Maarif-ul-Quran - Yaseen : 7
لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤى اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
لَقَدْ حَقَّ : تحقیق ثابت ہوگئی الْقَوْلُ : بات عَلٰٓي : پر اَكْثَرِهِمْ : ان میں سے اکثر فَهُمْ : پس وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہ لائیں گے
ثابت ہوچکی ہے بات ان میں بہتوں پر سو وہ نہ مانیں گے
(آیت) لقد حق القول علیٰ اکثرہم فہم لا یومنون، انا جعلنا فی اعنا قہم اغلاً الایة، مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے کفر و ایمان اور جنت و دوزخ کے دونوں راستے انسان کے سامنے کردیئے، اور ایمان کی دعوت کے لئے انبیاء اور کتابیں بھی بھیج دیں، پھر انسان کو اتنا اختیار بھی دے دیا کہ وہ اپنے بھلے برے کو پہچان کر کوئی رستہ اختیار کرے۔ جو بدنصیب نہ غور و فکر سے کام لے نہ دلائل قدرت میں غور کرے، نہ انبیاء کی دعوت پر کان دھرے نہ اللہ کی کتاب میں غور و تدبر کرے تو اس نے اپنے اختیار سے جو راہ اختیار کرلی تو حق تعالیٰ .... اسی کے سامان اس کے لئے جمع فرما دیتے ہیں، جو کفر میں لگ گیا پھر اس کے واسطے کفر بڑھانے ہی کے سامان ہوتے رہتے ہیں، یعنی ان میں سے بیشتر لوگوں پر تو ان کے سوء اختیار کی بنا پر یہ قول حق جاری ہوچکا ہے کہ یہ ایمان نہ لائیں گے۔
آگے ان کے حال کی ایک تمثیل بیان فرمائی ہے، کہ ان کی مثال ایسی ہے کہ جس کی گردن میں ایسے طوق ڈال دیئے گئے ہوں گے کہ اس کا چہرہ اور آنکھیں اوپر اٹھ جائیں، نیچے راستہ کی طرف دیکھ ہی نہ سکے۔ تو ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو کسی کھڈ میں گرنے سے نہیں بچا سکتا۔
دوسری مثال یہ دی کہ جیسے کسی شخص کے چاروں طرف دیوار حائل کردی گئی ہو وہ اس چار دیواری میں محصور ہو کر باہر کی چیزوں سے بیخبر ہوجاتا ہے، ان کافروں کے گرد بھی ان کی جہالت اور اس پر عناد وہٹ دھرمی نے محاصرہ کرلیا ہے کہ باہر کی حق باتیں ان تک گویا پہنچتی ہی نہیں۔
امام رازی نے فرمایا کہ نظر سے مانع دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک مانع تو ایسا ہوتا ہے کہ خود اپنے وجود کو بھی نہ دیکھ سکے، دوسرا یہ کہ اپنے گرد و پیش کو نہ دیکھ سکے۔ ان کفار کے لئے حق بینی سے دونوں قسم کے مانع موجود تھے، اس لئے پہلی مثال پہلے مانع کی ہے کہ جس کی گردن نیچے کو جھک نہ سکے وہ اپنے وجود کو بھی نہیں دیکھ سکتا اور دوسری مثال دوسرے مانع کی ہے کہ گردو پیش کو نہیں دیکھ سکتا۔ (روح)
جمہور مفسرین نے آیت مذکورہ کو ان کے کفر وعناد کی تمثیل ہی قرار دیا ہے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اس کو بعض روایات کی بنا پر ایک واقعہ کا بیان قرار دیا ہے، کہ ابوجہل اور بعض دوسرے لوگ آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے یا ایذاء پہنچانے کا پختہ عزم کر کے آپ کی طرف بڑھے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، عاجز ہو کر واپس آگئے۔ اسی طرح کے متعدد واقعات کتب تفسیر ابن کثیر، روح المعانی، قرطبی، مظہری وغیرہ میں منقول ہیں، مگر وہ بیشتر روایات ضعیفہ ہیں اس پر مدار آیت کی تفسیر کا نہیں رکھا جاسکتا۔
Top