بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیر رہے ہیں
قال اللہ تعالیٰ اقرب للناس حسابھم .... الیٰ .... وجعلنا ہم حصیدا خمدین۔ (ربط) گزشتہ سورت کے آخر میں ذکر خداوندی سے اعراض کرنے والوں اور آخرت سے غفلت برتنے والوں کی مذمت کا بیان تھا۔ ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا ونحشرہ یوم القیمۃ اعمی۔ اور اس کے بعد کی آیت ولا تمدن عینیک الی ماھتعنا بہ ازواجا منھم نھرۃ الحیوۃ الدنیا، لنفتنھم فیہ۔ میں دنیا کے سامان زیبائش و آرائش پر نظر کرنے کی ممانعت تھی کیونکہ دنیا کی رونق پر نظر کرنا فتنہ عظیم ہے اور آخرت سے غفلت کا سبب ہے اس لیے ان آیات میں قرب ساعت (یعنی قرب قیامت) کی خبر دیتے ہیں کہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور آخرت کی فکر کریں۔ اور اس کے لیے کچھ تیاری کریں اور انبیاء کی ہدایت پر عمل کریں۔ نیز ان آیات میں منکرین نبوت کو تہدید اور ملامت کرتے ہیں اور ان کے اعتراضات کے جوابات دیتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں۔ لوگوں کے لیے حسان کا وقت بہت قریب آلگا ہے یعنی قیامت بہت قریب آگئی ہے کیونکہ بنی الساعۃ یعنی نبی آخر الزمان ﷺ مبعوث ہوگئے ہیں جن کا ظہور قیامت کی سب سے پہلی نشانی ہے ضدیث میں ہے بعثت انا والساعۃ کھاتین۔ یعنی میں اور قیامت اسی طرح ساتھ بھیجے گئے ہیں جیسے یہ وہ انگلیاں اور آپ ﷺ نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو ملایا۔ مطلب یہ تھا کہ میرے اور قیامت کے درمیان اتنا ہی فاصلہ رہے گا جتنا کہ ان دو انگلیوں میں ہے اور وہ ابھی تک غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اس کی کچھ تیاری نہیں کرتے۔ بلکہ اس سے منہ موڑے ہوئے ہیں اور اپنے اس اعراض پر قائم ہیں۔ ابو العتاھیہ کا شعر ہے۔ الناس فی غفلاتھم ورحا المنیۃ تطحن۔ (یعنی لوگ اپنی غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں اور حالانکہ موت کی چکی چلی رہی ہے اور لوگوں کو پیس رہی ہے) یہ آیت منکرین حشر کے بارے میں ہے مگر اب عام طور پر مسلمان بھی فکر آخرت سے غافل ہیں خاص کر اس جدید تعلیم اور مغربی تمدن نے تو آخرت کے ذکر اور فکر کو ایک مجنونا نہ خیال قرار دے دیا ہے اور یہ غفلت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی جدید اور نئی نصیحت نہیں آتی جو ان کو خواب غفلت سے بیدار کرے مگر وہ اس کو ایسی لاپرواہی کے ساتھ سنتے ہیں گویا کہ کھیل میں لگے ہوئے ہیں۔ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کی نصیحت کے لیے ایک آیت کے بعد دوسری آیت آرہی ہے مگر وہ اس سے نصیحت نہیں پکڑتے۔ بہرحال ان کے دل اللہ کی یاد سے اور آخرت کی فکر سے بالکل غافل ہیں۔ و لیکن نبوت و رسالت کے مٹانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور یہ ظالم لوگ آنحضرت ﷺ کے بارے میں آہستہ آہستہ اور چپکے چپکے ایسی سرگوشیوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی کو خبر نہ ہو ایک دوسرے کے کان میں یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص یعنی محمد رسول اللہ ﷺ سوائے اس کے کہ تم ہی جیسا ایک معمولی آدمی ہے جو تمہاری طرح کھاتا اور پیتا اور چلتا اور پھرتا رہتا ہے۔ بھلا آدمی اور بشر بھی کہیں نبی اور رسول ہوسکتا ہے۔ ایک مثل کا دوسرے مثل کی طرف رسول بنا کر بھیجنا ترجیح بلا مرجح ہے، پس جب وہ تم جیسا بشر ہے تو تم کس لیے اس کے پاس جاتے ہو۔ اگر خدا کو نبی بھیجنا ہوتا تو فرشتہ کو نبی بنا کر بھیجتا اور یہ شخص تم کو جو کرشمے دکھاتا ہے وہ سب جادو ہے پس کیا تم جادو کے پاس آتے ہو حالانکہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ یہ جادو ہے اور یہ شخص تم جیسا آدمی ہے کوئی فرشتہ نہیں۔ اول اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کی ان کے جواب میں یہ کہا کہ میرا پروردگار آسمان اور زمین کی ہر بات کو خوب جانتا ہے۔ خواہ کیسے ہی چھپا کر کی جائے وہ تو ہر چیز کا سننے والا اور ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اس سے تمہاری کوئی سرگوشی اور کوئی پوشیدہ بات مخفی نہیں وہ تمہارے مشوروں سے مجھے مطلع کردیتا ہے اور ان ظالموں نے آن کو فقط جادوگر کہنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا یہ قرآن پراگندہ اور پریشان خوابوں کا مجموعہ ہے یعنی قرآن شریف اللہ کا کلام نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ نے خواب میں جو خلط ملط باتیں دیکھی ہیں یہ ان کا مجموعہ ہے پھر اس پر بھی قائم نہ رہے بلکہ کہنے لگے کہ یہ قرآن تو محمد نے اپنی طرف سے جھوٹ بنا لیا ہے جس کی واقع میں کوئی حقیقت نہیں یہ سب اس کے دل کی بنائی ہوئی باتیں ہیں جن کو اس نے اپنے جی سے بنا لیا ہے۔ پھر خیال آیا کہ محمد ﷺ نے تو کبھی ساری عمر میں جھوٹ نہیں بولا تو کہنے لگے کہ یہ شخص جھوٹا تو نہیں بلکہ شاعر معلوم ہوتا ہے۔ یہ سب مضامین اس عمر میں جھوٹ نہیں بولا تو کہنے لگے کہ یہ شخص جھوٹا تو نہیں بلکہ شاعر معلوم ہوتا ہے یہ سب مضامین اس کے شاعرانہ خیالات ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ غرض یہ کہ لوگ حضور پر نور ﷺ کے بارے میں حیرت زدہ تھے۔ کبھی آپ ﷺ کو ساحر کہتے اور کبھی شاعر کہتے اور کبھی مفتری بتلاتے اور کبھی قرآن کو خواب و خیال بتلاتے کما قال تعالیٰ انظر کیف ضربوا لک الامثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلا۔ غرض یہ کہ کفار کی یہ رنگ برنگ کی باتیں یا تو اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ سب حیرت زدہ ہیں اور حقیقت سے بیخبر ہیں یا اس بات کی دلیل ہیں کہ حق تعالیٰ کو پہچان چکے ہیں مگر سینہ زوری سے اس کو دفعہ کرنا چاہتے ہیں اس لیے ادھر ادھر کی واہی تباہی کرکے حق کو رلانا اور چھپانا چاہتے ہیں پھر اخیر میں یوں کہنے لگے کہ اچھا اگر ایسا نہیں جیسا کہ ہم کہتے ہیں بلکہ اللہ کے پاس سے رسول ہو کر آیا ہے تو اس شخص کو چاہئے کہ ہمارے پاس اپنی نبوت اور رسالت کی کوئی ایسی نشانی لے آئے جیسی نشانیوں کے ساتھ پہلے بھیجے گئے تھے، جیسے