Tafseer-e-Baghwi - Al-Faatiha : 2
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰہِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعَالَمِينَ : تمام جہان
سب طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
(2) (الحمد للہ) یہ جملہ لفظا خبر ہے کہ اللہ تعالیٰ مستحق حمد کے بارے میں خبر دے رہے ہیں جو کہ ذات باری تعالیٰ ہے اور اس میں مخلوق کو تعلیم دی گئی ہے ، تقدیری عبارۃ یوں ہوگی ، قولوا الحمد للہ یعنی الحمد للہ “ کہو ، حمد کبھی نعمۃ کا شکر ادا کرنے کے معنی میں ہوتی ہے اور کبھی خصال حمیدہ یعنی اچھے اوصاف کی تعریف کرنے کے معنی میں ہوتی ہے چناچہ کہا جاتا ہے ” حمدت فلانا علی ما اسدی الی من نعمۃ “ کہ میں نے فلاں کی نعمت عطا کرنے پر تعریف کی اور یوں بھی کہا جاتا ہے ” حمدتہ علی علمہ وشجاعتہ “ کہ میں نے فلاں کی تعریف اس کے علم اور دلیری پر کی اور شکر سوائے عطاء نعمۃ کے ادا نہیں کیا جاتا اور حمد شکر سے عام ہے لہذا ” شکرت فلانا علی علمہ “ کہ میں نے فلاں کے علم کا شکر ادا کیا ، لہذا ہر حمد کرنے والا شکر کرنے والا ہوگا مگر ہر شاکر حامد نہ ہوگا ۔ (یہ ترجمہ علامہ بغوی کی عبارت کے مطابق ہے وگرنہ حامد اور شاکر میں نسبت اس کے برعکس ہے ہر شاکر حامد ہے مگر ہر حامد شاکر نہیں) (دونوں کے فرق کے بارے میں) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حمد زبان سے قولا ہوتی ہے اور شکر اعضاء سے فعلا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” وقل الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدا “۔ اور کہئے کہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے اولاد نہیں پکڑی ، (یہاں حمد کا تعلق قل کہہ کر زبان سے قائم فرمایا) اور فرمایا (آیت)” اعملوا آل داؤد شکرا “۔ یعنی اعمال (صالحہ) کا عمل شکر کی خاطر اختیار کرو۔ لہذا شکرا مفعول لہ ہے اور اعملوا کے باعث (بوجہ مفعول لہ ہونے کے) منصوب ہے ۔ للہ اس میں لام استحقاق کیلیے ہے جیسے کہا جاتا ہے ، ” الدار لزید “ یعنی اس گھر کا مستحق (مالک) زید ہے ۔ (آیت)” رب العالمین الرحمن الرحیم “ رب بمعنی مالک ہے جیسے مالک دار کو رب الدار کہا جاتا ہے اور رب الشئی بھی اس وقت کہا جاتا ہے جب وہ اس شئی کا مالک ہوجائے اور رب بمعنی تربیت و اصلاح کے بھی آتا ہے جیسے کہا جاتا ہے ” رب فلان الضیعۃ بربھا “ یعنی فلاں نے زمین کی اصلاح کی اور رب کا لفظ ایسا ہے جیسے کہ ” طب “ اور ” بر “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، پس اللہ تعالیٰ تمام عالمین کے مالک ومربی ہیں اور مخلوق کو ھو الرب نہیں کہا جائے گا (یعنی رب کے لفظ پر الف لام لگا کر الرب کا استعمال مخلوق کے لیے نہیں کیا جاسکتا) ہاں اضافۃ کے ساتھ رب کا استعمال صحیح ہے مثلا ” رب الارض ، رب المال “ کہا جاسکتا ہے کیونکہ الف لام تعمیم کے لیے ہے (لہذا الرب کا معنی ہوگا ہر شئی کا مالک) جبکہ مخلوق ہر شئی کی مالک نہیں ہوسکتی ، اور العالمین جمع عالم کی ہے اور عالم جمع ہے من لفظہ اس کی واحد نہیں آتی ، (آیت)” العالمین “ کی تفسیر میں مفسرین نے اختلاف کیا ، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں انسان وجن عالم ہیں کیونکہ جن وانس خطاب الہی کے ساتھ مکلف ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” لیکون للعالمین نذیرا “ (حضور اقدس ﷺ انسان وجن کے لیے نذیر ہیں لہذا عالمین سے مراد انسان وجن ہوں گے) حضرت مجاہد (رح) اور حضرت حسن (بصری (رح)) فرماتے ہیں کہ عالمین سے مراد پوری مخلوق ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” قال فرعون وما رب العلمین قال رب السموت والارض وما بینھما “۔ (یہاں اس آیت کریمہ میں عالمین کا لفظ کل کائنات پر بولا گیا) عالمین کا لفظ علم یا علامت سے مشتق ہے پوری مخلوق کو عالم اس لیے کہا گیا کیونکہ صنعۃ الہی کا اثر ان میں ظاہر ہے ۔ حضرت ابو عبید فرماتے ہیں کہ عالمین کا لفظ چار قسم کی مخلوق کو شامل ہے ۔ (1) فرشتے (2) انسان (3) جنات (4) شیاطین۔ دریں صورۃ عالمین علم سے مشتق ہوگا اور چوپائے جانور عالمین میں داخل نہ ہوں گے کیونکہ یہ ذی عقل نہیں ہیں ۔ (عدد عالمین کا ذکر) عالمین کے مبلغ عدد میں اختلاف ہے، حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ایک (1000) عالم ہیں چھ سو (600) سمندر ہیں اور چار سو (400) خشکی میں حضرت مقاتل بن حیان ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسی ہزار (80000) ہزار عالم ہیں چالیس ہزار (40000) سمندر میں اور چالیس ہزار (40000) خشکی میں۔ حضرت وہب ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اٹھارہ (18) ہزار عالم ہیں جن میں سے یہ کل کائنات ایک عالم ہے اور خرابہ کے مقابل آبادی کی حیثیت ایسی ہے جیسے صحرا میں ایک خیمہ ۔ حضرت کعب احبار (رح) فرماتے ہیں کہ عالمین کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” وما یعلم جنود ربک الا ھو “۔ کہ تیرے رب کے لشکروں کو سوا اس کے کوئی نہیں جانتا ۔
Top