزْرَ سے مراد غم کا بوجھ ہے جو بعثت سے پہلے آپ ﷺ کے دل پر اس سبب سے تھا کہ آپ ﷺ حقیقت کی تلاش میں سرگرداں تھے لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ پھر جب اللہ نے آپ ﷺ پر ہدایت کی راہ کھول دی تو اس غم پر مزید اضافہ اس سبب سے ہوا کہ آپ ﷺ کی پوری قوم دشمن بن کر کھڑی ہوگئی۔ اور توقع کے خلاف جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ جتنی دعوت کی راہ میں آپ ﷺ کی سرگرمی بڑھتی جا رہی تھی اتنی ہی لوگوں کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، تو قدرتی طور پر آپ ﷺ کو یہ گمان گزرا کہ شاید آپ ﷺ کی جدوجہد میں کہیں کوئی کمی ہے۔ علاوہ ازیں اس طرح کے حالات میں اگر وحی کے آنے میں کچھ وقفہ ہوجاتا تو یہ وقفہ بھی آپ ﷺ کی پریشانی میں اضافہ کردیتا۔ حضور ﷺ کی ان پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے جس طرح پچھلی سورة میں تسلی دی گئی ہے اسی طرح یہاں بھی دی گئی ہے۔ (تدبر قرآن) نوٹ 3: رسول اللہ ﷺ کا ذکر بلند کرنے کی بات اس زمانے میں فرمائی گئی تھی جب کوئی یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ جس کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہیں اور وہ بھی صرف شہر مکہ تک محدود ہیں اس کا ذکر دنیا بھر میں کیسے بلند ہوگا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان ہی حالات میں یہ خوشخبری سنائی اور پھر عجیب طریقہ سے اسے پورا کیا۔ سب سے پہلے اس نے آپ ﷺ کے رفع ذکر کا کام خود آپ ﷺ کے دشمنوں سے لیا۔ حج کے موقع پر جب تمام عرب سے لوگ ان کے شہر میں آتے تھے، اس زمانے میں کفار مکہ کے وفود حاجیوں کے ڈیرے پر جاتے اور لوگوں کو خبردار کرتے کہ یہاں ایک شخص ہے جو لوگوں پر جادو کرتا ہے تو باپ بیٹے، بھائی بھائی اور شوہر بیوی میں جدائی پڑجاتی ہے۔ اس لیے اس سے بچ کے رہنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کے گوشے گوشے میں آپ ﷺ کا نام پہنچ گیا۔ اس کے بعد ہجرت سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا جس میں منافقین، یہود اور تمام عرب کے مشرکین آپ ﷺ کو بدنام کرنے میں سرگرم تھے۔ دشمنوں نے جنگ سے حضور ﷺ کے اثر کو مٹانے کی کوشش کی مگر آپ ﷺ کی قیادت میں اہل ایمان کی جو جماعت تیار ہوئی تھی اس نے نظم وضبط، شجاعت اور اخلاقی حدود کی پابندی سے اپنی برتری ثابت کر کے سارے عرب سے اپنا لوہا منوا لیا۔ اور دس سال کے اندر اندر حضور ﷺ کا رفع ذکر اس طرح ہوا کہ عرب کا گوشہ گوشہ کلمۂ شہادت کی صدا سے گونج اٹھا۔ پھر تیسرے مرحلے کا آغاز خلافتِ راشدہ کے دور سے ہوا جب آپ ﷺ کا نام مبارک تمام روئے زمین میں بلند ہونا شروع ہوا۔ یہ سلسلہ آج تک بڑھتا ہی جا رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک بڑھتا چلا جائے گا۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی کوئی بستی موجود ہو اور دن میں پانچ مرتبہ اذان میں آپ ﷺ کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو، نمازوں میں آپ ﷺ پر درود نہ بھیجا جا رہا ہو، جمعہ کے خطبوں میں آپ ﷺ کا ذکر خیر نہ ہو۔ سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی دن، اور دن کے 24 گھنٹوں میں سے کوئی وقت ایسا نہیں ہے جب روئے زمین میں کسی نہ کسی جگہ آپ ﷺ کا ذکر نہ ہو رہا ہو۔ نبوت کے ابتدائی دور میں جس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ رَفَعْنَا لَکَ ذِکرَکَ اس وقت کوئی بھی یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ رفع ذکر اس شان سے اور اتنے بڑے پیمانے پر ہوگا۔ یہ قرآن کی صداقت کا ایک اور کھلا ہوا ثبوت ہے۔ (تفہیم القرآن) ۔
Top