بشارت بانشراح صدر ورفع گرانی قلب وازالہ شدائد ہمت شکن :
قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” الم نشرح لک صدرک ....... الی ......... والی ربک فارغب “۔
(ربط) گزشتہ سورت میں آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس پر رب العالمین کی طرف سے فائز کردہ انعامات خاصہ کا ذکر تھا اور اسی کے ضمن میں آپ کے معالی اخلاق اور محاسن اوصاف بھی بیان کردیئے گئے تھے، اب اس سورت میں مزید ایک انعام شرح صدر کا بیان کیا جارہا ہے، امور نبوت اور اللہ رب العالمین کے تکوینی امور پر قلب کا اطمینان وانشراح صدر کا بیان کیا جارہا ہے، امور نبوت اور اللہ رب العالمین کے تکوینی امور پر قلب کا اطمینان وانشراح بہت بڑی نعمت ہے اور اسی پر کمال یقین استقامت اور اخلاص جیسے احوال مرتب ہوتے ہیں، تو اس سورت میں اس انعام کو بیان کرتے ہوئے یہ بشارت سنائی جارہی ہے کہ مکی زندگی کے احوال اور شدائد ومصائب جو انسان کی ہمت توڑ دیتے ہیں اور واقعی وہ بوجھ افکار آلام کا ایسا ہی ہے کہ اس نے آپ کی کمر بھی شکستہ کردی تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اب وہ تمام بوجھ اور شدائد آپ سے دور کردیئے جائیں گے موجودہ دشواری اور سختی کا دور گذار لیجئے اس کے بعد آسانی اور سہولت ہی سہولت ہوگی، اس وقت اگرچہ مشرکین مکہ آپ کو ہر طرح ستانے پر تلے ہوئے ہیں اور آپ کی تحقیر وتوہین میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کررہے ہیں لیکن اللہ نے یہ فیصلہ بھی کرلیا ہے کہ آپ کا نام اور آپ کا ذکر اونچا اور بلند ہوگا اور ظاہر ہے کہ جس کا نام اونچا ہوگا اس کی شان کس قدر بلند ہوگی اور اس کا دین کس قدر مقبول وسربلند ہوگا، تو ارشاد فرمایا۔
کیا ہم نے کشادہ نہیں کردیا ہے آپ کا سینہ آپ کی خاطر ؟ بیشک ایسا ہی کردیا ہے کہ علم ومعرفت کے لئے آپ کا سینہ اس قدر کشادہ کردیا کہ تمام علوم ملکوت السموت اور وحی الہی کے سمیٹ کر آپ کے قلب میں ودیعت رکھ دیئے گئے کہ علوم ومعارف کے سمندر آپ کے قلب میں اتار دیئے اور پھر وہ حوصلہ اور ہمت عطا کردی کہ لوازم نبوت اور فرائض رسالت ادا کرنے کے لئے ہر مشقت اور تکلیف بڑی ہمت اور اولوالعزمی سے برداشت کررہے ہیں، تبلیغ دین میں مخالفین خواہ ہزاروں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ لیکن آپ ﷺ کے قلب میں وہ جمعیت اور قوت پیدا کردی ہے کہ یہ باتیں منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں قطعا حائل نہیں، اور اتار دیا ہے ہم نے آپ کا بوج جس نے آپ کی کمر توڑ رکھی تھی کہ مصائب وآلام کو آسان کردیا، وحی جس کی عظمت وہیبت سے پہاڑ بھی چورا چورا ہوجاتے ہیں، اس کا تحمل کیا، جس کے بوجھ سے اس کی پیشانی بھی پسینہ پسینہ ہوجاتی تھی اس کو یاد کیا اور امت تک پہنچایا قریش مکہ کی مخالفت جو انسانی قوی اور ہمت کو شکستہ کردینے والی تھی، مگر آپ کے رب نے اس کا بوجھ بھی آپ سے ہلکا کردیا اور یہی نہیں کہ قلب کا انشراح و اطمینان وپختگی اور استقامت ہو اور مصائب وآلام کا بوجھ دور کردیا جائے، مزید یہ انعام بھی فرمایا کہ اور بلند کردیا ہم نے آپ کا ذکر، اس طرح کہ آپ کا دین بھی مشرق ومغرب میں پھیلا، نام بھی اس قدر بلند ہوا کہ اذان کے کلمات میں اللہ کے نام کے ساتھ (آیت) ” اشھد ان محمد رسول اللہ “۔ کی صدافضاؤں میں ہر وقت گونجتی رہتی ہے، بلاشبہ یہ انعامات جو اللہ کی طرف سے آپ ﷺ پر فائز کئے گئے بہت عظیم اور بلند ترین انعامات ہیں۔
تو مکی زندگی میں پیش آنے والے وقتی مصائب اور شدائد سے گھبرانا نہ چاہئے کیونکہ یہ قانون قدرت ہے، بس ہر ایک دشواری کے ساتھ آسانی ہے، بیشک ہر دشواری کے ساتھ آسانی ہے، اس لئے سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے آپ ﷺ نے جو سختیاں برداشت کیں اور جو مصائب جھیلے ہر ایک سختی اور مشقت کے نتیجہ میں آسانی اور سہولت ہوگی، ایک نہیں بلکہ کئی کئی آسانیاں۔
حاشیہ (حضرات اصولیین اور علماء عربیہ کہتے ہیں کہ معرفہ کا اعادہ معرفہ کی شکل میں کیا جائے تو دوسری مرتبہ کے معرفہ کا مفہوم عین وہی ہوتا ہے جو پہلے معرفہ کا ہے لیکن جب نکرہ کا اعادہ نکرہ کی شکل میں کیا جائے تو اول کے علاوہ دوسرا مراد ہوتا ہے تو یہاں (آیت) ” ان مع العسر یسرا “ میں العسر معرفہ مکررلایا گیا تو ایک ہی سختی اور دشواری مفہوم ہوتی، اور اس پر ہر مرتبہ یسرا نکرہ لانا دوسہولتوں کا مفہوم ادا کرنے والا ہوا۔ یہی وہ چیز ہے جو حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے لن یغلب عسریسرین کہ ایک دشواری ہرگز دو سہولتوں پر غالب نہیں آسکتی، اس معنی پر بعض عارفین کا یہ قول مشتمل ہے لوجاء العسر فدخل ھذا الحجر لجاء ھا یسر حتی یدخل علیہ فیخرجہ “۔ کہ اگر کوئی مصیبت اور دشواری آکر اس سوراخ میں داخل ہوجائے تو فورا ہی اس کے پیچھے پیچھے اس سوراخ میں سہولت داخل ہو کر اس دشواری کو نکال پھینکے گی۔
اسی ضابطہ پر یہ چیز مقرر کردی گئی ہے کہ جو شخص بھی کسی سختی پر صبر کرے اور سچے دل سے اللہ پر بھروسہ اور اعتماد رکھے اور ہر طرف سے ٹوٹ کر بس خدا ہی کی طرف لو لگائے اور اس کے فضل و رحمت کا امیداوار بن جائے گا تو دیکھے گا کہ کس طرح قدرت خداوندی اس کی تکالیف ومشکلات کو راحتوں اور نعمتوں سے بدل ڈالتی ہے ،
ابن عباس ؓ سے جو الفاظ نقل کئے گئے وہ سعید بن منصور (رح) عبدالرزاق (رح)، عبد بن حمید (رح) حسن بصری (رح) اور بیہقی (رح) نے مرفوعا آنحضرت ﷺ سے یہی روایت کئے ہیں، مسند بزار میں بھی اسی مضمون کی ایک روایت ہے، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے کہ ایک بار حضور ﷺ نہایت ہی انبساط و خوشی کے عالم میں حجرہ سے باہر تشریف لائے اور یہ فرما رہے تھے، بیشک ایک عسر (سختی) دو یسر (آسانی) پر غالب نہیں آسکتی کسی نے یہی بات اس طرح شعر میں ادا کردی ہے۔
اذا اشتدت بک البلوی ففکر فی الم نشرح
فعسر بین یسرین اذا فکرتہ فافرح :
