Kashf-ur-Rahman - Al-A'raaf : 174
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ جو ایمان لائے (ایمان والے) اِذَا : جب قُمْتُمْ : تم اٹھو اِلَى الصَّلٰوةِ : نماز کے لیے فَاغْسِلُوْا : تو دھو لو وُجُوْهَكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيَكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِلَى : تک الْمَرَافِقِ : کہنیاں وَامْسَحُوْا : اور مسح کرو بِرُءُوْسِكُمْ : اپنے سروں کا وَاَرْجُلَكُمْ : اور اپنے پاؤں اِلَى : تک الْكَعْبَيْنِ : ٹخنوں وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو جُنُبًا : ناپاک فَاطَّهَّرُوْا : تو خوب پاک ہوجاؤ وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر (میں) سَفَرٍ : سفر اَوْ : اور جَآءَ : آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّنَ الْغَآئِطِ : بیت الخلا سے اَوْ لٰمَسْتُمُ : یا تم ملو (صحبت کی) النِّسَآءَ : عورتوں سے فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر نہ پاؤ مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرلو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : تو مسح کرو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ مِّنْهُ : اس سے مَا يُرِيْدُ : نہیں چاہتا اللّٰهُ : اللہ لِيَجْعَلَ : کہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : کوئی حَرَجٍ : تنگی وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّرِيْدُ : چاہتا ہے لِيُطَهِّرَكُمْ : کہ تمہیں پاک کرے وَلِيُتِمَّ : اور یہ کہ پوری کرے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
پھر جب عیسیٰ کو بنی اسرائیل کی جانب سے کفر کا یقین ہوا تو اس نے کہا کون ہے جو اللہ کے کام میں میرا مدد گار ہو حواری بولے اللہ کے مدد گار ہم ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور اے عیسیٰ (علیہ السلام) تم اس پر گواہ رہو کہ ہم فرمانبردار ہیں3
3۔ لہٰذا جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی جانب سے کفر و انکار دیکھا اور آپ کو ان کے کفر کا پورا علم ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ کون ہے جو کافروں کے مقابلہ میں دین حق کی حمایت کرنے کو اللہ کے واسطے میرا مدد گار ہو اس پر حواریوں نے عرض کیا ہم اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے رسول کے مدد گار ہیں ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ اس امر پر گواہ رہیئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول کے فرمانبردار ہیں۔ (تیسیر) حور کے معنی ہیں خالص سفید ہوسکتا ہے کہ یہ دھوبی ہوں جو کپڑے کو سفید کرتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ مچھلی کا شکار کرنے والے ہوں یا ملاح ہوں۔ بہر حال خواری کے معنی مدد گار کے ہیں جو انبیاء (علیہم السلام) کی مدد کریں ۔ کلبی کا قول ہے کہ اس سے ان کی جماعت کے بزرگ لوگ مراد ہیں جن کی تعداد بارہ تھی ۔ قتادہ نے کہا ان کے مشیر اور وزیر تھے اور ایسے لوگ تھے جو خلافت کے اہل تھے۔ بہر حال جب کفار کا عناد اور دشمنی ظاہر ہوگئی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حواریین کے روبرو یہ فرمایا ۔ حواریین اگر بنی اسرائیل میں سے تھے تب تو ظاہر ہے کہ ایک پارٹی بنی اسرائیل میں سے ان پر ایمان لائی ہوگئی اور اگر بنی اسرائیل کے علاوہ یہ لوگ ہوں تب بھی حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئے ہوں گے کیونکہ ان کے ہاں کوئی نبی نہ ہوگا ۔ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ وہ تمام بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ بنی اسرائیل کے علاوہ جو لوگ تھے ان کی حیثیت میں ذرا تفصیل ہے اگر ان میں کوئی دوسرا نبی معبوث ہوا تھا تب تو ان کو بھی اصول میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اتباع واجب تھا اگرچہ فروع میں نہیں اور اگر ان میں کوئی دوسرا نبی معبوث نہیں تھا تو ان کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانا ضروری تھا اور اصول و فروع دونوں میں ان کی اتباع واجب تھی ۔ مزید تفصیل انشاء اللہ سورة صف میں آجائے گی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے گواہ رہنے کی درخواست اس لئے کی کہ قیامت میں ہر پیغمبر ان لوگوں کی شہادت دے گا جو اس کے ہاتھ پر مشرف با سلام ہوئے ہوں گے اور اس کے مدد گار رہے ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارہ یار کا خطاب تھا حواری ، حواری اصل کہتے ہیں دھوبی کو ان میں پہلے جو دو شخص ان کے تابع ہوئے دھوبی تھے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو کہا کہ کپڑے کیا دھویا کرتے ہو میں تم کو دل دھونے سکھا دوں وہ ان کے ساتھ ہوئے اس طرح سب کو یہی خطاب ٹھہر گیا ۔ فائدہ :۔ اس آیت کے معنی یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اصل رسول تھے واسطے نبی اسرائیل کے جب یہ معلوم کیا کہ یہ میرا دین قبول نہ کریں گے چاہا کہ اور کوئی میرے دین کو رواج دے ۔ حواریوں کے ساتھ سے غیروں کو دین پہنچا اب تک بنی اسرائیل ان کے دین میں کم ہیں۔ ( موضح القرآن) شاہ صاحب (رح) کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حواری بنی اسرائیل میں سے نہ تھے اگرچہ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ حواری بنی اسرائیل میں سے تھے اگر حواری بنی اسرائیل میں سے نہ ہوں تب بھی ہم عرض کرچکے ہیں کہ ان لوگوں میں سے کوئی نبی اگر مبعوث ہوا تھا تو اصولاً اور اگر کوئی نبی مبعوث نہ ہوا تھا تو اصولاً و فروعا ً ان لوگوں کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اتباع و اجب تھی۔ ( واللہ اعلم) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اطمینان دلانے کے بعد حواریوں نے حضرت حق کی جانب میں دعا کی چناچہ فرماتے ہیں۔ ( تسہیل)
Top