بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 1
اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
اَتٰٓى : آپہنچا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ : سو اس کی جلدی نہ کرو سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک بناتے ہیں
اللہ کا حکم آگیا۔ تم اس میں جلدی نہ مچاؤ۔ اس کی ذات بےعیب ہے اور اس سے بلندو برتر ہے جن کو تم اس کے ساتھ شریک کرتے ہو۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 4 اتی آگیا۔ امر اللہ اللہ کا حکم۔ لاتستعجلوہ تم اس میں جلدی نہ مچاؤ۔ تعالیٰ بلندو برتر۔ الروح جبرئیل امین۔ وحی ۔ خصیم جھگڑا کرنے والا۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 4 نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ جب قرآن کریم کی آیات تلاوت فرما کر کفار مکہ سے یہ فرماتے تھے کہ میں اللہ کا آخری رسول ہوں جو تعلیمات میں لے کر آیا ہوں ان پر ایمان لے آؤ تو تمہیں اس دنیا کی سربلندی اور آخرت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ لیکن اگر تم نے میری بات نہ مانی اور اپنے کفر و شرک ، بری رسموں اور خرافات سے چمٹے رہے اور تم نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی نہ چھوڑی تو کہیں تم پر وہی عذاب نہ آجائے جو نبیوں کی تعلیمات کو جھٹلانے سے قوموں پر آیا کرتا ہے۔ اس کے لئے توحید کا ثبوت شرک اور کفر کے باطل ہونے، اللہ کے پیغمبروں کی دعوت کو نا ماننے کی بدترین نتائج اور گزشتہ قوموں کے واقعات سنا کر تنبیہ فرماتے تو اس کے جواب میں وہ کہتے تھے کہ اے محمد ﷺ ! ہم تمہارے لائے ہوئے دین کو تسلیم نہیں کرتے اور ہم تمہاری اسی طرح مخالفت کرتے رہیں گے۔ تم جس عذاب کے آنے کی باتیں کرتے ہو اگر تم واقعی سچے ہو تو اس عذاب کے آنے میں دیر کیا ہے وہ کیوں نہیں آجاتا ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جس عذاب کے آنے کی جلدی مچا رہے ہو اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تمہیں سوچنے سمجھنے کی جو مہلت دی گئی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کفر و شرک سے توبہ کرلو۔ ورنہ اللہ کا وہ حکم (امر اللہ) بہت جلد آنے والا ہے۔ جب وہ امر اللہ آجائے گا تو پھر اس سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا ۔ علماء مفسرین نے لکھا ہے کہ امر اللہ سے مراد وہ وعدہ ہو سکتا ہے جو اللہ نے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے کر رکھا تھا کہ اللہ کا فیصلہ جس میں تمہیں تمہارے دشمنوں پر غالب کردیا جائے گا اور مسلمانوں کو فتح و نصرت اور کامیابی عطا کی جائے گی یا یہ کہ امر اللہ سے مراد قیامت کا دن ہے جو بہت جلد آنے والا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان آیات کے نازل ہونے کے چند سالوں کے بعد ان کفار و مشرکین کو شکست پر شکست کھانا پڑی۔ سایر دنیا میں ان کو ذلت نصیب ہوئی اور آخر کار فتح مکہ کے بعد پورے جزیرۃ العرب پر اہل ایمان کو فتح حاصل ہوئی اور وہ وقت بھی آ کر رہا جب تمام کفار و مشرکین کو اس سر زمین سے نکل جانے کا حکم دیدیا گیا اور اب قیامت تک اس سرزمین پر انہیں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس طرح اس دنیا کی زندگی میں تو ان کو اس بدنصیبی سے واسطہ پڑا۔ اب قیامت کے دن ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ وہ وقت بھی دور نہیں ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ مشرکین اللہ کی ذات اور صفات میں جن چیزوں کو شریک کرتے ہیں اللہ کی ذات اس سے بہت بلندو برتر ہے۔ وہ ہر طرح کے عیبوں سے پاک ذات ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا کلام نازل کرتا ہے تاکہ وہ اللہ کے نیک بندے (پیغمبر) اس بات کو پوری وضاحت سے بیان فرما دیں کہ اس کائنات میں ہر طرح کی عبادت و بندگی کے لائق صرف ایک اللہ ہی کی ذات ہے۔ وہ اس لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ اسی نے آسمانوں او زمین کو برحق پیدا فرمایا ہے۔ اسی نے اس انسان کو ایک حقیر قطرہ سے پیدا کیا ہے اور زندگی گذارنے کا ہر طرح کا سامان عطا فرمایا ہے۔ وہ انسان کتنا عجیب ہے کہ اپنی خلقت کو بھول کر اپنے پروردگار کے سامنے ہی ڈٹ کر کھڑا ہوگیا ہے اور اللہ اور اس کے رسول سے کھلم کھلا جھگڑتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے نبی اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے ہیں۔ پھر بھی اگر کوئی شخص اللہ کے نبی کی بات کو نہیں مانتا تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کا فیصلہ آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ جب وہ کسی چیز کا فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر اس کے ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
Top