بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Hud : 1
اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
اَتٰٓى : آپہنچا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ : سو اس کی جلدی نہ کرو سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک بناتے ہیں
خدا کا حکم (یعنی عذاب گویا) آ ہی پہنچا تو (کافرو) اس لے لئے جلدی مت کرو۔ یہ لوگ جو (خدا کا) شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے۔
اتی۔ اتی یاتی اتیان۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ یہاں ماضی بمعنی مستقبل مستعمل ہے اور ایسی متعدد مثالیں قرآن مجید میں ہیں۔ قطعی طور پر وقوع پذیر ہونے والی اور قریب تر ہونے والی بات کو ماضی کے لفظوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا سمجھو کہ یہ بات ہو ہی چکی۔ اتی امر اللہ۔ اللہ کا حکم آن ہی پہنچا۔ (یعنی بہت جلد آنے والا ہے اور ضرور بالضرور آئے گا۔ امر اللہ ۔ خدا کا حکم۔ اس سے مفسرین نے متعدد معانی مراد لئے ہیں۔ (1) امر سے مراد سزائے کفروشرک کا حکم ہے۔ یہ سزا (عذاب) دنیوی بھی ہوسکتی ہے اور اخروی بھی ۔ (2) اس سے مراد روز قیامت ہے۔ (3) اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مسلمانوں کو فتح وظفر ہوگی۔ اور مشرکین شکست وہزیمت بربادی و رسوائی سے دوچار ہوں گے۔ لا تستعجلوہ۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر ہُ ضمیر کا واحد مذکر غائب امر اللہ کی طرف راجع ہے تم اس کی جلدی (وقوع پذیر ہونے کے لئے بیتابی) مت کرو۔ عجلۃ سے باب استفعال جس کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ باب استفعال کی خاصیتوں میں سے ایک خاصیت طلب ِ ماخذ ہے جیسے استغفر اس نے مغفرت مانگی۔ استعجل اس نے عجلت چاہی۔ ینزل۔ مضارع واحد مذکر غائب تنزیل ۔ مصدر باب تفعیل وہ نازل کرتا ہے۔ یعنی اللہ نازل کرتا ہے۔ بالروح۔ روح کے ساتھ۔ روح بمعنی وحی یا قرآن۔ کیونکہ ہر دو دین میں بمقام روح فی الجسد کے ہیں۔ (جیسے جسد انسانی میں روح) اور ہر دو جہالت وکفر سے مردہ دلوں کو زندگی بخشتے ہیں۔ علی من یشاء من عبادہ۔ اپنے بندوں میں سے وہ جن پر چاہتا ہے (اپنے حکم سے وحی دے کر فرشتوں کو بھیجتا ہے) ۔ ان انذروا۔ یہ الروح کا بدل ہے یعنی مقصود وحی لوگوں کو اس کی وحدانیت میں کسی اور کو شریک ٹھہرانے سے ڈرانا ہے یا خبردار کرنا ہے۔ انذروا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر۔ تم ڈر سنائو۔ تم ڈرائو۔ تم خبردار کرو۔ تم آگاہ کرو۔ انذار ایسا اعلان جس میں خوف بھی ملا ہوا ہو۔ انہ۔ ضمیر شان۔ (اگر جملہ سے پہلے ضمیر غائب بغیر مرجع کے واقع ہو تو اگر وہ ضمیر مذکر کی ہے تو اس کو ضمیر شان کہتے ہیں اور اگر مؤنث کی ہو تو اس کو ضمیر قصہ ّ کہتے ہیں۔ ان انذروا انہ لا الہ الا انا۔ والمعنی یقول اللہ تعالیٰ بواسطۃ الملائکۃ لمن یشاء من عبادہ (ای رسلہ) اعلموا الناس قولی۔ لا الہ الا انا۔ یعنی خداوند تعالیٰ وحی کے ذریعہ سے اپنے رسولوں کو فرماتا ہے کہ لوگوں کو میرے اس قول سے خبردار کردو کہ کوئی معبود نہیں سوائے میرے۔ فاتقون۔نتیجہ کے لئے ہے۔ اتقون مجھ سے ڈرو۔ اتقوا۔ فعل امر۔ صیغہ جمع مذکر حاضر۔ نون وقایہ۔ یواحد متکلم محذوف ہے یعنی جب میں ہی معبود ہوں تو صرف مجھی سے ڈرو۔
Top