بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - Ash-Sharh : 1
وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا١ۙ وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَخْرَجَكُمْ : تمہیں نکالا مِّنْ : سے بُطُوْنِ : پیٹ (جمع) اُمَّهٰتِكُمْ : تمہاری مائیں لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہ جانتے تھے شَيْئًا : کچھ بھی وَّجَعَلَ : اور اس نے بنایا لَكُمُ : تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر ادا کرو
(اے محمدﷺ) کیا ہم نے تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟ (بےشک کھول دیا)
الم نشرح لک صدرک . بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ جملہ اور اس کے بعد والے جملے آیت : الم یجدک یتیمًا فاوٰی . ووجدک ضالا فھدٰی ووجدک عائلاً فاغنٰی سے وابستہ ہیں ‘ اگر یہ روایت صحیح مانی جائے تو پھر یہ بات کھلی ہوئی ہے کہ مذکورہ سابق حالت میں ہی رسول اللہ ﷺ کی درخواست کے بعد اس سورت کا بھی نزول ہوا۔ خواہ سوال واقعی آپ نے کیا ہو یا سوال فرض کیا جائے۔ بہرحال آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے تمہارا سینہ کھول دیا ‘ جس کے اندر بنور الٰہی ایسے علوم صادقہ اور معارف دینیہ سما گئے جو کسی دانشمند کو دانش کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتے تھے اور دل کے اندر اللہ کی طرف کامل توجہ بھی پیدا کردی گئی (تاکہ مرتبہ عروج کی تکمیل ہوجائے) اور حضور کامل کے ساتھ مخلوق کی طرف بھی اس کا دعوتی اور تبلیغی رخ کردیا گیا تاکہ مرتبہ نزول بھی حاصل ہوجائے۔ پس حالت نزول میں بھی تمہارا نقطاع اللہ سے نہیں ہے کہ تم کو اسکا رنج ہو۔ اس عالم شہور میں رسول اللہ ﷺ کا دو مرتبہ شرح صدر ہوا۔ ایک بار تو بچپن میں ہوا تھا جیسا کہ حضرت انس کی روایت سے مسلم نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ‘ اچانک جبرئیل آگئے اور آپ ﷺ کو پکڑ کر زمین پر گرا کر سینہ چیر کر دل نکالا اور دل کے اندر سے خون کا لوتھڑا نکال ڈالا اور کہا : دل کے اندر یہ شیطان کا حصہ تھا ‘ جس کو میں نے نکال ڈالا۔ پھر ایک طشت میں زمزم کے پانی سے دل کو دھویا اور دل کو جوڑ کر دوبارہ اس کی جگہ رکھ دیا اور سینہ جوڑ دیا۔ بچے دوڑتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی ماں یعنی انّا (دودھ پلانے والی) کے پاس پہنچے اور کہا محمد ﷺ کو قتل کردیا گیا ‘ لوگ لینے کو گئے تو آتے ہوئے مل گئے۔ مگر آپ ﷺ کا رنگ اترا ہوا تھا۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ سینۂ مبارک پر میں (کھال کو جوڑ کر) سینے کا نشان دیکھتا تھا۔ دوسری بار شق صدر ‘ شب معراج میں ہوا جیسا کہ صحیحین میں حضرت انس ؓ نے حضرت ابوذر ؓ کے حوالہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے معراج کا واقعہ ذکر کیا۔ اس تذکرہ میں یہ بات بھی تھی کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جبرئیل ( علیہ السلام) نے نازل ہو کر میرا سینہ چاک کیا ‘ پھر زمزم کے پانی سے اس کو دھویا ‘ پھر حکمت و ایمان سے بھرا ہوا سونے کا طشت لا کر میرے سینے میں الٹ دیا۔ پھر سینہ کو بند کردیا۔ صحیحین میں حضرت انس کی روایت بحوالہ حضرت مالک بن صعصعہ آئی ہے کہ حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے بیان کیا کہ جبرئیل نے اس کے اور اس کے درمیان یعنی ہنسلی کے گڑھے سے (پیٹ کے) بالوں تک (سینہ) چاک کیا ‘ پھر دل کو باہر نکالا ‘ پھر ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لا کر دل کو دھویا ‘ پھر اس کو (ایمان سے) بھر دیا ‘ پھر دوبارہ دل کو (اس کی جگہ) رکھ دیا۔ ایک اور روایت میں آیا ہے ‘ پھر پیٹ کو زمزم کے پانی سے دھویا پھر اس (دل) کو ایمان و حکمت سے بھر دیا۔ (الحدیث) میں کہتا ہوں جس لوتھڑے کو رسول اللہ ﷺ کے دل سے نکال دیا گیا تھا ‘ وہ عنصری اور نفسانی اور قلبی رذائل تھے جو نفس کو امارہ بالسوء ہونے اور اعضاء جسم کو گناہوں پر ابھارتے ہیں۔
Top