اور راحتیں ایک ایک شدت ومشقت کے بعد میسر ہوں گی، تو اس طرح آپ ﷺ کے قلب کو سکون و پختگی حوصلہ اور ہمت کی بلندی اور آپ کے ذکر کی عظمت ہم نے قائم کردی کہ اذان و اقامت میں، تشہد میں خطبہ میں، درود میں، ہر موعظت ونصیحت میں اللہ کے نام کی عظمت کے ساتھ آپ کے نام کی عظمت وابستہ کردی گئی۔
بہرکیف جب آپ کو یہ نعمتیں عطا کردی گئیں تو اب آپ ہمت سے اپنے کام میں لگے رہیں، اور جب آپ منصب رسالت کی ذمہ داریوں، تبلیغ احکام اور تعلیم امت سے فارغ ہوجایا کریں تو دیگر امور اور اپنی ذات خاص سے متعلقہ عبادات میں محنت کیا کیجئے، اور ان تمام مخالفتوں اور دشواریون سے بےنیاز ہو کر اور ہر طرف سے ٹوٹ کر بس اپنے رب ہی کی طرف رخ کرلیجئے، وہی کارساز ہے وہی ہر تدبیر کو کامیاب بنانے والا ہے، نصیحت وتعلیم اور تبلیغ یہ بیشک آپ کے کام ہیں مگر ان سب سے فارغ ہو کر اصل یہی ہے کہ اپنے رب کی طرف رجوع کرو، وہی ان تمام کوششوں کو کامیاب بنانے والا ہے، ان ہدایات وتعلیمات سے مخلوق کو نفع بھی اللہ ہی کی توفیق ومشیت سے ہوگا اور ہر عملی جدوجہد بھی خدا ہی کے فضل اور اس کی اعانت سے کامیاب اور قبول ہوگی، اس لئے ان تمام محنتوں کے بعد نظر اپنی سعی اپنی کسی محنت اور کسی صفت پر نہ ہونی چاہئے بلکہ ہر محنت وسعی اور اداء فرض اور ذمہ داریوں کی تکمیل کے بعد رجوع الی اللہ ہی اصل چیز ہے وہ ہونا چاہئے، اسی پر فوز و فلاح کا ثمرہ مرتب ہوتا ہے۔
فائدہ :
اس سورة مبارکہ میں تین انعامات کا ذکر فرمایا : (1) شرح صدر۔ (2) وضع وزر۔ اور (3) اور رفع ذکر۔ ان انعامات کی تعبیر میں ک ضمیرخطاب کے ساتھ ان کو ذکر فرمایا (آیت) ” لک صدرک عنک وزرک، رفعنا لک “۔ اگرچہ از روئے عربیت یہ کافی تھا کہ بغیرصلہ ک ان انعامات کو بیان کردیا جاتا لیکن ان انعامات کا آپ ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ اختصاص ظاہر کرنے کے لئے ترکیب اضافی کے ساتھ ضمیر خطاب بھی لائی گئی، ہم نے اسی وجہ سے (آیت) ” الم نشرح لک صدرک “۔ کے ترجمہ میں لفظ آپ کی خاطر “ کا اضافہ کیا۔ (واللہ اعلم بالصواب)
شان رسول اللہ ﷺ کی عظمت وبلندی :
آیت مبارکہ : ” ورفعنالک ذکرک “۔ میں حضور اکرم ﷺ کے ذکر کی بلندی بیان کی گئی کہ حق تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذکر کو بلند کیا، آپ کا نام اونچا کیا، چناچہ آپ کے نام مبارک کی عظمت وبلندی کا یہ مقام ہے کہ اذان میں اللہ کے نام کے ساتھ پانچ وقت آپ کا نام مبارک بھی پکارا جاتا ہے، خطبہ میں حضرت پر ثناء و درود ہوتی ہے، کلمہ جو ایمان کی جڑ ہے اس کے اندر بھی آپ کا ذکر ہے، ہر حال میں باستثنا مواضع چند جہاں حق سبحانہ کا ذکر ہے وہیں آنحضرت ﷺ کا بھی ہے، عالم غیب میں آپ ﷺ سلطان ہیں کوئی جگہ اور کوئی محل نہیں جہاں آپ کا ذکر خیر نہ ہو، قبر میں بھی اور حشر میں بھی ملائکہ بھی پوچھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا مطیع تھا یا نافرمان، ان پر ایمان بھی لایا تھا یا نہیں، جنت کے دروازے اور عرش کے کنگروں پر بھی اسم گرامی مکتوب ہے، موافق یا مخالف کی کوئی ایسی تاریخ نہیں جس میں حضرت کا ذکر نہ ہو، منکر بھی محامد ہی کرنے مجبور ہوجاتا ہے، اب معمورہ دنیا پر ایسی کوئی جگہ نہیں کہ جہاں آپ ذکر نہ ہو پھر اس سے بڑھ کر اور کیا رفعت ہوگی، حضرت علامہ حقانی (رح) اپنی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں۔
