Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 26
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ١ؕ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَۙ
قِيْلَ : ارشاد ہوا ادْخُلِ : تو داخل ہوجا الْجَنَّةَ ۭ : جنت قَالَ : اس نے کہا يٰلَيْتَ : اے کاش قَوْمِيْ : میری قوم يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتی
حکم ہوا کہ بہشت میں داخل ہوجا بولا کاش میری قوم کو خبر ہو
26 تا 32۔ جس طرح کی تفسیر ابن جریر اور ابن ابی حاتم کے حوالہ سے روایتیں اوپر گزریں اسی طرح حبیب بن شبیب نے اپنی تفسیر میں عکرمہ کی سند سے روایت 2 ؎ کی ہے (2 ؎ صحیح بخاری ص 714 ج 2 تفسیر سورة الدخان ‘) کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے یہ حبیب نجار، ساتھ یہ حبیب بن بشر ترمذی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں اور ابن معین نے ان کو ثقہ تابعیوں میں شمار کیا ہے سیرت ابن اسحاق میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اسی بستی کے لوگوں نے اللہ کے ان تینوں رسولوں سے جھگڑا کیا اور ان رسولوں کے شہید کرنے کا قصد کیا تو حبیب نجار دوڑ کر آئے تاکہ جہاں تک ہو سکے اللہ کے رسولوں کی مدد کریں یہ حبیب نجار بڑے نیک شخص تھے جو کچھ کماتے تھے آدھا خیرات کرتے تھے اور آدھا اپنے خرچ میں لاتے تھے قتادہ نے اپنی تفسیر میں لکھا 1 ؎ ہے (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 261 ج 5) کہ یہ حبیب پہاڑ کے ایک غار میں ہمیشہ اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے اور جذام کے مرض میں مبتلا تھے سیرۃ ابن اسحاق کی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ حبیب نجار نے اپنی قوم کے لوگوں کو نصیحت کرنی شروع کی تو قوم کے لوگوں نے حبیب پر حملہ کیا اور ان کو شہید کر ڈالا حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت جو سیرۃ ابن اسحاق میں ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قوم کے لوگوں نے حبیب نجار کو پیروں سے یہاں تک کچلا کہ حبیب نجار کی انتڑیاں پیٹ کے باہر نکل آئیں امام احمد اور ترمذی نے ان محمد بن اسحاق کی روایتوں کو معتبر قرار دیا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت جو سیرۃ ابن اسحاق میں ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قوم کے لوگوں نے حبیب نجار کو پیروں سے یہاں تک کچلا کہ حبیب نجار کی انتڑیاں پیٹ کے باہر نکل آئیں امام احمد اور ترمذی نے ان محمد بن اسحاق کی روایتوں کو معتبر قرار دیا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ حبیب نجار اپنی قوم کے خیر خواہ تھے جیتے جی قوم کے لوگوں کو نصیحت کرتے رہے اور باوجود اس کے کہ قوم کے لوگوں نے ان کو اس سختی اور بےرحمی سے شہید کیا اس پر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو جنت نصیحت کی تو وہ وہاں بھی کے کہ قوم کے لوگوں نے ان کو اس سختی اور بےرحمی سے شہید کیا اس پر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو جنت نصیب کی تو وہ وہاں بھی قوم کے لوگوں کو یاد کر کے یہی آرزو کرتے رہے کہ قوم کے لوگ بھی نیک راہ پر آویں اور جنت میں ان کے شریک حال ہوں اکثر سلف کا قول ہے کہ جب حبیب نجار کی قوم نے حبیب نجار کو شہید کر ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو اس قوم کے ہلاک کرنے کا حکم دیا حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے اس بستی کے دروازہ پر آن کر ایک چنگھاڑ ماری جس سے سب بستی کے آدمی کلیجے پھٹ کر فورا مرگئے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے ہلاک کرنے کے لیے آسمان سے کسی فوج کے اتار نے کی ضرورت نہ تھی بلکہ ایک چنگھاڑ ان کے ہلاک کے لیے کافی تھی اس میں قریش کو تنبیہ فرمائی کہ قریش لوگ اللہ کے رسول کو جھٹلا کر عذاب الٰہی کی کیا جلدی کرتے ہیں عذاب الٰہی کے لیے کسی فوج اور لشکر کی ضرورت نہیں اس کا ایک ادنیٰ عذاب بڑے بڑے سرکشوں کے کافی ہے اب آگے اللہ تعالیٰ نے اللہ کے رسولوں کی نافرمانی والے لوگوں کے حال پر افسوس ظاہر فرمایا ہے کہ کیوں یہ لوگ اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کر کے دین و دنیا کے عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں اگرچہ مفسرین نے یاحسرہ علی العباد کے اور معنے بھی بیان کئے ہیں لیکن یہ معنے جو اوپر بیان کئے گئے یہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اس قول کے موافق ہیں جو علی ابن ابی طلحہ کی روایت سے ہے اور اس تفسیر میں یہ بات کئی جگہ بیان کردی گئی ہے کہ اس کی سند کی روایت بہت صحیح ہوتی ہے اسی واسطے تینوں 2 ؎ ترجموں میں اس قول کو لیا ہے ‘ اسی قول کے موافق یہ آیت متشابہت 3 ؎ میں سے ہے کیونکہ مثلا اللہ کے غصے اور خوشی کے تفصیلی 4 ؎ معنے جس طرح ہم کو معلوم نہیں وہی حال اللہ تعالیٰ کے افسوس کا ہے ‘ (2 ؎ اے وائے بہ بندگاں (فتح الرحمان) اے ارمان اوپر بندوں کے “ ( شاہ رفیع الدین) ” کیا افسوس ہے بندوں پر موضح القران (ع ‘ ح) (3 ؎ یعنی کیفیت کے اعتبار سے ورنہ لغوی معنی تو معلوم ہے (ع۔ ح ‘) (4 ؎ یعنی اللہ تعالیٰ کے عضے ‘ خوشی اور افسوس کی کیفیت اس کی وہ ہے جو اس کی ذلت کے مناسب ہے البتہ لغت عربی کے لحاظ سے معنی معلوم ہیں۔ یہی سلف کا مذہب ہے (ع۔ ح۔ ) صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت 1 ؎ ہے (1 ؎ مشکوۃ 5 باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ کے رسول کی نصیحت کی مثال مینہ کی سی ہے اور لوگوں کی مثال زمین کی سی ہے اب زمین میں دو قسمیں ہیں ایک کھیت اور باغ کی زمین ہے کہ مینہ سے فیض اٹھا کر پھلتی پھولتی ہے دوسری شور زمین ہے کہ مینہ سے اس کو کچھ فیض نہیں اسی طرح بعضے لوگ اللہ کے رسول کی نصیحت سے فیض پاتے ہیں اور بعضے محروم ہیں یہ حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے کیوں کہ جن لوگوں کی حالت پر اللہ تعالیٰ نے افسوس ظاہر کیا ہے ان لوگوں کا حال حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ وہ ہیں کہ باوجود اس کے کہ مینہ کی طرح اللہ کے رسول کی نصیحت کا فیض عام ہے لیکن وہ لوگ اس فیض عام سے سے محروم ہیں یہاں ایک یہ خیال گزرتا ہے کہ سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے پھر جس کو اس نے جیسا پیدا کیا ہے ویسا وہ ہے اللہ اور اللہ کے رسول کے افسوس کا کیا مطلب ہے اس کا جواب اوپر گزر چکا ہے کہ پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نیک وبدسب کی خصلت جان لی ہے پیدا ہونے سے پہلے جن لوگوں میں بری خصلت نظر آئی اسی خصلت پر وہ افسوس ہے اور مجبوری کا ایمان اللہ کی درگاہ میں مقبول نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اس کی خصلت پر چھوڑ دیا ہے ‘ اب آگے قریش کو تنبیہ فرمائی کہ رسولوں کی نافرمانی کے سبب سے کچھ یہ ایک ہی بستی نہیں اجڑی بلکہ ملک شام کے سفر میں ان کو اس طرح اجڑی ہوئی اور بستیاں دیکھنی چاہیں جو ایک دم میں طرح طرح کے عذابوں سے ایسے اجڑیں کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے اجڑے ہوئے گھر بار مال متاع کی خبر گیری کو پھر دنیا میں نہ آیا پھر فرمایا ایسے لوگوں کی فقط یہی سزا نہیں ہے کہ ان پر دنیا کے طرح طرح کے عذاب آئے بلکہ عذاب آخرت کے فیصلہ کے لیے ان سب کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہونا پڑے گا ترمذی مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ 2 ؎ سے ابوبرزہ ؓ اور معاذ بن جبل ؓ کی صحیح روایتیں اوپر گزر چکی ہیں (2 ؎ الترغیب والترہیب ص 395‘ 396 ج 4 فصل فی ذکر الحساب وغیرہ۔ ) کہ چار باتوں کی جواب دہی کے لیے ہر شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو ضرور کھڑے رہنا پڑے گا۔ (1) تمام عمر کس کام میں گزاری (2) جوانی میں کیا کیا (3) روپیہ پسیہ کیوں کر کمایا اور کہا خرچ کیا (4) دین کی کوئی بات سنی تو اس پر کیا عمل کیا ‘ یہ روایتیں وان کل لماجیع لدینا محضرون کی گویا تفسیر ہیں کیوں کہ آیت کے اس ٹکڑے میں قیامت کے دن سب مخلوق کے اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہونے کا جو ذکر ہے ان روایتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کے وہ حاضر ہونا کون سی جواب دہی کے لیے ہوگا۔
Top