حضرت صالح (علیہ السلام) اونٹنی لائے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) عصا اور یدبیضا لائے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کرتے تھے لہٰذا اگر آپ ﷺ بھی اس قسم کے معجزات ظاہر کردیں گے تو ہم آپ ﷺ کو رسول مان لیں گے اور آپ صلی للہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں گے مشرکین عرب کا یہ سوال تعنت اور عنا دپر مبنی تھا اور ان کی یہ درخواست اس لیے نہیں تھی کہ حسب فرمائش ان کو نشانی دکھلادی جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے کیونکہ اللہ پاک حضور پر نور ﷺ کو اس قدر نشانات دے چکا تھا کہ وہ ان کی ہدایت کے لیے کافی اور وانی تھے۔ انکار کے لیے نئے نئے بہانے نکالتے رہتے تھے یہ ضروری نہیں کہ سارے پیغمبروں کے نشانات ایک ہی قسم کے ہوں۔ اب آگے اللہ تعالیٰ ان کی ان باتوں کا جواب دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ان کفار قریش سے پہلے کوئی بستی والے اس قسم کے فرمائشی معجزات کو دیکھ کر ایمان نہیں لائے اور اس پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے ہم نے ان کو ہلاک کیا کہ منہ مانگے معجزات کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے تو کیا مکہ کے یہ ہٹ دھرم ان معجزات کو دیکھ کر ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان کا شبہ تو پھر بھی باقی رہے گا کہ بشر کا رسول ہونا محال ہے اگرچہ وہ کیسی نشانی نہ دکھا دے یعنی یہ لوگ ضدی اور عنادی ہیں، ان کو خواہ کتنی ہی نشانیاں دکھلا دی جائیں یہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے پس ان کو نشانیاں دکھلانا بےفائدہ ہے اب آگے ان کے اس خیال کو باطل فرماتے ہیں کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا۔ چناچہ فرماتے ہیں اور ہم نے آپ ﷺ سے پہلے کسی کو پیغمبر بنا کر نہیں بھیجا مگر جنس بشر سے مرودوں کو نبی بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی نازل کرتے تھے، کبھی بھی فرشتہ کو رسول بنا کر اور نہ کسی عورت کو نبی بنا کر بھیجا، نبی ہمیشہ مرد ہوئے۔ پس اگر تم نہیں جانتے اور تم کو اس بارے میں شک ہے تو سابق علماء توریت و انجیل سے دریافت کرلو۔ جن میں ہمیشہ نبی ہوتے رہے وہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ نے کبھی کسی فرشتہ کو نبی بنا کر نہیں بھیجا جب بھیجا تو بشر ہی کو بھیجا معلوم ہوا کہ شریت نبوت کے منافی نہیں بلکہ اللہ کی نعمت ہے کہ تمہاری جنس میں سے رسول بھیجے تاکہ ہم جنس ہونے کی وجہ سے افادہ اور استفادہ میں سہولت ہو۔ ع بوئے جنسیت کند جذب صفات مطلب یہ ہے کہ اے اہل مکہ مسلمانوں کی بات پر تو تم کو بھروسہ نہیں تو تم کو چاہئے کہ علماء اہل کتاب کی طرف رجوع کرو وہ نہ تو اس سے جاہل ہیں اور نہ اس کے منکر ہیں وہ رسولوں کے احوال سے واقف ہیں وہ تم کو حقیقت حال کی خبر دیں گے اور مشرکین اگرچہ توریت اور انجیل کو نہیں مانتے تھے لیکن انبیاء کا جنس بشر سے ہونا۔ جب نقل متواتر سے اور علماء کی متفقہ شہادت سے ان کے سامنے واضح ہوجائے گا تو عقلا ان کے قبول کرنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ مشرکین مکہ علماء توریت و انجیل کے علم و فضل کے معتقد تھے اور ان کی بات پر اعتماد کرتے تھے۔ آئندہ آیات میں پھر اسی شبہ کا دوسرے عنوان سے جواب دیتے ہیں کہ بشریت نبوت کے منافی نہیں، چناچہ فرماتے ہیں اور ہم نے رسولوں کا ایسا جسم نہیں بنایا کہ وہ نہ کھاتے ہوں یعنی وہ فرشتہ نہیں تھے۔ جو کھانے اور پینے سے بےنیاز ہوتے۔ یہ کفار کے اس قول کا جواب ہے کو یہ کہتے تھے۔ ما لھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق۔ یعنی اس رسول کو کیا ہوا کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے خلاصہ جواب یہ ہے کہ گزشتہ رسول آدمی تھے اور کھانا کھایا کرتے تھے اور وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے والے نہ تھے یعنی ہم نے پیغمبروں کو ایسا نہیں بنایا کہ انہیں موت ہی نہ آئے جس طرح اور لوگوں کو موت آتی ہے۔ اسی طرح انبیاء (علیہ السلام) کو بھی موت آتی ہے یہ اس بات کا جواب ہے کہ جو کفار آپ ﷺ کی موت کے منتظر تھے۔ لتربص بہ ریب المنون مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کسی بشر کے لیے بقاء اور دوام نہیں اور موت سے کسی کو مضر نہیں وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد افائن مت فیہم الخلدون۔ خلاصہ کلام : کہ خدا تعالیٰ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب بشر تھے ظاہری اور جسمانی حیثیت سے اگرچہ وہ عام انسانوں کے مشابہ تھے مگر باطنی اور روحانی طور پر وہ فرشتوں سے بھی بالا اور بلند تھے۔ سب آدمی تھے بندوں کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوئے کوئی ان پر ایمان لایا اور کسی نے انکار اور کفر کیا اور فریقین میں مقابلہ ہوا۔ ابتداء میں کافروں کو غلبہ ہوا۔ پھر چند روز بعد ہم نے پیغمبروں سے نجات اور غلبہ اور فتح کا جو وعدہ کیا تھا وہ سچ کر دکھلایا۔ پس حسب وعدہ ہم نے ان کو اور جس کو چاہا نجات دی یعنی اہل ایمان کو بچایا جنہوں نے انبیاء کی پیروی کی ہم نے ان سے وعدہ کی اتھا کہ ہم ان کو عذاب سے بچالیں گے اور ان کے دشمنوں کو ہلاک کردیں گے سو اس وعدہ کے مطابق ہم نے مومنین کو نجات دی اور کفر اور معصیت میں حد دے گزر جانے والوں یعنی کافروں اور مشرکوں کو دنیاوی عذاب سے ہلاک کیا، پس اے قریش مکہ ہوش میں آجاؤ اس قسم کا وعدہ ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب سے کیا ہوا ہے بعد ازاں اللہ تعالیی قریش کو اپنی ایک خاص نعمت پر متنبہ فرماتے ہیں اور کہتے ہیں اے قریش مکہ البتہ تحقیق ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اتاری ہے جس میں تمہارے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہے اور وہ کتاب مستطاب تم کو دین اور دنیا اور معاش اور معاد کی صلاح اور فلاح کی راہیں بتاتی ہے یا یہ معنی ہیں کہ اس میں تمہارے لیے شرف اور بزرگی ہے کہ تمہاری زبان میں اللہ نے کتاب ہدایت نازل کی مگر تم نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور بجائے شکر کے اس کا کفر اور انکار کیا تو کیا تم سمجھتے نہیں کہ اپنے ظلم اور اسراف سے تائب ہوجاؤ اور اس کتاب ہدایت کو سر اور آنکھوں سے لگاؤ۔ جو تمہارے لیے کیمیائے سعادت ہے اور سمجھ جاؤ کہ ظلم اور اسراف یعنی حد سے گزر جانا قہر خداوندی کس سبب ہے تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے کتنی بستیاں جو ظالم اور مسرف تھیں۔ اس ظلم اور اسراف کی سزا میں ان کو توڑ پھوڑ کر چورا چورا کردیا اور ایک ایک جوڑ کو دوسرے سے جدا کردیا۔ یعنی سب کو ہلاک کر ڈالا۔ اور ان کے بعد دوسری قوم کو آباد کردیا لہٰذا اگر تم بھی اپنے کفر اور ظلم اور بغض سے باز نہ آئے تو تمہاری بھی یہ گت بنے گی جو علت ان کی ہلاکت کی تھی وہ تم میں بھی موجود ہے یعنی وہی ظلم و اسراف اور خدا اب بھی ہلاک کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ پس جب ان ظالموں اور حد سے گزرنے والوں نے ہمارے عذاب کو آتے دیکھا تو یہ ظالم فورا ہی جانوروں کی طرح بےتحاشا اس بستی سے بھاگنے لگے حالانکہ یہ ظالم اور مسرف پہلے انبیاء (علیہ السلام) اور اہل ایمان پر آوازے کسا کرتے تھے جب عذاب الٰہی کو آتے دیکھا تو بھاگنے لگے تو گویا ان کے خیال میں یہ آیا کہ بھاگ کہ عذاب الٰہی سے چھوٹ جائیں گے تو اس وقت بطور استہزاء اور بطرق مذاق اور ہنسی ان سے یہ کہا گیا کہ بھاگو نہیں اور اسی عیش و عشرت کی طرف لوٹو جس میں تم مست تھے اور اپنے مکانات اور محلوں کی طرف لوٹو جن میں تم رہتے تھے اور جہاں بیٹھ کر تم اتراتے تھے اور فخر کرتے تھے اور اپنے غلاموں اور خادمیوں کو حکم دیتے تھے اور غلام حاضر ہو کر کہتے تھے کہ حضور کیا حکم دیتے ہیں اب پھر اسی جگہ واپس چلے جاؤ شاید تم سے تمہارا حال پوچھا جائے یعنی تمہاری خیریت دریافت کی جائے یا حسب سابق تم سے مہمات امور میں کوئی مشورہ پوچھا جائے۔ یہ کہنے والے فرشتے تھے اور یہ پوچھنا بطور استہزاء اور تمسخر تھا کیونکہ پوچھتے تو اس وقت ہیں کہ جب کچھ شان بنی ہوئی ہو۔ بگڑے ہوئے اور خستہ حال کو کون پوچھتا ہے غرض یہ کہ جب فرشتوں نے ان سے یہ کہا کہ مت بھاگو تو اس وقت یہ ظالم یہ کہنے لگے کہ ہائے ہماری خرابی اور کم بختی تو کہاں ہے اس وقت تو حاضر ہوجا یہ تیرے حاضر ہونے کا وقت ہے بیشک ہم لوگ ظالم اور قصور وار تھے کہ ہم نے رسول کو جھٹلایا اور ان کے قتل اور ایذاء کے درپے ہوئے، ان لوگوں نے جب عذاب دیکھا تو اپنے گناہ کا اقرار کیا اور نادم ہوئے مگر اس وقت کی ندامت بےفائدہ تھی۔ تاریخ نکل جانے کے بعد سماعت نہیں ہوسکتی۔ ان لوگوں نے یویلنا انا کنا ظلمین۔ کا نعرہ بلند کیا اور یہ خیال کیا شاید یہ نعرہ نجات کا سبب بن جائے پس مسلسل ان کی یہی پکار رہی یہاں تک کہ ہم نے ان کو جڑ سے کٹے ہوئے گھاس کی طرح بجھے ہوئے اور مرجھائے ہوئے کر چھوڑا۔ یعنی سب مرگئے اور ٹھنڈے ہوگئے کہ حس و حرکت نہ رہی اور ان کی آتش ظلم بالکل خاموش ہوگئی اور شعلہ حیات بجھ گیا۔
Top