Baseerat-e-Quran - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤں گا تو پھر کیا میں زندہ کیا جاؤں گا ؟
لغات القرآن آیت نمبر 66 تا 72 مت میں مر گیا۔ نحشرن ہم ضرور جمع کریں گے۔ نحضرن ہم ضرور حاضر کریں گے۔ حول اردگرد۔ جثی گھٹنوں کے بل۔ ننزعن ہم ضرور نکالیں گے۔ شیعۃ فرقہ، گروہ۔ عتی سرکش، نافرمان۔ صلی اندر داخل ہونا۔ وارد آنے والا۔ مقضی مقرر کیا ہوا۔ نذر ہم چھوڑ دیں گے۔ تشریح : آیت نمبر 66 تا 72 قرآن کریم میں متعدد مقامات پر کفار و مشرکین کے متعلق بیان کیا گیا ہے جس میں انہوں نے قرآن کریم کی آیات کو سن کر بڑے تعجب اور حیرت سے یہ سوال کیا ہے کہ جب ہم مر کر خاک ہوجائیں گے ۔ ہماری ہڈیاں چورہ چورہ ہو کر ہمارا وجود کائنات میں بکھر جائے گا تو کیا دوبارہ زندہ کئے جائیں گے ؟ ہمارے وجود کے اجزاء جمع ہو سکیں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اس قول کا نہایت سادہ اور باوقار جواب دیا ہے کہ انسان کو یہ سوال کرنے سے پہلے اس بات پر غور کرلینا چاہئے کہ جب انسان کا وجود ہی نہ تھا بلکہ وہ قابل ذکر شے ہی نہ تھا جب اس وقت اللہ نے اس کو وجود عطا کیا۔ زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزار کر، ماں باپ کی شفقت کے سائے میں اس کو جوان بنایا۔ اس کے لئے وہ تمام اسباب پیدا کئے جس سے وہ زندگی کو مناسب طریقہ پر گزار سکے تو کیا اس اللہ کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ اس انسان کے بلکہ کائنات کے تمام انسانوں کے اجزاء کو جمع کر کے دوبارہ جیتا جاگتا انسان بنا دے۔ کسی چیز کو پہلی مرتبہ پیدا کرنا اور بنانا بظاہر مشکل نظر آتا ہے لیکن اس کو اسی جیسا دوسرا وجود عطا کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس بات کو ارشاد فرمایا ہے کہ انسان یہ کہتا ہے کہ جب ہم مر جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ پیدا کئے جائیں گے۔ اللہ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر فرمایا کہ ہم صرف ان کو ہی زندہ کر کے نہیں بلکہ ان شیطانوں کو بھی جہنم کے گرد جمع کریں گے جو ان کو بہکایا کرتے تھے۔ جب دوزخ ان کے سامنے ہوگی تو وہ دہشت اور خوف سے گھٹنوں کے بل گر جائیں گے اور ان سرکش اور نافرمانوں کو گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جن کے دل میں اللہ کا خوف اور تقویٰ موجود ہوگا۔ ان کو جنت کی ابدی راحتوں اور آرام سے ہمکنار کرایا جائے گا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہر شخص کو جہنم کے پاس سے گزرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ اہل ایمان کو بھی اسی راستے سے جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جہنم کے اوپر ایک پل بنایا جائے گا (جس کو ” پل صراط “ کہتے ہیں) اس پر ہر ایک کو گذرنا ہوگا۔ جو اہل ایمان و اہل تقویٰ ہیں وہ تو اپنے اعمال کے حساب سے صحیح سلامت گزر جائیں گے۔ فرمایا کہ پل صراط سے گزرنے والے بعض تو وہ ہوں گے جو نہایت تیز رفتاری اور بجلی کی طرح اس سے گزر جائیں گے۔ بعض ہوا کی طرح، بعض تیز رفتار گھوڑے کی طرح ، بعض تیز رفتار اونٹوں کی طرح اور بعض لوگ تیز رفتار پیدل چلنے والے کی طرح اس پل سے گزر جائیں گے۔ یہاں تک کہ سب سے آخر میں جو شخص اس پل صراط سے گزرے گا وہ ہوگا۔ جس کے صرف پیر کے انگوٹھے پر نور ہوگا۔ وہ گرتا پڑتا نجات پا جائے گا۔ اس کے برخلاف جو کفار اور مشرکین ہیں وہ الجھ کر جہنم میں گر جائیں گے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد اہل ایمان اپنے اپنے اعمال کے مطابق اور بعض انبیاء اور صالحین کی شفاعت سے نجات پائیں گے جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔ ان کو ھبی ان کے گناہوں کی سزا دے کر اللہ تعالیٰ اپنا رحم و کرم فرمائیں گیا ور ان سزا یافتہ گناہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا اور جہنم کا منہ بند کردیا جائے گا۔ اس جگہ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم چند روز جہنم میں جلیں گے اس کے بعد جنت کی ابدی راحتیں ہمارا انتظار کر رہی ہوں گی۔ علماء مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ اول تو ہم جن ہم میں جائیں گے ہی نہیں اور اگر ہم میں سے کسی کو جہنم میں جانا پڑا تو زیادہ سے زیادہ تین دن آگ میں جل کر تکلف اٹھا کر پھر جنت کی ساری راحتیں ہمیں عطا کردی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عقیدے کی جگہ جگہ تردید فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ نے کسی کے لئے جنت کو اس کی میراث نہیں بنایا ہے۔ بلکہ انسان کا ایمان اور حسن عمل اس کو جنت کا مستحق بنا سکتا ہے۔ یہودیوں کا خیال ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ کرنا چاہیں کرتے رہیں آخرت کی راحتیں انہیں تشتریح میں سجا کر دیدی جائیں گی۔ لہٰذا یہ دنیا اور وہ دنیا صرف ہمارے لئے ہے۔ اہل ایمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صالح مومن کی نجات فرمائیں گے۔ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے وہ اپنی سزا بھگت کر آخر کار جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ہمارا اس بات پر بھی یقین ہے کہ نبی کریم ﷺ اور گزشتہ انبیاء اور صالحین اللہ کے ہاں سفارش فرمائیں گے اور ان کی شفاعت پر اللہ کا کرم بھی ہوگا۔ لیکن اگر ان حقائق کی موجودگی میں ہمارا انداز فکر یہودیوں جیسا ہوجائے کہ ہم اس دنیا میں جو چاہیں کرتے رہیں اور یہ سمجھنے لگیں کہ آخرت تو ہمارے لئے ہے ہمارے زبرگ ہمیں جہنم سے نکال لے جائیں گے۔ بیشک شفاعت پر ہمارا ایمان ہے لیکن اس کے لئے ایمان کی بھی شرط ہے خواہ وہ ذرہ برابر ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن ہمارے پاس ایسا کوئی آلہ نہیں ہے جس سے ہمیں یقین ہوجائے کہ واقعی ہمارا ایمان بھی سلامت ہے یا نہیں۔ اگر ایمان سلامت ہے تو انشاء اللہ اس ایمان کی برکت سے ضرور نجنات ہوگی لیکن اگر ہم نے بدعات و خرافات میں مبتلا ہو کر اپنا ایمان کھو دیا ہو تو پھر ہماری نجات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہم جیسے ہر شخص کو ایمان اور عمل صالح کی ہر وقت فکر کرنا چاہئے ورنہ درمیان اور یہودیوں کی خوش فہمیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رہے گا۔
Top