Mualim-ul-Irfan - Az-Zumar : 46
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ
وَلِمَنْ خَافَ : اور واسطے اس کے جو ڈرے مَقَامَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
اور اس شخص کے لیے جو ڈرا کھڑا ہونے سے اپنے پروردگار کے سامنے ، دو باغ ہوں گے
ربطہ آیات پہلے اللہ کے مطلق مادی ، حسی اور روحانی انعامات کا ذکر ہوا۔ پھر اس کے بعد نافرمانوں کے انجام کا تذکرہ ہوا۔ برائی کی چیزوں سے خبردار کرنا بھی نعمت خداوندی ہے تاکہ لوگ اللہ کے عذاب سے بچ جائیں۔ اب اگلی آیات میں اللہ کے اطاعت گزار بندوں کا ذکر آرہا ہے۔ ان کے آگے پھر دو گروہ بن جاتے ہیں جن کی سزائے عمل بھی اللہ نے الگ الگ بیان کی ہے۔ متقین کے لیے انعامات ارشاد ہوتا ہے ولمن خاف مقام ربہ اور جو شخص ڈر گیا اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے۔ جس کو وقوع قیامت اور جزائے عمل پر یقین آگیا ، اور اسے علم ہوگیا کہ اس نے ایک دن اللہ رب العزت کی عدات میں کھڑے ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ، وہ لازماً ایمان اور نیکی کو اختیار کریگا۔ اور بد عقیدگی اور بد اعمالی سے بچ جائے گا۔ سورة النزعٰت میں ہے۔ واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی (آیت۔ 40) جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا فان الجنتہ ھی الماوی ( آیت۔ 41) بلاشبہ اس کا ٹھکانا جنت ہوگا۔ البتہ اس مقام پر فرمایا کہ جو شخص اپنے پروردگار کے روبرو کھڑا ہونے سے ڈر گا۔ اس کے لیے جنتن دو جنتیں ، یا دو باغ ہوں گے۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان باغات کے اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ مفسرین دو باغوں کی مختلف توجیہات بیان فرماتے ہیں۔ اگلی سورة الواقعہ میں نیکی کرنے والوں کے دو گرہوں کا ذکر آرہا ہے۔ ایک گروہ سابقین کا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نیکی میں سبقت کرنے والے ہیں اور دوسرا گروہ اصحاب یمین کا ہے جن کو اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں ملے گا۔ یہ لوگ اگرچہ سابقین سے کم درجہ میں ہونگے۔ مگر یہ بھی کامیاب ہوں گے۔ تو یہاں پر جن دو جنتوں کا ذکر فرمایا ہے ، مفسرین فرماتے ہیں کہ ان میں سے ایک باغ سابقین کے لیے ہے اور دوسرا اصحاب یمین کے لیے ہے۔ بعض مفسرین دو باغات یا دو جنتوں کی تقسیم اس طرح کرتے ہیں کہ ایک باغ جنوں کے لیے ہوگا اور دوسرا انسانوں کے لیے کیونکہ اس سورة میں اللہ نے ان دونوں انواع سے بار باخطاب کیا ہے۔ چناچہ اس سورة مبارکہ سے مفسرین یہ بھی اخذ کرتے ہیں کہ جس طرح انسان جنت میں جائیں گے۔ اسی طرح جنات بھی جنت میں جائیں گے۔ اس کو بھی ایسی ہی جزا ملیگی جس کی تشریح اگلی آیات میں آرہی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنات کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے بہت پہلے ہوئی اور ان کی آبادی بھی انسانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ انسانوں کی طرح ان کی بھی پارٹیاں اور گروہ ہیں۔ ان میں بھی مومن اور کافر ہیں اور پھر وہ بھی مختلف مذاہب اور فرقے رکھتے ہیں تو جنوں میں سے جو کوئی ایمان لائے گا اور نیکی اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرے گا۔ وہ بھی جنت میں جائے گا اور وہاں کے انعام و اکرام کا حقدار ہوگا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ مذکورہ دو جنت ایک ہی شخص کے لیے ہیں۔ ایک جنت اسے اس کی نیکیوں کی وجہ سے ملے گا اور دوسرا ترک معاصی کی بنا پر ملے گا۔ امام بیضاوی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ انسان کو ایک جنت اس کی جسمانی راحتوں کے لیے ملے گا جب کہ دوسرے جنت میں اس کے لیے روحانی راحتوں کا سامان ہوگا۔ جسمانی راحت میں کھانا ، پینا ، بیویاں ، باغات ، پھل ، نہریں وغیرہ ہیں جب کہ روحانی راحت میں انسان کو روحانی سکون اور اطمینان حاصل ہوگا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ دو جنتوں میں ایک جنت انسان کو اس کے حسن عقیدہ کی بناء پر ملے گا اور دوسرا جنت اعمال حسنہ کی وجہ سے حاصل ہوگا۔ تاہم یہ دونوں جنت ایک ہی شخص کے لیے ہیں۔ بعض یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہر مومن کو ایک جنت اس کے نیک اعمال کے بدلے میں لے گا اور دوسرا جنت اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام کی وجہ سے حاصل ہوگا۔ کیونکہ خود اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے للذن احسنو الحسنیٰ وزیادۃ ( یونس۔ 26) جن لوگوں نے دنیا میں نیکی کے کام انجام دیے ان کا بدلہ نیکی اور کچھ زیادہ بھی۔ یہ زیادتی اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام کی وجہ سے ہوگی اور اس میں دیدارِ الٰہی کا ذکر بھی آتا ہے۔ حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ مذکورہ دو جنتوں میں سے ایک کا سازو سامان یعنی فرنیچر ، برتن ، سامان آرائش وغیرہ چاندی کا ہوگا۔ اور دوسرے کا سونے کا ہوگا ۔ گویا دو جنتوں میں اس قدر تفاوت ہوگا۔ ظاہر ہے چاندی کے سازو سامان کی اپنی کیفیت ہوگی جو سفید ہوگی اور سونے کی دوسری شان ہوگی۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل و انعام ہی ہوگا۔ اس قسم کی مثالیں دنیا میں بھی مل جاتی ہیں حیدر آباد کن کے نواب افضل الدولہ کے کسی عزیز نے ایک پہاڑی پر قلعہ نما مکان بنایا اور پھر اسے عطیے کے طور پر نواب کو دے دیا۔ کہتے ہیں کہ اس محل میں چالیس کمرے تھے اور ہر کمرے کا ماحول الگ الگ تھا۔ کسی کمرے کی دیواریں ، چھت ، فرنیچر اور تمام سازو سامان ایک رنگ کا تھا تو دوسرے کمرے کا دوسرے رنگ کا۔ ایک کمرے کے پردے ایک قسم کے کپڑے کے تھے تو دوسرے کمرے کے دوسری قسم کے کپڑے تھے۔ علی ہذا القیاس ہر کمرے کا ماحول مختلف تھا۔ اس کے رنگ و روغن سازو سامان اور روشنی کی بناء پر کوئی کمرہ صبح کا منظر پیش کر رہا تھا تو کوئی دوپہر کا کوئی دن ڈھلے کا ، اور کوئی چاندنی رات کا۔ بہر حال جب انسان اس قسم کی چیزیں پیش کرسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ تو قادر مطلق ہے ، اس کے ہاں کیا کچھ ممکن نہیں ؟ اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام بہت اعلیٰ و رافع ہوں گے جن کا تصور آج ہم نہیں کرسکتے بہرحال فرمایا کہ جو شخص اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو باغ ہوں گے۔ اور پھر یاد دلایا فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس اے جنو ! اور انسانو ! تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ آگے ان باغوں کی کچھ کیفیت بیان کی جارہی ہے ذواتا افنانٍ وہ دونوں باغ گھنی شاخوں والے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ باغ کا حسن درختوں سے ہوتا ہے اور درختوں کا حسن ان کی شاخوں ، پتوں ، پھولوں اور پھلوں سے ہوتا ہے ۔ اور پھر یہ ہے کہ گھنے باغات زیادہ خوش کن ہوتے ہیں۔ اگر درخت موجود بھی ہوں مگر پت جھڑ کا موسم ہو تو باغ بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ مگر اللہ کی جنت میں سدا بہار درخت ، پھل ، پھول اور پودے ہوں گے۔ جن کی دلکشی میں کبھی فرق نہیں آئے گا۔ فرمایا اللہ نے اس قدر انعام و فضل فرمایا ہے فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کا انکار کروگے ؟ ان باغات کی ایک اور خصوصیت یہ بیان فرمائی فیھما عینن تجریٰن ان میں دو چشمے بہتے ہوں گے وہ ایسا نفیس پانی ہوگا جو نہ کبھی باسی ہوگا اور نہ اس میں بدبو پیدا ہوگی۔ اُن چشموں کا پانی ہمیشہ میٹھا ، خوشگوار اور ترو تازو رہیگا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ دو چشمے سلسبیل اور کوثر ہیں۔ جن کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہیں۔ فرمایا فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس تم دونوں گروہ اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے ؟ اس کے علاوہ فیھما من کل فاکھۃ زوجٰن ان باغات میں ہر قسم کے جوڑا جوڑا پھل ہوں گے۔ وہاں پر انواع و اقسام کے پھل باافراط موجوڈ ہوں گے ۔ جنتی جس قسم کا پھل چاہے گا ، اسے مہیا کیا جائے گا۔ جنت میں مختلف قسم کے پھلوں کا ذکر قرآن پاک کی متعدد سورتوں میں بیان ہوا ہے۔ فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے ؟ اگلی آیت میں جنتیوں کے عیش و آرام کی حالت بیان کی گئی ہیں متکین علی فرشٍ م بطاء نھا من استبرقٍ وہ ایسے بچھونوں پر تکیہ لگا کر بیٹھنے والے ہوں گے جن کا استر موٹے ریشم کا بنا ہوا ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے بستر نہایت اعلیٰ اور نفسی قسم کے ہوں گے۔ یہ ریشم وغیرہ کی مثال تو اس دنیا میں پائی جانے والی اشیاء کی نسبت سے ہے ورنہ جنت کی ہر چیز بےمثال ہوگی اور آج ہم اس کی عمدگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ پھر فرمایا وجنا الجنتین دان اور ان باغوں کے پھل بالکل قریب ہی ہوں گے۔ جنتی بستر پر آرام کر رہا ہے اور ان کا جی چاہتا ہے کہ کوئی پھل کھائے تو اسے اٹھ کر کہیں جانا نہیں پڑے گا کہ جا کر پھل توڑ لائے یا کسی خادم کو حکم دے کہ اس کے لیے پھل مہیا کرے۔ بلکہ ان باغات کے پھل اتنے قریب ہوں گے کہ ہر جنتی آدم کو ہاتھ بھی نہیں بڑھانا پڑے گا۔ بلکہ پھل خود بخود اس کے منہ کے قریب آجائے گا۔ فرمایا فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے ؟ پاکیزہ عورتیں خوراک ، پانی ، لباس ، مکان ، صحت اور تعلیم انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ ان کی وضاحت قرآن و سنت میں کردی گئی کہ یہ چیزیں ہر شخص کو ملنی چاہئیں۔ ان چیزوں کے علاوہ انسان کو اپنے جوڑے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مرد کو عورت کی ضرورت ہوتی ہے اور عورت کو مرد کی۔ ان دونوں ضروریات کی تکمیل اور نسل انسانی کی بقا کے لیے اللہ نے نکاح کا سلسلہ قائم کیا ہے یہ سلسلہ تو دنیا تک محدود ہے آگے جنت میں پہنچ کر حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ہر شخص کو کم از کم دو بیویاں میسر ہوں گی۔ وما فی الجنۃ اعزب یعنی کوئی جنتی مجرد نہیں ہوگا۔ سارے صاحب اہل ہوں گے ۔ سورة الطور میں جہاں اہل جنت کے دیگر انعامات کا ذکر ہے وہاں فرمایا و زوجنھم بحورٍ عین ( آیت۔ 20) ہم ان کا موٹی آنکھوں والی خوبصورت عورتوں سے نکاح کردیں گے۔ اسی نعمت کو اللہ نے اس مقام پر بھی بیان کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ فیھن قصرٰت الطرف ان جنتوں میں نیچی نگاہ رکھنے والی پاکیزہ عورتیں ہوں گی۔ سورة بقرہ میں ہے ولھم فیھا ازواج مطھرۃ ( آیت۔ 25) جنت میں اہل جنت کے لیے پاک بیویاں ہوں گی۔ یہ حوریں جنت کی مخلوق میں سے ہوں گی۔ یعنی ان کی تخلیق ہی جنت میں ہوئی ہوگی۔ اللہ نے ان کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ اپنے خاوندوں اور محرموں کے علاوہ کسی پر نگاہ نہیں اٹھا سکیں گی۔ اور دوسری صفت یہ کہ لم یطمثھن انس قبلھم ولاجان اہل جنت سے پہلے نہ انہیں کسی انسان نے چھوا ہوگا اور نہ کسی جن نے۔ وہ بڑی ہی با حیا اور باعصمت عورتیں ہوں گی اور یہی دو چیزیں عورت کا زیور ہیں۔ عصمت بڑی نازک چیز ہے اگر عصمت نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔ سورة القصص میں اللہ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی کا تذکرہ کیا ہے کہ جب وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو بلانے کے لیے آئی تو تمشی علی استحیائٍ ( آیت۔ 25) حیا داری کے ساتھ چلتی ہوئی آئی حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں حیا صرف عورتوں کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ یہ مردوں کے لیے بھی ویسی ہی ضروری ہے جیسی عورتوں کے لیے۔ پہلے نبیوں کی تعلیم میں بھی تھا اور حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے اذا لم تستحی فاصنع ما شئت اگر تجھ میں حیا نہیں ہے تو جو جی چاہے کرتے رہو ، کون پوچھنے والا ہے ؟ حیا کمال درجے کی صفت ہے تو جنت کی عورتیں با حیا اور باعصمت ہونگی اور جنتیوں سے پہلے انہیں کسی انسان یا جن نے ہاتھ نہیں لگایا ہوگا۔ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ آج انہی دو چیزوں کا فقدان ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں تو بےحیائی فیشن کے طور پر ہورہی ہے جس کے اثرات مشرقی ممالک پر بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ جب انسان فطری حالت سے باہر نکل جائے تو وہ انسلاخی با بےغیرت ہوجاتا ہے اس میں جوہر کمال باقی نہیں رہتا۔ ان چیزوں کا پتہ اس وقت چلے گا۔ جب جزائے عمل کا وقت آئے گا۔ دنیا میں حکومتی سطح پر بےحیائی پھیلائی جارہی ہے۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن کا بیشتر وقت عیاشی ، فحاشی ، عریانی اور بےحیائی پر صرف ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے اخلاق خراب ہو رہے ہیں ، دین ، برباد ہورہا ہے ، نسلیں خراب ہورہی ہیں اعمال بالکل ضائع ہو رہے ہیں اور اس طرح پوری انسانی سوسائٹی تنزل کی طرف جارہی ہے۔ دیکھو جنتی عورتوں کی اللہ نے تعریف بیان کی ہے کہ ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی ، موجودہ نام نہاد ترقی پسند معاشرے کی طرح مردوزن کا کھلے عام میل جول مصافحے اور ہنسی مذاق نہیں ہوگا۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن ڈرامے نہیں ہوں گے ، فلمی نہیں بنیں گی بلکہ ہر جنتی مرد اور جنت کی ہر عورت باحیا اور باعصمت ہوگی ، وہ کسی دوسری طرف آنکھیں اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے ، بہر حال اللہ نے جنت کی عورتوں کی صفات بیان فرمائی ہیں ، اور ساتھ وہی جملہ پھر دہرایا ہے فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ کانھن الیاقوت والمرجان وہ عورتیں گویا کہ وہ یاقوت اور مرجان ہیں فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ نیکی کا بدلہ نیکی فرمایا یاد رکھو ! ھل جزاء الاحسان الا الا حسان نہیں ہے بدلہ احسان کا مگر احسان ہی۔ یعنی نیکی کا بدلہ نیکی کی صورت میں ہی ملے گا۔ اگر دنیا میں نیک نیتی کے ساتھ اچھے اعمال انجام دیے ہیں تو ان کی جزا بھی اچھی ہوگی۔ سورة الم سجدہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین جزاء م بما کانو یعملون۔ ( آیت۔ 17) کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کی کیسی ٹھنڈک چھپا رکھی ہے۔ یہ ان کے اعمال ہی کا بدلہ ہوگا۔ جو وہ دنیا میں انجام دیتے رہے۔ اللہ نے ان کی خوشی اور راحت کے لیے بیشمار تیار کر رکھی ہیں جن کا علم وہیں چل کر ہوگا ، اس دنیا میں ان کا ادراک نہیں کیا جاسکتا۔ فرمایا فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن پس تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔
Top