الم نشرح لک صدرک۔
شرح صدر سے مراد اس کا کھولنا ہے یعنی کیا ہم نے آپ کے سینہ کو اسلام کے لیے کھول نہیں دیا، ابوصالح نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ کیا ہم نے آپ کے لیے آپ کے دل کو نرم نہیں کردیا، ضحاک نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ کیا سینہ کو کھولا جاتا ہے ؟ فرمایا، ہاں اسے کھولا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ کیا اس کی کوئی نشانی ہے ؟ فرمایا، ہاں دنیا (دھوکے کے گھر) سے پہلوتہی اور آخرت (دار خلود) کی طرف رجوع اور موت کے آنے سے پہلے موت کی تیاری، یہ معنی سورة الزمر میں آیت افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ (زمر 22) میں گزرچکا ہے۔
حضرت حسن بصری سے مروی ہے کہ، الم نشرح لک صدرک کا معنی ہے حکمتوں اور علم سے اسے بھردیا گیا۔ صحیح میں حضرت انس بن مالک سے وہ اپنی قوم کے ایک فرد حضرت مالک بن صعصعہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا، اس اثناء میں کہ میں نیند اور بیدار کی حالت میں بیت اللہ شریف کے پاس تھا کہ میں نے ایک کہنے والے کو سنا میں تین میں سے ایک تھا میرے پاس سونے کا ایک ٹب لایا گیا جس میں زمزم کا پانی تھامیراسینہ فلاں سے فلاں جگہ تک کھولا گیا قتادہ نے کہا میں نے کہا اس سے کیا مراد ہے ؟ کہا میرے بطن کے نیچے سے کہا میرادل نکالا گیا میرے دل کو زمزم کے پانی سے دھودیا گیا پھر اسے اس جگہ رکھ دیا گیا پھر اسے ایمان اور حکمت کے ساتھ بھر دیا گیا۔ حدیث میں قصہ موجود ہے۔
نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ میرے پاس دو فرشتے ایک پرندے کی صورت میں آئے جن کے ساتھ پانی اور برف تھی ان میں سے ایک نے میرے سینے کو چیرا اور دوسرے نے اپنی چونچ کے ساتھ اسے کھولا اور اسے دھودیا ایک اور حدیث میں ہے، جاءنی ملک فشق عن قلبی فاستخرج منہ غدرۃ وقال، قلبک وکیع وعیناک بصیرتان واذنان سمعتان انت محمد رسول اللہ لسانک صادق ونفسک مطمئنۃ وخلقک قثم وانت قیم۔ میرے پاس ایک فرشتہ آیا اس نے میرے دل کو چیرا اس سے دل نکالا اور کہا، تیرا دل مضبوط اور تیری آنکھیں روشن ہیں تیرے کان سننے والے ہیں تو محمدرسول اللہ ہے تیری زبان سچ بولنے والی ہے۔ تیرانفس مطمئن ہے تیرے اخلاق جامع ہیں اور توامور کا نگران ہے اہل لغت نے کہا، وکیع کا معنی ہے جو چیز اسمیں رکھی جائے اس کی حفاظت کرنے والایہ لفظ بولا جاتا ہے : سقاء وکیع یعنی ایسا مشکیزہ جو مضبوط ہو جو کچھ اسمیں رکھاجائے اس کی حفاظت کرنے والا ہو، اسی طرح یہ جملہ بولا جاتا ہے، واستوکعت معدتہ، اس کا معدہ مضبوط ہے قثم کا معنی ہے جامع، یہ جملہ بولا جاتا ہے، رجل قثوم للخیر، ایسا آدمی جو بھلائی کا جامع ہو۔
الم نشرح کا معنی ہے یقینا ہم نے اسے کھول دیا ہے اس پر دلیل اس کا معطوف ووضعنا عنک وزرک۔ یہ تاویل پر عطف ہے تنزیل پر نہیں کیونکہ اگر یہ تنزیل پر عطف ہوتا تو کلام یوں ہوتی، ونضع عنک وزرک یعنی عطف معنی کے اعتبار سے ہے لفظ وصیغہ کے اعتبار سے نہیں یہ چیز اس معنی پر دال ہے الم نشرح کا معنی قدشرحنا ہے حرف لم نافیہ ہے اور استفہام میں بھی نفی کا تصور موجود ہوتا ہے جب دونوں اکٹھے ہوگئے تو تحقیق کی طرف لوٹ گئے جس طرح اللہ کا فرمان ہے، الیس اللہ باحکم الحاکمین۔ اس کا معنی ہے اللہ احکم الحاکمین ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، الیس اللہ بکاف عبدہ (الزمر 36) کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کافی نہیں، اس کی مثل جریر کا شعر ہے جس میں وہ عبدالملک بن مروان کی مدح کرتا ہے، الستم خیر من رکب المطایا۔ یقینا تم سواریوں میں سے سوار ہونے والوں میں سے بہتر ہو۔