Madarik-ut-Tanzil - Yaseen : 26
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ١ؕ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَۙ
قِيْلَ : ارشاد ہوا ادْخُلِ : تو داخل ہوجا الْجَنَّةَ ۭ : جنت قَالَ : اس نے کہا يٰلَيْتَ : اے کاش قَوْمِيْ : میری قوم يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتی
حکم ہوا کہ بہشت میں داخل ہوجا بولا کاش میری قوم کو خبر ہو
26، 27: قِیْلَ (اس کو ارشاد ہوا) ۔ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ (کہ جا جنت میں داخل ہو) اس کی قبر سوق انطاکیہ میں ہے۔ انداز کلام : یہاں قیلؔ لہ نہیں کہا گیا بلکہ صرف قیل کہا گیا ہے کیونکہ کلام مقولہ کو بیان کرنے کیلئے لایا گیا ہے مقول لہ کے لئے نہیں لایا گیا اگرچہ وہ معلوم و معروف ہے۔ اس میں دلالت پائی جاتی ہے کہ جنت پیدا ہوچکی ہے۔ قول الحسن (رح) : ہے کہ جب قوم نے اس کو قتل کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا وہ جنت میں ہے۔ وہ آسمانوں و زمین کی فناء کے وقت موت کا شکار ہوگا۔ (مگر یہ قول محل نظر اور محتاج دلیل ہے) جب وہ جنت میں داخل ہوا اور اس کی نعمتوں کو دیکھا تو کہنے لگا۔ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَلِیْ رَبِّیْ (کہنے لگا کاش میری قوم کو یہ بات معلوم ہوجاتی کہ میرے پروردگار نے مجھے بخش دیا) بما غفرلی ربی ای بمغفرۃ ربی لی میرے رب کے مجھے بخش دینے کے سبب یا بالذی غفرلی اس ذات کو جس نے مجھے بخش دیا۔ اول صورت میں ماؔ مصدر یہ اور دوسری میں موصولہ ہے۔ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ (اور مجھے عزت داروں میں شامل کردیا) جن کو جنت کا اعزاز ملا۔
Top