Ruh-ul-Quran - Yaseen : 7
لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤى اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
لَقَدْ حَقَّ : تحقیق ثابت ہوگئی الْقَوْلُ : بات عَلٰٓي : پر اَكْثَرِهِمْ : ان میں سے اکثر فَهُمْ : پس وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہ لائیں گے
البتہ ثابت ہوچکی ہے ان میں سے اکثر پر ہماری بات، سو وہ ایمان نہیں لائیں گے
لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓی اَکْثَرِھِمْ فَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 7) (البتہ ثابت ہوچکی ہے ان میں سے اکثر پر ہماری بات، سو وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجے میں اہل مکہ اور دیگر اہل عرب کی طرف براہ راست آپ کی بعثت اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے جس پر قریش اور دیگر مخالفین کو شکرگزار ہونا چاہیے لیکن بعض عوارض کے باعث قریش کا جو کچھ حال ہوچکا ہے اس کے پیش نظر آپ کو یہ توقع نہیں ہونی چاہیے کہ وہ سب لوگ آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی بات ثابت ہوچکی ہے۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی زد میں آچکے ہیں۔ اس کا قانون یہ ہے کہ جو لوگ داعی الی اللہ کی ہر ممکن کوشش کے باوجود اس کی دعوت پر کان دھرنا بھی گوارا نہیں کرتے اور اتباعِ ہَویٰ میں اس حد تک ڈوب جاتے ہیں کہ نہ اپنی عقل سے کام لیتے ہیں اور نہ پیغمبر کی ہدایت کو دیکھنا گوارا کرتے ہیں، رفتہ رفتہ ان سے قبولیتِ حق کی استعداد چھین لی جاتی ہے اور وہ ہدایت سے محروم کردیے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ آپ کو ایسے لوگوں کے لیے کبھی فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔
Top