Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور (کافر) انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا
66۔ 67:۔ منکرین حشر میں سے جس کسی کو صاحب عقل ہونے کا دعویٰ ہو اس سے مثال کے طور پر پوچھا جائے کہ جب دنیا میں مثلا ریل نہیں تھی تو پہلے پہل جس نے ریل نکالی اس کو یہ سوچنا پڑا ہوگا کہ انجن کس طرح بنایا جائے پانی کا اندازہ اتنا ہو اور آگ کا صحیح تجربہ میں آگیا اور ایک مدت سے ریل چلتی ہے اب اگر فرض کیا جائے کہ دنیا بھر کی ریل ناپید ہوجائے تو جن لوگوں کے اندازہ میں ریل کی باتیں ہیں ان کو پھر ریل کے بنا دینے میں کیا ایسی مشکل پیش آئے گی جیسے نئے سرے سے ریل کے بنانے میں پیش آئی تھی کوئی صاحب عقل یہ نہیں کہہ سکتا کہ صحیح اندازہ سے ایک کام ہو کر مدت تک اس کام کی شد بد رہ چکی ہو اور کام کرنے والوں کو پورا اور صحیح تجربہ حاصل ہوچکا ہو اب دوبارہ وہ کام وہی کام کرنے والے کریں گے تو ان کو پہلے تجربہ کی مدد سے اس کام کے کرنے میں کچھ آسانی نہ ہوگی اگر آسانی ہوگی تو اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں دنیا کو پیدا کردیا کہ سوائے اس کی ذات کے کچھ بھی نہ تھا اور مدت تک اس نے اپنی قدرت سے دنیا کی ریل گاڑی کو چلایا اب بعد اس حالت کے نابود کردینے کے اس کو پھر اس حالت کا پیدا کردینا مشکل ہے۔ نہیں نہیں۔ کچھ مشکل نہیں بلکہ جس کو کچھ تجربہ ہے اس کے نزدیک نہایت سہل ہے دنیا کی پہلی حالت سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اور ایک کام ایک دفعہ کیا جا کر تجربہ میں آجائے تو دوبارہ اس کام کا کرنا سہل ہوجاتا ہے اس واسطے ثبوت حشر میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر فرمایا ہے کہ جس نے پہلے دنیا کو پیدا کیا ہے وہی پھر پیدا کرے گا اور اس کو دوسری دفعہ کا پیدا کرنا آسان ہے (وھو الذی یبدء الخلق ثم یعیدہ وھو اھون علیہ) غرض جو سورة الروم میں فرمایا وہ گویا ان آیتوں کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس صاحب قدرت نے پانی جیسی پتلی چیز سے ماں کے پیٹ میں انسان کا پتلہ بنا کر اس پتلہ میں روح پھونک دی اس کو آدم (علیہ السلام) کے پتلہ کی طرح انسان کے دوبارہ پیدا کرنے کے وقت مٹی کا پتلا بنانا اور اس پتلہ میں روح پھونک دینا کیا مشکل ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ پیدا کرنے کی خبر اپنے کلام پاک میں انسان کو سنا دی لیکن انسان نے میرے کلام پاک کو جھٹلایا حالانکہ پہلی دفعہ کی پیدائش کو آنکھوں سے دیکھ کر دوسری دفعہ کی پیدائش کو جھٹلانا انسان کو زیبا نہیں تھا اس حدیث سے منکرین حشر کی جرأت کا حال اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے اور یہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے کہ عقبیٰ میں کلام الٰہی کے جھٹلانے کی سزا ایسے لوگوں کو بھگتنی پڑے گی۔ جسمانی حشر کے منکروں کو یہ جو شبہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی خاک رواں دواں ہوجائے گی پھر وہ خاک دوبارہ کیونکر جمع ہوجائے گی اس کا جواب سورة ق میں آئے گا کہ ان منکرین حشر کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ پتہ لکھ لیا ہے کہ ان لوگوں کی خاک ہوا سے اڑ کر یا پانی میں بہہ کر کہاں کہاں جائے گی۔ اسی پتہ سے ہر ایک کی خاک جمع کرلی جائے گی۔ زیادہ تفصیل اس کی سورة ق میں آئے گی۔
Top