اس رفعت ذکر کو ایک محل رفیع الشان سے تشبیہ دی جاوے کہ جس میں بارہ کمرے ہوں تو نہایت ہی مناسب ہے ہر ایک میں آپ ہی حاکم اعلی ہوں، جس کی توضیح یہ ہے کہ ایک کمرہ میں ایک بادشاہ عظیم الشان ممالک کے دست بستہ حاضر ہیں اور تدابیر مملکت اور قوانین جہانداری آپ سے دریافت کررہے ہیں اور جو کچھ آپ فرماتے ہیں اس کو سر اور آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ کہیں ہارون الرشید دست بستہ کھڑے ہیں کسی گوشہ میں مامون ہیں کسی میں سلاطین سلجوقیہ ہیں، پھر ان سے پیچھے کہیں خلفائے مصر ہیں۔ پھر ان سے پیچھے کہیں سلطان بایزید یلدرم ہیں اور کہیں سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ ہیں، اور کہیں تیمور صاحب قران ہیں۔ اور کہیں علاؤ الدین خلجی اور سلطان محمود، الغرض ہر ملک اور ہر زمانہ کے نامور باقبال بادشاہ جن کے تذکروں سے کتب تواریخ مزین ہیں اور جن کے کارنامے زبان زد خلائق ہیں ایک شاہنشاہ کے سامنے مسلح حاضر ہیں اور حکم کے منتظر ہیں اور ان جملہ بادشاہوں کا بادشاہ کون ہے وہی ذات بابرکات محمد مصطفے ﷺ ۔
پھر دوسرے کمرہ میں ایک حکیم استاد زمانہ بیٹھا ہوا ہے اور اس کے سامنے دنیا بھر کے حکماء اور فیلسوف دست بستہ حاضر کھڑے ہیں اور علوم سیاست منزل، تہذیب اخلاق وورستی آداب حاصل کررہے ہیں کہیں ابوعلی سینا کھڑا ہے کہیں ابوریحان بیرونی کھڑا ہے کہیں ابونصر فارابی، اور کہیں شہر ستانی اور کہیں نصیر طوسی وغیرہ غیرہ حکماء دہر علوم کا استفادہ کررہے ہیں اور وہ استاد کل ﷺ ہر ایک کو اس کی استعداد وفہم کے موافق تعلیم دے رہے ہیں۔
تیسرے کمرہ میں قانون محمدی کی بہت سی کتابیں دھری ہی ہیں ہدایہ وغیرہ، اور ایک قاضی القضاۃ (علیہ الصلوۃ والسلام) بڑی تمکنت اور وقار سے بیٹھے ہوئے ہیں، اور ان کے سامنے بڑے بڑے معاملہ فہم اور موجد قوانین سیاسیہ ونوامیسیہ حاضر ہیں کہیں امام ابوحنفیہ (رح) ہیں تو کہیں قاضی ابو یوسف (رح) اور امام محمد اور امام مالک (رح) و امام شافعی (رح) حاضر ہیں، پھر ان کے پیچھے امام الحرمین (رح) وابن دقیق العید (رح) وتاج الدین سبکی (رح) وغیرہ حاضر ہیں اور آپ کے فیصلہ جات اور ارشادات کو اپنا دستوالعمل بنا رہے ہیں۔
چوتھے کمرہ میں ایک مفتی متبحر مسند افتاء پر بیٹھے ہوئے ہیں اور علوم وفنون کے دریا جو اس کے سینہ میں جوش زن تھا رواں ہیں کہیں تو نئے واقعات کے احکام کتاب وسنت سے قواعد اصول کے مطابق نکال کر توضیح کی جارہی ہے کہیں محدثین فخر روز گار فنون احادیث سے بحث کرکے مستفید ہورہے ہیں اور کہیں مفسرین زمان قرآن مجید کے جلو میں جو جو اسرار ودیعت رکھے ہوئے ہیں ان سے استفسار کرکے قلم بند کررہے ہیں۔ اور کہیں واقعات قرآنیہ کی تحقیق کررہے ہیں، اور کہیں اہل دل ان آیات سے جن میں روحانی جذبات مذکور ہیں استفادہ کرکے حظ وافرا اٹھا رہے ہیں، کہیں فرائض نویسوں کی ایک جماعت مسائل فرائض ومیراث دریافت کررہی ہے اور کہیں قراء بیٹھے ہوئے تصحیح قراءت کررہے ہیں، اور الفاظ قرآنیہ کو انہیں کے لب و لہجہ سے ادا کرنا سیکھتے ہیں اور کہیں نماز و روزہ حج وزکوۃ وغیرہا فرائض کے آداب وسنن پوچھ رہے ہیں اور کہیں معاملات بیع ورہن وغیرہ کے متعلق مسائل دریافت کررہے ہیں اور کہیں متکلمین علم عقائد کے مسائل کا استفادہ
کررہے ہیں، مخلوق کی ابتداء اور انتہاء اور صفات باری اور اس کے افعال اور وجد ملائکہ اور اگلے پیغمبروں اور ان کی کتابوں اور ان کے شرائع سے سوال کررہے ہیں کہیں مرنے کے بعد سے لیکرجو کچھ اخیرتک روح پر واقعات گزرتے ہیں، ان کا حال دریافت کر رہے ہیں، اور کہیں دنیا بھر کے مذاہب کا حال دریافت کررہے ہیں کہ ان میں کون کون سرے سے غلط اور خیالات جاہلانہ پر مبنی تھے، اور کون سے من اللہ ہیں۔ جو انبیاء (علیہم السلام) کی معرفت دنیا میں ظاہر ہوئے تھے مگر بعد میں ان میں تحریف وتبدیل ہو کر انکی صورت بگڑ گئی اور کہیں ایک جماعت اسرار احکام دریافت کررہے ہیں اور کہیں علم زہد ورقاق کے دقائق حل کررہے ہیں یہ مفتی متبحر وہی سرور کائنات ہیں، علیہ افضل التحتہ والصلوۃ۔
پانچویں کمرہ میں ایک محتسب باوقار مسند حکومت پر بیٹھا ہوا ہے اور احکام الہی سے نافرمانی کرنے والوں کو سزائیں دلوارہا ہے کہیں زانی سنگسار ہورہا ہے اور کہیں چور کے ہاتھ کاٹے جارہے ہیں اور مسکرات کے استعمال کرنے والوں پر درے پڑے رہے، کہیں ظلم وتعدی کرنے والوں کو سزائیں ہو رہیں ہیں، اور کہیں لہو ولعب ناچ باجے والوں پر کوڑے پڑ رہے ہیں، شہوات اور فسق وفجور کے رسوم مٹائے جارہے ہیں۔ اور کہیں لہو ولعب ناچ باجے والوں پر کوڑے پڑے رہے ہیں، شہوات اور فسق وفجور ہے رسوم مٹائے جارہے ہیں، دغابازوں، مکاروں، فریبیوں پر سرزنش ہورہی ہے۔ مرتشی حکام سے باز پرس ہورہی ہے یہ صاحب وقار محتسب بھی وہی عالی جناب ہیں ﷺ
چھٹے کمرہ میں ایک ملکی تدابیر اور پولٹیکل خیالات کا حل کرنے والا نہایت عزو وقار سے مسند پر بیٹھا ہوا ہے، بڑے بڑے مدبران ملک دست بستہ زمانہ کے موافق تدابیر پوچھ رہے ہیں پھر کہیں سلطنت کے اصول بیان فرما رہے ہیں۔ (آیت) ” امرھم شوری ‘۔ کا اشارہ کرکے کاروربار سلطنت کے لئے مدبران قوم کو کمیٹی یا مجلس قائم ہونے کا حکم دے رہے ہیں اور تمام شاہی اختیارات قومی مشورہ کے سپرد فرما رہے ہیں اور کہیں سلطنت کے استحکام کے لئے قومی لشکر جرار کی تیاری کا حکم دے رہے ہیں۔
(آیت) ” واعدوا لھم مااستطعتم “۔ اور ہر زمانہ کے موافق اسلحہ و سامان حرب میں سب سے اول رکھنے کی تاکید فرما رہے ہیں اور ملازمان سلطنت کو افسروں کی اطاعت کا حکم مؤکد صادر فرما رہے ہیں۔ من اطاع امیری فقد اطاعنی پھر قرب و جوار کی سلطنتوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے اس کے قوانین ودستورات کی تعلیم دے رہے ہیں کہیں ملک میں امن وامان قائم کرنے کی تاکید شدید کررہے ہیں کہیں عہد ناموں کی پابندی پر مجبور فرما کر قوم کے عزت ووقار کو قائم کرنے کی تاکید شدید کررہے ہیں کہیں عہد ناموں کی پابندی پر مجبور فرما کر قوم کے عزت ووقار کو قائم رکھنے کی تدبیر کررہے ہیں کہیں قوم کو ماتحتوں پر رحمت و شفقت کی ترغیب دلا رہے ہیں اور کہیں سرکشوں، خیرہ چشموں سے سختی اور جوانمردی کرنے کی تاکید فرما رہے ہیں کس لئے کہ قیام سلطنت کے یہی اصول ہیں کہیں قوم کو نیک چلنی اور پرہیزگاری کی تعلیم وعیش ونشاط میں پڑنے کی ممانعت کررہے ہیں اور باہمی اتحاد و محبت کے اصول جماعت کی نماز جمعہ وعیدین اور حج اور بیمار کی پرسش اور سلام کا جواب دینا حاجات میں کام آنا، معاملات میں درگزر کرنا وغیرہ تعلیم کررہے ہیں۔ اور کہیں فتوحات کے حوصلے دلا رہے ہیں اور احدی بن کر گھر میں بیٹھ رہنے کی برائیاں بیان فرما رہے ہیں یہ کون ہیں ؟ وہی عالی جناب رسالت مآب ﷺ ہیں۔
ساتویں کمرہ میں ایک عابد وزاہد دنیا ومافیہا پر لات مارے کس استغناء سے بیٹھا ہوا ہے اور صبح سے شام تک اور رات دن میں اپنی عرم گرانمایہ کی ایک گھڑی تو کیا پل بھی بیکار نہیں کھوتا، کبھی تلاوت قرآن مع اللہ برالتام ہے اور کبھی نوافل میں مشغول ہیں کبھی تسبیح وتہلیل میں مصروف ہیں اور ادوادعیہ صبح وشام رات اور دن میں سے کسی کو بھی ترک نہیں کرتے، ایک خشک ٹکڑے اور پانی کے گھونٹ اور موٹے پرانے کپڑوں پر اقتصار ہے، اور کسی غار یا ٹوٹے پھوٹے مکان کے گوشہ میں رہتے ہیں ان کے چہرے پر انوار چمک رہے ہیں، لوگوں کو ان سے دلی انس ہے، ملائکہ علوی وسفلی بھی ان کے پاس آتے ہیں اور بندگان خدا بھی جوق درجوق آکر مستفید ہوتے ہیں پھر کسی کو نوافل اور تہجد میں اور ادواشغال کی تعلیم ہے کسی کو دن کے وظائف کی تلقین ہے نہ کسی امیر کی پروانہ کسی دولت مند کے آنے کی تمنا یہ حضرت بھی وہی سرور کائنات ہیں۔ صلوۃ اللہ علیہ وسلامہ۔
آٹھویں کمرہ میں ایک عارف وکامل تشریف رکھتے ہیں جو کہ ذات وصفات کے اسرار اور عالم ناسوت وملکوت کے حقائق اس کے دل فیض منزل پر منکشف ہیں حقائق ومعارف مواجید واشواق کا اس کی زبان فیض ترجمان سے دریا جاری ہے فضوص الحکم وفتوحات مکیہ وغیرہ کتابیں اسی ذات مقدس کے بیانات سے لکھی جارہی ہیں وہ بھی آپ ہی ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
نویں کمرے میں ایک واعظ منبر پر بیٹھا ہو الوگوں کی روح اور دلوں کو اپنے کلام کی تاثیر سے ہلارہا ہے اور ایسا سکہ جمارہا ہے کہ پھر وہ دور ہی نہیں ہوتا کسی کو ثواب عظیم واجر جزیل کی ترغیب سے راہ پر لا رہا ہے اور کسی کو عذاب قبر اور عذاب جہنم کی لپٹیں دکھا کر توبہ کر ارہا ہے، اور کسی کو دار آخرت کے درجات اور حیات جاودانی کے برکات دکھا کر نیک کاموں پر آمادہ کررہا ہے، ہزاروں کافر وبت پرست کفر وبت پرستی سے توبہ کرکے ایمان لارہے ہیں، بدکار اپنی بدکاری پر نادم ہو کر رو رہے، سنگدلوں کا دل