Dure-Mansoor - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاوں گا تو کیا یہ ضروری بات ہے کہ میں عنقریب زندہ کرکے نکالا جاوں گا ؟
1:۔ ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویقول الانسان “ (الآیۃ) میں انسان سے مراد عاص بن وائل ہے۔ 2:۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت) ” لسوف اخرج حیا “ الف کے رفع کے ساتھ (آیت) ” اولا یذکر الانسان “ خفیف کرتے ہوئے یاء کے نصب اور کاف کے رفع کے ساتھ۔ 3:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” جثیا “ یعنی قعود (بیٹھے ہوئے) وفی قولہ ” عتیا “ سے مراد ہے معصیت۔ 4:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” عتیا “ سے مراد ہے نافرمانی کرنے والا۔ 5:۔ حاکم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نہیں جانتا کہ نبی کریم ﷺ نے (آیت) ” عتیا “ اور (آیت) ” جثیا “ کو کیسے پڑھا بلاشبہ دونوں میں عین اور جیم کے ضمہ کے ساتھ ہیں۔ 6:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں اور بیہقی نے بعث میں عبداللہ بن باباہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گوایا کہ میں تم کو دیکھ رہا ہوں ایک ٹیلہ نما اونچی جگہ پر جہنم کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے۔ 7:۔ عبدبن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت) ” جیثا “ جیم کے رفع کے ساتھ (آیت) ” و عتیا “ عین کے رفع کے ساتھ اور (آیت) ” صلیا “ میں صاد کے رفع کے ساتھ پڑھا۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” حول جھنم جیثا “ یعنی کھڑے ہوئے۔ 9:۔ ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ثم لننزعن “ یعنی ہم ضرور ظاہر کریں گے۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ثم لننزعن “ یعنی ہم ہر اہل دین کے قائدین اور شریر درداروں کو علیحدہ کردیں گے۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ایہم اشد علی الرحمن عتیا “ سے مراد ہے کہ جو دنیا میں (رحمن کے سخت نافرمان تھے ) ۔ 12:۔ ھناد، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے روایت کیا کہ ابوالاحوص (رح) سے (آیت) ” ثم لننزعن من کل شیعۃ “ کے بارے میں فرمایا کہ شروع کیا جائے گا ان کو علیحدہ علیحدہ کرنا جو جرم کے لحاظ سے بڑے ہوں گے پھر (س کے بعد) جو بڑے ہوں گے۔ 13:۔ ابن ابی حاتم اور بیہقی نے بعث میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ پہلے اور پچھلے سب جمع کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب گنتی پوری ہوجائے گی پھر شروع کریں گے بڑوں کے ساتھ پھر جو بڑے ہوں گے جرم کے لحاظ سے پھر یہ آیت پڑھی (آیت) ” فوربک لنحشرنہم “ سے لے کر (آیت) ” عتیا “ تک۔ 14:۔ ابوعبید، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ثم لننزعن ‘ من کل شیعۃ “ یعنی ہر قوم میں سے جو رحمن کا نافرمان ہوگا (آیت) ” عتیا “ اور کفر کرنے والا ہوگا (اس کو نکالیں گے) 15:۔ ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ثم لنحن اعلم بالذین ھم اولی بھا صلیا “ یعنی وہ زیادہ لائق ہیں جہنم میں داخل ہونے کے۔ قیامت کے روز زمین کو پھیلا دیا جائے گا : 16:۔ حارث بن ابی اسامہ اور ابن جریر نے سند حسن کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو زمین چمڑے کی طرح پھیلا دی جائے گی اور اس کی وسعت میں اتنا اتنا اضافہ کردیا جائے گا اور مخلوق کو ایک میدان میں جمع کیا جائے گا جنات اور انسان اکھٹے ہوں گے اس دن آسمان دنیا زمین پر گرجائے گا اپنے رہنے والوں کے ساتھ اور آسمان والے زمین والوں سے زیادہ ہوں گے ان کے جنات اور انسانوں سے کئی گناہوں گے جب وہ زمین پر پھیلیں گے تو وہ (زمین والے) ان سے ڈریں گے اور ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے اندر ہمارے رب ہیں ؟ تو وہ ان کی اس بات سے ڈریں گے اور کہیں گے ہمارے رب پاک ہیں وہ ہمارے اندر نہیں اور وہ آنے والے ہیں پھر دوسرا آسمان پھٹ پڑے گا اور دوسرے آسمان والوں کی تعداد آسمان دنیاوالوں کی تعداد سے زیادہ ہوگی اور تمام زمین والوں سے بھی ان کے جنات اور ان کے انسانوں سے کئی گناہوں گے جب وہ زمین پر پھیلیں گے تو زمین والے ان سے ڈریں گے اور ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے اندر ہمارے رب ہیں ؟ وہ ان کی اس بات سے ڈریں گے اور ان سے کہیں گے ہمارے رب پاک ہیں ہمارے اندر نہیں ہیں اور وہ آنے والے ہیں پھر (اسی طرح) ایک ایک آسمان پھٹ پڑے گا جب بھی کوئی آسمان پھٹے گا تو اس کے رہنے والوں کی تعداد ان آسمان والوں سے زیادہ ہوگی جو اس کے نیچے تھا اور سارے زمین والوں سے بھی کئی گناہوں گے جب وہ زمین پر پھلیں گے تو زمین والے ان سے ڈریں گے اور اسی طرح ان سے کہیں گے اور وہ اسی طرح ان کو جواب دیں گے یہاں تک کہ ساتواں آسمان پھٹے گا تو ساتویں آسمان کے رہنے والے چھ آسمانوں کے رہنے والوں سے زیادہ ہوں گے اور تمام زمین والوں سے کئی گناہوں گے پھر اللہ تعالیٰ ان میں تشریف لائیں گے اور امتیں گھٹنوں کے بل صفوں میں ہوں گے تو ایک آواز دینے والا آواز دے گا آج کے دن عنقریب تم جان لوگے اصحاب کرم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی ہر حال میں حمد کرنے والے کھڑے ہوجائیں تو وہ لوگ کھڑیں ہوں گے اور وہ جنت کی طرف چل دیں گے پھر دوسری مرتبہ آواز دے گا آج کے دن عنقریب تم جان لوگے عزت والوں کے بارے میں وہ لوگ کہاں ہیں (آیت) ’ ’ کانت تتجافی جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفا وطمعا ومما رزقنہم ینفقون “ (السجدۃ : 16) وہ لوگ کھڑے ہوں گے پھر تیسری مرتبہ آواز دے گا آج کے دن عنقریب تم جان لوگے عزت والے لوگوں کے بارے میں وہ لوگ کہاں ہیں (آیت) ” لاتلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ واقام الصلوۃ ویتآء الزکوۃ، یخافون یوما تتقلب فیہ القلوب والابصار “ (النور : 37) وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور جنت کی طرف چل دیں گے جب ان تینوں قسم کے لوگوں کو لے لیا جائے گا ایک گردن آگ میں سے نکلے گی مخلوق پر چڑھ آئے گی اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گی اور زبان ہوگی جس سے وہ بولے گی اور کہے گی مجھے تین شخصوں پر مسلط کیا گیا ہے ہر سرکش ضدی پر اور ان کو صفوں سے اچک لے گی جیسے پرندے کا تل کے دانے کو اچک لینا اور ان کو جہنم میں قید کردے گی پھر دوسری مرتبہ نکلے گی اور کہے گی میں مسلط کی گئی ہوں تم میں سے اس آدمی پر جس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دی اور ان کو صفوں میں سے اچک لے گی جیسے پرندہ تل کے دانے کو اچک لیتا ہے اور ان کو جہنم میں قید کردے گی پھر تیسری مرتبہ نکلے گی اور کہے گی میں مسلط کی گئی ہوں تصویر بنانے والوں پر اور ان کو صفوں میں اس طرح اچک لے گی جیسے پرندہ تل کے دانے کو اچک لیتا ہے اور ان کو جن ہم میں قید کردے گی جب یہ تینوں قسم کے لوگ پکڑے جائیں گے تو اعمال نامے پھیلا دیئے جائیں گے اور ترازو رکھ دی جائے گی اور مخلوق کو حساب کے لئے بلایا جائے گا۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وان منکم الا واردھا : 1:۔ احمد، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم (اور حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) ابن مردویہ اور بیہقی نے بعث میں ابو سمیہ (رح) سے روایت کیا کہ جہنم پر وارد ہونے کے متعلق ہمارا اختلاف ہوا ہمارے بعض نے کہا کہ اس میں مومن داخل نہ ہواگا اور بعض نے کہا سب اس میں داخل ہوں گے (آیت) ” ثم ننجی الذین اتقوا “ (پھر اللہ تعالیٰ متقین کو نجات دے گا) پھر میں جابر بن عبداللہ ؓ سے ملا اور ان سے میں نے مسئلہ ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا میرے یہ کان بہرے ہوجائیں اگر میں نے نہ سنا ہو رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے کہ ہر نیکو کار اور فاجر جہنم پر وارد ہوگا تو (وہ آگ) مومن پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوگی جیسے ابراہیم (علیہ السلام) پر ہوئی تھی یہاں تک کہ آگ کی ٹھنڈک کی وجہ سے ان کی چیخیں نکل رہی ہوں گی (آیت) ” ثم ننجی الذین اتقواونذر الظلمین فیھا جثیا “۔ 