Tadabbur-e-Quran - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور انسان کہتا ہے کہ کیا جب میں مرجاؤں گا تو پھر زندہ کرکے نکالا جاؤں گا !
وَيَقُولُ الإنْسَانُ أَئِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا۔ حضرت جبریل کا کلام تمام ہوا۔ اب یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہورہا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو صبر و استقامت کی تلقین کے بعد اب یہ مخالفین کے اصل سبب تکذیب کا خود ان کے الفاظ میں حوالہ دے کر آگے اس کی تردید آرہی ہے۔ یہاں لفظ انسان اگرچہ عام ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ اس سے مراد مشرکین عرب ہی ہیں جو قیامت کو ایک مستبعد چیز سمجھ کر اس کی تکذیب کرتے تھے۔ عام لفظ سے بات کہنے یہ بلاغت ہے کہ گویا وہ لائق التفات نہیں اس وجہ سے عام صیغہ سے بات کہہ دی گئی۔ قیامت کے باب میں مشرکین عرب کا موقف، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں۔ صریح انکار کا نہیں تھا بلکہ وہ ایک قسم کے تناقض میں مبتلا تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو زندہ کرنے والا اور مارنے والا تو مانتے تھے لیکن اس بات کو بہت مستبعد سمجھتے تھے کہ مرکھپ جانے کے بعد سارے لوگ پھر زندہ کرکے اٹھائے جائیں اور سب کا حساب کتاب ہوگا۔ ان کے امراء و اغنیاء اس غلط فہمی میں بھی مبتلا تھے کہ بالفرض قیامت ہوئی تو وہ وہاں بھی وہی کچھ پائیں گے جو ان کو یہاں حاصل ہے۔ پھر سب سے زیادہ اعتماد ان کو اپنے دیویوں دیوتاؤں پر تھا، وہ فرشتوں کو خدا کی چہیتی بیٹیاں مان کر ان کی پرستش کرتے تھے اور ان کا زعم یہ تھا کہ اگر قیامت ہوئی اور حساب و کتاب سے سابقہ پیش آیا تو ان کے یہ معبود ان کو خدا سے چھڑا لیں گے۔ مشرکین کے ان متناقض خیالات کو سامنے رکھیے ت قرآن کے آگے کے مباحث سمجھ میں آئیں گے۔
Top