موم ہو کر پگھلا جارہا ہے مجلس میں آہ وبکا کی آواز دلوں کو ہلارہی ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ اثر میں وہ قیام ہے کہ پھر دور ہی نہیں ہوتا جو ایک بار بھی اس مجلس میں آگیا اس پر بھی ایسا رنگ جما کہ عمر بھر نہ اترا خونخوار خونی ایسے رحم دل ہوگئے کہ چڑیا کے بچے پر بھی اپنے بچوں سے زیادہ شفقت کرتے تھے، شہوت پرست پرہیزگار بن گئے سست وغافل ہوشیار بن گئے، کنجوس اور کٹر سخی ہوگئے، دنیا کی کایا پلٹ گئی، یہ حضرت واعظ بھی آنحضرت ﷺ ہیں۔
دسویں کمرہ میں ایک بڑے مرشد کامل صاحب طریقہ وصاحب دل بیٹھے ہوئے ہیں جس کی نگاہ خاک کو کیمیا کررہی ہے طالبان خدا کو اس کے اردگرد ہجوم ہے وہ ایک کے اس کی استعداد کے موافق حجاب دور کررہے ہیں اور وصول الی اللہ کے رستے بتا رہے ہیں اور ان کے مقامات واحوال اور مراتب ومناصب ظاہر کررہے ہیں اور مریدین کے باطن میں رنگا رنگ توجہات وتاثیرات پیدا کررہے ہیں کسی کو وجد آرہا ہے کوئی حیرت زدہ ہورہا ہے کوئی لطائف پر نظر کررہا ہے کسی پر فناء کا غلبہ ہے تو کسی پر بقا کا، کوئی معیت کے دریا میں دوبا ہوا ہے تو کوئی تفرید کے جنگل میں ٹکرا رہا ہے، حضرت جنید بغدادی (رح) وشبلی (رح) وسید عبدالقادر جیلانی (رح) وشیخ احمد بدوی (رح) ومعین الدین چشتی (رح) ونظام الدین محبوب الہی (رح) وشیخ شہاب الدین سہروردی (رح) وخواجہ بہاؤ الدین نقشبند (رح) وغیرہ اولیاء کرام ہیں، یہ مرشد کامل بھی آنحضرت ﷺ ہیں۔
گیارہوں کمرہ میں ایک نورپیکر بیٹھا ہوا ہے جس کے رخساروں پر آفتاب وماہتاب قربان ہورہے ہیں اور آسمان کے ستارے نثار وہ جمال الہی کا پورا آئینہ ہے ازلی محبوبیت اس میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے، اس میں ایک ایسی کشش ہے جو تمام بنی آدم کے دل بیخود اس کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں، مخلوق پروانہ کی طرح بےاختیار اس شمع پر قربان ہورہی ہے وہ بھی آپ ﷺ ہی ہیں۔
بارہویں کمرے میں ایک رسول صاحب کتاب نہایت عزوشان کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واسحاق (علیہ السلام) ویعقوب (علیہ السلام) وداؤد (علیہ السلام) وسلیمان (علیہ السلام) وموسی (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے ارد گرد تشریف رکھتے ہیں اور یہ خاتم النبین انکی شریعتوں میں اصلاح کررہے ہیں کہیں ضرورت زمانہ کے لحاظ سے کچھ احکام بڑھا رہے ہیں کہیں گھٹا رہے ہیں کہیں مٹے ہوئے نشانوں کو از سر نو قائم فرما رہے ہیں اور سب تسلیم کررہے ہیں اور اپنا استاد مان رہے ہیں، یہ بھی وہی ہیں ﷺ ۔
یہ ہے وہ شرح صدر اور یہ ہے وہ رفع ذکر جس کی پوری شرح ایک کتاب میں بھی ناممکن ہے حسان بن ثابت انصاری ؓ اس شان رفعت کی ترجمانی اس طرح فرمایا کرتے تھے۔
اغر علیہ للنبوۃ خاتم من اللہ مشھور یلوح ویشھد۔
وضم الالہ اسم النبی مع سمہ اذ قال فی الخمس المؤذن اشھد
وشق لہ من اسمہ لیجلہ فذوا لعرش محمود وھذا محمد :
تم بحمد اللہ تفسیر سورة الانشراح :