2:۔ عبدالرزاق، سعید بن منصور، ھناد، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے بعث میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ابن عباس ؓ سے جھگڑا کیا ابن عباس ؓ نے فرمایا ” الورود “ سے مراد ہے الدخول یعنی داخل ہونا نافع نے کہا یہ معنی نہیں اور ابن عباس ؓ نے یہ آیت ” انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم انتم لھا وردون “ (الانبیاء آیت 68) اور فرمایا وہ داخل ہوں گے یا نہیں ؟ اور (یہ آیت) پڑھی ” یقدم قومہ یوم القیمۃ فاوردھم النار ‘ (ہود آیت 98) وہ داخل ہوں گے یا نہیں ؟ میں اور تو عنقریب ہم اس میں داخل ہوں گے۔ 3:۔ عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ سے مراد ہے کہ اس میں ہر نیک اور بدکار داخل ہوگا کیا تو نے اللہ کا یہ قول نہیں سنا (آیت) ” فاوردھم النار، وبئس الورد المورود “ (ہود آیت 98) اور اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) ” ونسوق المجرمین الی جہنم وردا “۔ 4:۔ حاکم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو اس میں داخل نہ ہو۔ 5:۔ ھناد اور طبرانی نے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ کوئی باقی نہیں رہے گا جو اس میں داخل نہ ہو۔ 6:۔ احمد، ابن ابی حاتم، ابن انباری، ترمذی حاکم، بیہقی نے بعث میں اور ابن مردویہ نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابن مسعود ؓ سے (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ پل صراط پر اترے گا۔ 7:۔ عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ ابن مسعود ؓ سے (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب لوگ آگ پر اتریں گے پھر وہ اس سے واپس ہوں گے اپنے (نیک) اعمال کی وجہ سے انمیں سے پہلے پلک جھپکنے کی رفتار پر (واپس ہوں گے) پھر ہوا کی طرح پھر گھوڑے کی دوڑنے کی طرح پھر سوار کی طرح اپنے کجاوے میں پھر آدمی کے دوڑنے کی طرح پھر پیدل چلنے کی طرح۔ پل صراط سے اترنا : 8:۔ عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ جب لوگ پل صراط پر اتریں گے گویا ان کا اترنا ان کا ٹھہرنا جہنم کے اردگرد ہوگا پھر وہ پل صراط سے اتریں گے اپنے عمل کے مطابق ان میں سے بعض بجلی کی طرح گذریں گے اور بعض ان میں سے ہوا کی طرح گذریں گے اور بعض ان میں سے پرندے کی طرح گذریں گے اور بعض ان میں تیز رفتار گھوڑے کی طرح گذریں گے اور بعض ان میں سے تیز رفتار اونٹ کی طرح اور بعض ان میں سے آدمی کے دوڑنے کی طرح یہاں تک کہ ان کا آخری آدمی گذرئے گا تو اس کا نور اس کے قدموں کے انگوٹھوں کی جگہ پر ہوگا اور وہ رکتے ہوئے پل صراط پر گذرے گا۔ 9:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر حاکم نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابن مسعود ؓ سے (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ کے بارے میں روایت کیا کہ جہنم پر ایک پل ہوگی تلوار کی دھار کی طرح پہلا طبقہ بجلی کی طرح گذرے گا اور دوسرا ہوا کی طرح تیسرا تیز رفتار گھوڑے کی طرح اور چوتھا تیز رفتار اونٹ کی طرح اور ان میں سے بعض آدمی اور جانور کے دوڑنے کی طرح پھر وہ اپنی منزلوں پر گذریں گے تو فرشتے ان سے کہیں گے کہ اے ہمارے رب بچائیو بچائیو۔ 10:۔ ابن ابی شیبہ اور حاکم نے (حاکم نے صحیح بھی کہا) مغیرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کا شعار (یعنی نشان) پل صراط پر قیامت کے دن یہ ہوگی اے اللہ بچائیواے اللہ بچائیو۔ 11:۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ سے مراد ہے کہ اس کے ساتھ گذرے گا۔ 12:۔ ھناد نے زہد میں اور عبد بن حمید نے عکرمہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ جہنم پر ایک پل ہے کہ اس پر سب لوگ اتریں گے۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ، ھناد عبد بن حمید، حکیم، ابن انباری، نے مصاحف میں خالد بن معدان (رح) سے روایت کیا کہ جب جنت والے جنت میں داخل ہوں گے تو کہیں گے اے ہمارے رب کیا آپ نے ہم سے وعدہ نہ کیا تھا کہ تم جہنم میں اتروگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیوں نہیں لیکن تم اس پر گذرے تو وہ مدھم پڑچکی تھی۔ 