Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 26
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ١ؕ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَۙ
قِيْلَ : ارشاد ہوا ادْخُلِ : تو داخل ہوجا الْجَنَّةَ ۭ : جنت قَالَ : اس نے کہا يٰلَيْتَ : اے کاش قَوْمِيْ : میری قوم يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتی
(جب وہ ظلم کا شکار ہوا تو اس سے) کہا گیا کہ بہشت میں داخل ہوجا (وہ) بولا کاش ! کہ میری قوم کو معلوم ہو جاتا
بستی کے و ڈیرے اپنے حواریوں کو اشارہ کرتے ہیں اور وہ اس کا کام تمام کردیتے ہیں : 26۔ اس تین نبیوں کی دعوت پر ایمان لانے والے نے ہزاروں بلکہ لاکھوں ایمان لانے والوں سے زیادہ کام کر دکھایا کہ وہ ظالموں اور مشرکوں کے سامنے اس طرح ڈٹ گیا جس طرح وہ ایک آدمی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی جماعت ہے لیکن بستی والوں نے اس کو برداشت نہ کیا بلاشبہ وہ اپنے عزم کا پہاڑ تھا لیکن دلائل وبراہین سے ہٹ کر اور بات کا جواب بات سے دینے کی بجائے انہوں نے اس پر حملہ کردیا اور وڈیروں کے اشارہ سے ان کے حواریوں ہی نے اس کا کام تمام کردیا اور اس دنیا سے رخصت ہوتے ہی جنت کے دروازے اس کے لئے کھل گئے اور آسمان کے فرشتے اس کے استقبال کرنے کو آگے بڑھے اور اس کو ” خوش آمدید “ اور ” اھلا وسھلا “ کی صداؤں کے ساتھ اپنی ہمراہی میں لیے لیا ۔ اس کے شہید کرنے کی جو صورت بھی ان لوگوں نے اختیار کی اس کو پتھر مار مار کر ہلاک کیا یا دھکا پیل سے اس کی جان نکل گئی یا کلہاڑیوں اور ڈنڈوں سے اس کی پٹائی کرکے قتل کیا یا لوگوں نے اپنے پاؤں کے نیچے اس کو مسل کر مار دیا یا اس کی بوٹی بوٹی اور بیرہ بیرہ کردیا جو بھی ہوا قرآن کریم نے ان میں سے کسی ایک کیفیت کا بھی ذکر نہیں کیا ضروری نہیں تھا کہ اس کی دکھ بھری موت اور شہادت کی تکمیل کیونکر ہوئی اس لئے کہ اس بیان کی ضرورت نہ تھی لہذا اس کو چھوڑ دیا لیکن مفسرین نے اس بات پر خوب بحث کی کسی نے کہا کہ جب لوگ اس کو مار پیٹ رہے تھے تو فرشتوں نے اس کو خوشخبری سنا دی کہ اب جنت میں داخل ہوجاؤ ‘ کسی نے لکھا کہ اس کو مارا یا قتل نہیں کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے اٹھا کر اسی طرح زندہ ہی جنت میں پہنچا دیا ‘ کسی نے کہا کہ اس کو قتل کردیا اور پھر اس کے شہید کردینے کی الگ الگ صورتیں بیان ہیں اور اس طرح کہتے کہتے وہ کہیں سے کہیں نکل گئے بعض نے اس کا یہ ذکر بھی کیا ہے کہ وہ کون تھا اور کیسے ایمان لایا تھا ؟ اس کا ذکر ہم بعد میں کریں گے اس جگہ ہم صرف اتنی بات عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے جنت میں داخل کرنے کے ذکر نے صرف یہ بات واضح کی کہ ان لوگوں نے اس کو شہید کردیا کیونکہ ایک سچے اور پکے مسلمان کو جنت میں داخل ہونے سے مانع اگر کوئی چیز ہے تو وہ فقط دنیا کی زندگی ہے ، دنیا کی زندگی ختم ہوئی خواہ وہ کس طرح ختم ہوئی اور اس کا خاتمہ بال ایمان اس کو سیدھا جنت میں لے گیا اب جنت کے اس مقام اور حصہ کو عالم برزخ کا علین نام رکھو چاہے جو بھی کہو اس نظریہ اور عقیدہ کو قائم رکھنا ہی اصل چیز ہے ۔ اس نے جنت میں جب انعامات جنت کو آنکھوں سے ملاحظہ کیا اور اپنے استقبال کی حالت کا مشاہدہ کیا تو اس نے اس وقت بھی اپنی قوم ہی کو یاد کیا اور کہا کہ ہائے افسوس ! اگر میری قوم کو میری اس حالت کی اطلاع ہوجائے تو وہ سارے کے سارے اسی طرح کی موت مرنے کے لئے بخوشی تیار ہوجائیں اس شہید ہونے والے کا یہ جملہ بہت ہی معنی خیز ہے بشرطیکہ کوئی سمجھنے والا ہو۔ غور کرو کہ قوم کا درد دل میں رکھنے والے لوگوں کے روئیں روئیں میں کس طرح یہ ایک ہی درد سما چکا ہوتا ہے کہ ان کو اپنی جان کی بھی کوئی پروا نہیں رہتی وہ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ‘ کھاتے پیتے ‘ سوتے جاگتے قوم کی حالت نہیں بھول سکتے اور ان کی یہ کوشش محض قوم کی بھلائی میں ہوتی ہے یہاں تک کہ ان کو اپنی جان اپنے مال اور ہر اس چیز کی کوئی پروا نہیں ہوتی جس چیز کی ان کی ذات کے ساتھ نسبت دی جاتی ہو اور ہرچیز اور ہر اس کام کو وہ دل وجان سے عزیز سمجھتے ہیں جس کی نسبت قوم کے ساتھ وابستہ ہو یہی حال اللہ کے بندے کا تھا کہ اس نے جان جیسی عزیز چیز راہ الہی میں فدا کردی اور پھر مرنے کے بعد بھی اس کو قوم کی یاد ہی نے ستایا کہ اس نے انعامات الہی کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کیا اور نعمت ہائے جنت کو دیکھا تو قوم کا غم تازہ ہوگیا اور اس کی زبان سے نکلا تو یہی کہ اے میری قوم ! اگر تم کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ نے مجھے کون کون سے انعامات سے نوازا ہے اور پھر کیا کیا نعمت ہائے غیر مترقبہ عطا کی ہیں تو تم سارے کے سارے راہ الہی میں جان پیش کرنے کے لئے میرے سے بھی زیادہ تیار ہوجاؤ ۔
Top