14:۔ عبد بن حمید، ابن انباری اور بیہقی نے بعث میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ میں (آیت) ” ورود “ سے مراد ہے اس پر گذرنا اس میں داخل ہوئے بغیر۔ 15:۔ عبدالرزاق اور ابن منذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ سے مراد ہے اس پر سے گذرنا۔ 16:۔ ابن انباری نے ابو نضرہ (رح) سے (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ کے بارے میں روایت کیا کہ ان کو لادا جائے گا پل صراط پر جہنم کی طرف اور وہ گویا کہ پگھلی ہوئی چربی کی پشت کی طرح ہوگی اور وہ ان کے ساتھ جھک جائے گی اللہ تعالیٰ جہنم سے فرمائیں گے اپنے دوستوں کو لے لے اور میرے اصحاب کو چھوڑ دے تو ان کے ساتھ پل صراط دھنس جائے گا اور مومن نجات پاجائیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) ” فاستبقو الصراط فانی یبصرون “ (یعنی پل صراط سے آگے بڑھ جائیں گے اور وہ کہاں اس کو دیکھیں گے) 17:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے ابوالعوم (رح) سے روایت کیا کہ کعب ؓ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا (یعنی) (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ انہوں نے فرمایا کہ ہم اس کے ورود ہونے کو اس کا داخل ہونا سمجھتے ہیں فرمایا (یہ مطلب) نہیں لیکن اس کا وارد ہونا یہ ہے کہ جن ہم کو لایا جائے گا گویا کہ وہ پگھلی ہوئی چربی کی پشت ہے یہاں تک کہ اس پر مخلوق کے قدم ٹھہرجائیں گے ان کے نیک لوگوں کے بھی اور ان کے بدکار لوگوں کے بھی ان کو ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ اپنے دوستوں کو پکڑ لے اور میرے دوستوں کو چھوڑ دے تو وہ دھنسادے گی اپنے ہر دوست کو اور وہ ان کو خوب جانتی ہوگی اپنی اولاد کو والد کے جاننے سے بھی زیادہ اور مومن نجات پائیں گے اور ان کے کپڑے گیلے ہوں اور فرمایا جہنم کے چوکیداروں میں سے ایک چوکیدار کے کندھوں کے درمیان ایک سال کا فاصلہ ہوگا اس کے پاس لوہے کا گرز ہوگا جس کی دو شاخیں ہوگی ایک ہی دفعہ میں نو لاکھ آدمیوں کو آگ میں گرادے گا یا اسی طرح آپ نے فرمایا۔ پل صراط سے گذرنے کے مختلف طریقے : 18۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ کے بارے میں روایت کیا کہ مسلمانوں کا وردو ایک پل پر گذرنا ہوگا اس کی پیٹھ کے درمیان، اور مشرکین کا ورود اس میں داخل ہونا ہوگا اور پل کو فرشتے گھیرے میں لئے ہوئے ہوں گے اس دن ان کی دعا یہ ہوگی اے اللہ اے اللہ بچا لیجئے۔ 19:۔ عبدبن حمید نے عبید بن عمیررحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ اس کا حاضر ہونا اس کا وارد ہونا ہے۔ 20:۔ ابن انباری نے مصاحف میں مرزوق بن سلامہ (رح) سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ ” الورود “ کیا چیز ہے ؟ فرمایا اس سے مراد ہے ” دخول “ کہا یہ معنی نہیں ہے (لیکن) ” الورود “ سے مراد ہے کہ اس کے کناروں پر ٹھہرنا فرمایا افسوس ہے تجھ پر کیا تو نے اللہ کی کتاب کو نہیں پڑھا (آیت) ” وما امر فرعون برشید “ کہ وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہوگا اور ان کو جہنم میں اتارے گا افسوس ہے تجھ پر کہ ان کو ان کے کناروں پر کھڑا کیا جائے (حالانکہ) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” ویوم تقوم الساعۃ ادخلوال فرعون اشدالعذاب “۔ 21:۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے ابو ایوب (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے قیامت کے دن ایک مرد اور ایک عورت جھگڑیں گے نہ اس عورت کی زبان بولے گی اور نہ اس مرد کی زبان بولے گی لیکن ان کے ہاتھ اور ان کے پاوں گواہی دیں گے جو اعمال انہوں نے کئے تھے اور اس عورت کے ہاتھ اور اس کے پاوں اس پر گواہی دیں گے جو اس نے گناہ کئے تھے پھر اس مرد کے ہاتھ اور پاوں گواہی دیں جو اس نے گناہ کئے تھے پھر اسی طرح مرد اور اس کے اردگرد دوسرے لوگوں کو بلایا جائے گا پھر بازار والوں کو لایا جائے گا ان سے قیراب اور دوانق کو نہیں لیاجائے گا مگر نیکیاں لی جائیں گی اور حقوق والوں کو دی جائیں گی پھر سرکش اور مغرور لوگوں کو لوہے کے گرزوں میں لایا جائے گا اور رب العالمین کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور وہ فرمائیں گے کہ ان کو آگ کی طرف ہانک کرلے جاؤ میں نہیں جانتا کیا ان کو اس میں داخل کیا جائے گا یا جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وان منکم الا واردھا کان علی ربک حتما مقضیا ‘ (یعنی اور تم میں سے ہر ایک دوزخ پر اترنے والا ہے یہ آپ کے رب پر لازم ہے جو ضرور پورا ہو کر رہے گا) 22:۔ ابن سعد نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب عمر ؓ نیز مارے گئے تو فرمایا اللہ کی قسم اگر ساری زمین میں جو کچھ ہے وہ سب میرا ہوتا میں اس ہول کے بدلے جو مرنے کے بعد ہوگا دے ڈالتا ابن عباس ؓ نے فرمایا میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس کو نہ دیکھیں گے مگر اتنی مقدر جتنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وان منکم الا واردھا “۔ 23:۔ حکیم، ترمذی، طبرانی، ابن مردویہ، خطیب اور بیہقی نے شعب میں یعلی بن امیہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن آگ مومن کے لئے کہے گی اے مومن تو جان لے کہ تحقیق تیرے نور نے میرے شعلے کو بجھا دیا ہے۔ 24:۔ ابن سعد، احمد، ھناد، ابن ماجہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن انباری، طبرانی، ابن مردویہ نے ام مبشر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بدر میں اور حدیبیہ میں حاضر ہونے والوں میں سے کوئی بھی آگ میں داخل نہ ہوگا حفصہ ؓ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نہیں فرماتے ہیں (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ آپ نے فرمایا کیا تو اس بات کو نہیں سنا (آیت) ” ثم ننجی الذین اتقوا “ (یعنی پھر ہم متقی لوگوں کو نجات دیں گے) تین نابالغ اولاد کے مرنے پر صبر کرنے کی فضیلت : 25:۔ بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس مسلمان کے تین بچے مرجائیں تو وہ آگ میں داخل نہ ہوگا مگر قسم کو حلال کرنے کے لئے پھر سفیان (رح) نے یہ آیت پڑھی (آیت) ” وان منکم الا واردھا “۔ 26:۔ طبرانی نے عبد الرحمن بن بشیر انصاری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کے تین نابالغ بچے مرجائیں تو وہ نہیں آئے گا آگ پر یعنی وہ آگ پر نہیں آئے گا مگر راستہ گذرنے والے کی طرح یعنی گذرنے والا پل صراط پر۔ 27:۔ احمد، بخاری نے تاریخ میں، ابویعلی، طبرانی اور ابن مردویہ نے معاذ بن انس (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے مسلمانوں کے پیچھے اللہ کے راستے میں چوکیداری کی اپنی خوشی سے تو اس کو بادشاہ نہیں پکڑے گا اور وہ آگ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھے گا مگر قسم حلال کرنے کے لئے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” وان منکم الا واردھا “۔ 28:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن انباری اور بیہقی نے بعث نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اسی طرح (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ یعنی کفار پھر فرمایا مومن اس پر نہیں اترے گا اسی طرح اس کو پڑھا۔ 29:۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو اس طرح پڑھا (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ اور فرمایا وہ اندھیرا ہے اسی طرح ہم اس کو پڑھا کرتے تھے۔ 30:۔ ابن مبارک، احمد نے زہد میں اور ابن عساکر نے بکر بن عبداللہ مزنی (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ تو عبداللہ بن رواحہ ؓ اپنے گھر گئے اور رونے لگے اس کی بیوی آئی تو وہ بھی رونے لگی اور خادم آیا تو وہ بھی رونے لگا اور گھروالے آئے تو انہوں نے بھی رونا شروع کیا جب ان کا آنسو بہانا ختم ہوگیا تو پوچھا اے میرے گھر والو کس چیز نے تم کو رلایا ؟ انہوں نے کہا ہم نہیں جانتے تھے لیکن ہم نے آپ کو روتا دیکھا ہے تو ہم بھی رونے لگے پھر آپ نے فرمایا ایک آیت رسول اللہ ﷺ پر اتری جس میں رب تعالیٰ نے مجھ کو بتایا کہ میں آگ پر وارد ہوں گا اور مجھ کو نہیں بتایا کہ میں اس سے واپس ہوں گا یہ وہ بات تھی جس نے مجھ کو رلادیا۔ جہنم کے خوف سے رونے کا واقعہ : 31:۔ ابونعیم نے حلیہ میں عروہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ جب ابن رواحہ ؓ نے نکلنے کا ارادہ کیا شام کی سرزمین موتہ کی طرف ان کے پاس مسلمان آئے ان کی تیمارداری کرنے کے لئے تو وہ رونے لگے پھر فرمایا اللہ کی قسم مجھے دنیا کی محبت نہیں ہے اور تمہارا عشق بھی نہیں ہے لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا (آیت) ” وان منکم الا واردھا، کان علی ربک حتما مقضیا “ میں نے جان لیا کہ میں آگ میں وارد ہوں گا اور میں نہیں جانتا کہ داخل ہونے کے بعد واپسی کیسے ہوگی۔ 32:۔ ابن مبارک، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، احمد اور ھناد بن السری دونوں نے زہد میں عبد بن حمید حاکم اور بیہقی نے بعث میں قیس بن حازم (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ بن رواحہ ؓ رونے لگے ان کی بیوی نے کہا کس بات نے آپ کو رلایا فرمایا مجھ کو خبر دی گئی ہے کہ میں آگ پر وارد ہوں گا اور مجھ کو یہ خبر نہیں دی گئی کہ میں اس سے واپس بھی ہوں گا (یا نہیں ) ۔ 33:۔ ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ (علیہ السلام) جب آپس میں ملتے تھے تو ایک آدمی اپنے ساتھی سے کہتا تھا کیا تیرے پاس یہ بات پہنچی ہے کہ تو وارد ہونے والا ہے (یعنی جہنم میں اترنے والا ہے) وہ کہتا تھا ہاں اور کیا تیرے پاس یہ بات پہنچی ہے کہ تو نکلنے والا بھی ہے وہ کہتا تھا نہیں پھر وہ کہتا تھا پھر تو کیوں ہنستا ہے۔ 34:۔ ابن مبارک اور ھناد نے ابو میسر (رح) جب اپنے بستر پر آتے تھے تو فرماتے اے کاش مجھ کو میری ماں نہ جنتی اس کی بیوی نے کہا اے بومیسر بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسلام کی طرف ہدایت دی ہے فرمایا ہاں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ہم آگ میں اتریں گے اور ہم کو یہ بیان نہیں فرمایا کہ ہم اس سے واپس بھی ہوں گے۔ 35:۔ ابن مبارک نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا اپنے بھائی سے کیا تیرے پاس یہ بات آئی ہے کہ تو آگ میں اترے گا ؟ اس نے کہا ہاں پھر پوچھا کیا تیرے پاس یہ بات بھی آئی ہے کہ تو اس سے نکلے گا ؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پھر تو کیوں ہنستا ہے ؟ اور ان سے ہنسنا نہیں دیکھا گیا یہاں تک کہ وہ وفات پاگئے۔ 36:۔ ابن جریر اور ابن منذرنے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ بخار ہر مومن کا حصہ ہے آگ میں سے پھر یہ آیت پڑھی (آیت) ” وان منکم الا واردھا “۔ 37:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ بخار دینا میں مومن کا حصہ ہے آخرت میں جہنم میں اترنے کے (بدلے) میں۔ 38:۔ بیہقی نے شعب میں مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ مسلمانوں میں سے جس کو (دنیا میں) بخار پہنچ گیا تو گویا وہ (جہنم میں) اتر گیا۔ 39:۔ ابن جریر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب میں سے ایک آدمی کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے جس کو بخار کی شدت تھی اور میں آپ کے ساتھ تھا آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ میری عیادت کے لئے تشریف لے گئے جس کو بخار کی شدت تھی اور میں آپ کے ساتھ تھا آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ میری آگ ہے جس کو میں اپنے مومن بندے پر مسلط کرتا ہوں تاکہ آخرت میں آگ سے اس کا حصہ ہوجائے (یعنی اس کا بدلہ ہوجائے) آگ ہے جس کو میں اپنے مومن بندے پر مسلط کرتا ہوں تاکہ آخرت میں آگ سے اس کا حصہ ہوجائے (یعنی اس کا بدلہ ہوجائے) 40:۔ خطیب نے تالی التلخیص میں عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان منکم الا واردھا “ کہ اس سے مراد ہے داخل ہونا اور یہ آپ کے رب پر لازم ہے جو ضرور پورا ہو کر رہے گا پھر فرمایا یہ لازمی قسم ہے۔ 41:۔ ابن ابی حاتم، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” حتما مقضیا “ یعنی یہ فیصلہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ 42:۔ ابن انباری نے وقف میں اور طستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” حتما مقضیا “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا ” الحتم “ سے مراد ہے الواجب یعنی واجب ہونا پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی کو جانتے ہیں فرمایا ہاں کیا تو امیہ بن ابی صلت کو نہیں کہ وہ کہتا ہے : عبادک یخطئون وانت رب بکفیک لمنا یا والحتوم : ترجمہ : تیرے بندے تو خطا کرتے ہیں اور تو رب ہے تیرا کافی ہونا ہے موتوں اور قطعی فیصلوں کو۔ 43:۔ ابن انباری نے ا بوسلامہ سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت) ” ثم ننجی الذین اتقوا “ تاء کے ضمہ کے ساتھ۔ 44:۔ ابن انباری نے طرق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت) ” ثم ننجی الذین اتقوا “ تاء کے فتحہ کے ساتھ۔ 45:۔ ابن انباری نے ابن ابی لیلی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے (آیت) ” ثم ننجی الذین اتقوا “ تاء کی فتحہ کے ساتھ اور فرماتے تھے ورود سے مراد ہے دخول۔ 46:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کہ وہ (آیت) ’ـ’ ونذر الظلمین فیھا جثیا “ کو اسی طرح پڑھتے تھے۔ 47:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ’ـ’ ونذر الظلمین فیھا جثیا “ سے مراد ہے کہ گرے ہوئے ہوں گے اپنے گھٹنوں کے بل۔ 48:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ” الجثی “ سے مراد ہے برا بیٹھنا اور آدمی گھٹنوں کے بل نہیں بیٹھتا مگر بےچینی کے و قت۔ 49:۔ عبد بن حمید، عبدالرزاق، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ” جثیا “ سے مراد ہے اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھنا۔ وقولہ تعالیٰ : واذا تتلی علیہم : 50:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے (آیت) ” ای الفریقین خیر “ کے بارے میں فرمایا کہ قریش مکہ نے ان کے لئے اور محمد ﷺ کے اصحاب کے لئے ایک بات کہی تھی (کہ ہم دونوں فرقوں میں کون بہتر ہے) 51:۔ فریابی، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، اور ابن حاتم نے ابن عباس ؓ روایت کیا کہ (آیت) ” خیرمقاما “ سے مراد ہے گھر اور (آیت) ” واحسن ندیا “ سے مراد ہے مجلسیں اور آیت ” احسن اثاثا “ سے مراد ہے سامان اور مال (آیت) ” ورءیا “ سے مراد ہے منظر۔ 52:۔ طستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” واحسن ندیا “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا ” النادی “ سے مراد ہے مجلس اور قربانی کی جگہیں پھر پوچھا کی عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو شاعر کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : یومان یوم مقامات واندیۃ ویوم سیرالی الاعداء تاویب : ترجمہ : دو دن ہیں ایک دن رہائش گاہوں اور مجلسوں میں (رہنا ہے) اور دوسرے دن چلنا ہے دشمنوں اور پڑاؤ کی جگہ کی طرف۔ 53:۔ عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” خیر مقاما واحسن ندیا “ یعنی ان کی مجلسیں (اور) (آیت) ” اثاثاورءیا “ سے مراد ہے زینت اور دکھاوا جس میں لوگوں کو دکھایا جاتا ہے۔ 54:۔ عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” خیر مقاما واحسن ندیا “ سے مراد ہے بہترین جگہ کے لحاظ سے اور سب سے اچھا مجلس کے لحاظ سے (اور) (آیت) ” احسن اثاثاورءیا “ یعنی مال کی کثرت اور اچھی صورت۔ وقولہ تعالیٰ : قل من کان فی الضللۃ فلیمددلہ : 55:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہدرحمۃ اللہ علیہ سے (آیت) ” قل من کان فی الضللۃ فلیمددلہ الرحمن “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کو سرکشی میں چھوڑ دیتے ہیں۔ 56ـ:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے حبیب بن ابی ثابت (رح) سے روایت کیا کہ ابی ؓ کی قرأت میں یوں ہے (آیت) ” قل من کان فی الضللۃ فلیمددلہ “ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو گمراہی میں اور زیادہ کردے گا۔ 57:۔ ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے (آیت) ” ویزید اللہ الذین اھتدوا ھدی “ کے بارے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اخلاص میں اور زیادہ کردے گا۔ 58:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” خیر عند ربک ثوابا “ یعنی بہترین بدلہ مشرکین کے بدلے سے (اور) (آیت) ” وخیر مردا “ یعنی بہترین لوٹنا (اور) ان کا لوٹنا آگ کی طرف ہوگا۔ وقولہ تعالیٰ : افرءیت الذی کفر بایتنا : 59۔ احمد، بخاری، مسلم، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ترمذی، بیہقی نے دلائل میں ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان اور ابن مردویہ نے خباب بن ارت ؓ سے روایت کیا کہ میں ایک لوہار آدمی تھا عاص بن وائل پر میرا قرضہ تھا میں اس کے پاس آیا اور اس سے تقاضا کیا اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم میں تجھ کو ادا نہیں کروں گا جب تک تو محمد ﷺ کا انکار نہ کردے میں نے کہا اللہ کی قسم میں محمد ﷺ کا انکار نہیں کروں گا یہاں تک کہ تو مرجائے اور پھر زندہ ہو کر اٹھایا جائے اس نے کہا جب میں مرجاوں گا تو پھر اٹھایا جاوں گا تو تم میرے پاس آنا وہاں میرے پاس مال ہوگا اور اولاد بھی ہوگی تو میں تجھ کو دوں گا تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” افرءیت الذی کفر بایتنا “ (سے لے کر) ” ویاتینا فردا “ تک۔ 60:۔ طبرانی نے خباب ؓ سے روایت کیا کہ میں عاص بن وائل کا کام کیا کرتا تھا میں اس کے پاس آیا تاکہ اس سے (اپنی مزدوری کا) تقاضا کروں اس نے کہا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم لوٹائے جاوگے مال اور اولاد کی طرف اور میں بھی لوٹنے والا ہوں مال اور اولاد کی طرف جب میں اس کی طرف لوٹ جاوں گا پھر میں تجھ کو دوں گا تو ( اس پر) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” افرءیت الذی کفر بایتنا “ (الآیۃ) آخرت کی نعمت صرف مسلمانوں کے لئے : 61:۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں نے عاص بن وائل سے قرضہ لینا تھا وہ لوگ اس کے پاس آئے اور اپنے قرضے کا تقاضا کیا اس نے کہا کیا تم یہ گمان نہیں کرتے ہو (یعنی یہ تمہارا عقیدہ نہیں ہے) کہ جنت میں سونا، چاندی، ریشم، اور ہر قسم کے پھل ہوں گے صحابہ ؓ نے فرمایا کیوں نہیں (ضرور ہوں گے) اس نے کہا (پھر تو) تمہارے ساتھ آخرت کا وعدہ ہے اللہ کی قسم میں ضرور مال اور اولاد دیا جاوں گا تمہاری کتاب کی طرح کتاب دی جائے گی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” افرءیت الذی کفر بایتنا “ (الایات) ۔ 62:۔ سعید بن منصور نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی کا قرضہ تھا ایک مشرک آدمی پر تو اس سے تقاضا کرنے کے لئے وہ اس کے پاس آیا اس نے کہا کیا تو اس آدمی (محمد ﷺ کے ساتھ نہیں ہے ؟ اس نے کہا ہاں پھر اس نے کہا کیا وہ اس بات کا گمان نہیں رکھتا کہ تمہارے لئے جنت ہے، آگ ہے، مال ہیں اور بیٹے ہیں ؟ صحابی ؓ نے فرمایا ہاں پھر اس نے کہا تو چلا جا ! میں تجھ کو وہاں ادا کروں گا اس پر یہ (آیت) ” افرءیت الذی کفر بایتنا “ (سے لے کر) ” ویاتینا فردا “ تک نازل ہوئی۔ 63:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اطلع الغیب “ یعنی کیا اللہ تعالیٰ نے اس کو غیب (کے بارے میں) بتایا کہ اس میں مال ہوگا (آیت) ” ام اتخذ عند الرحمن عہدا “ کیا کسی نیک عمل کی وجہ سے اس نے رحمن سے عہد لیا ہے۔ 64:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ام اتخذ عند الرحمن عہدا “ یعنی کیا اس نے لا الہ الا اللہ کہا کہ جس کے ذریعہ وہ امید رکھتا ہے (واللہ اعلم )
Top