Fi-Zilal-al-Quran - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
انسان کہتا ہے کیا واقعی جب میں مرچلوں گا تو پھر زندہ کرکے نکال لایا جائوں گا ؟
درس نمبر 731 ایک نظر میں اس سورة میں حضرت ذکریا ﷺ کا قصہ گزر گیا ہے اور حضرت یحییٰ ﷺ کی ولادت کی بات بھی گزر گئی ہے۔ حضرت مریم ﷺ کا قصہ اور حضرت عیسیٰ ؐ کی پیدائش کا واقعہ بھی گزر گیا ہے۔ حضر ابراہیم ﷺ اور ان کی جانب سے باپ اور قوم کو چھوڑ دینے کا قصہ اور ان حضرات کے بعد آنے والے اہل ہدایت اور اہل ضلالت کا ذکر بھی گزرا ہے۔ ان سب قصوں کے بعد یہ ذکر آیا کہ اس کائنات کا رب وحدہ لاشریک ہے اور وہی بلاشریک عبادت کا مستحق ہے۔ یہ تمام قصص صرف اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ اللہ وحدہ ہی قابل عبادت و بندگی ہے۔ اس مضمون کے بعد اب یہ پورا سبق عقیدہ توحید اور عقیدہ بعث بعد الموت کے بارے میں ہے۔ ان عقائد کو مناظر قیامت کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے اور یہ مناظر تاثرات اور زندگی کی ہماہمی سے بھرپور ہیں ‘ پھر پوری کائنات بھی ان مناظر میں شریک محفل ہے۔ تمام انسان اور پوری زمین ‘ تمام انسان اور تمام جن ‘ مومنین بھی اور کافر بھی ان مناظر میں اسٹیج کے کردار ہیں۔ پھر یہ مناظر اس دنیا سے بھی تعلق رکھتے ہیں ور قیامت کی طرف بھی نکل جاتے ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ گویا ایک ہی اسٹیج پر دنیا و آخرت دونوں کے مناظر دکھائے جارہے ہیں۔ آغاز اس دنیا سے ہوتا ہے اور انجام آخرت میں جا کر نہایت ہی موثر انداز میں دکھایا جاتا ہے۔ دنیا و آخرت میں بس چند آیات و چند کلمات کا فاصلہ رہ جاتا ہے جس سے پردہ شعور انسانی پر یہ احساس ابھر آتا ہے کہ یہ دنیا اور وہ جہاں دونوں ایک اسٹیج اور منظر کے دو حصے ہیں۔ پہل انسان اسٹیج پر آتا ہے اور وہ بعث بعد الموت کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتا ہے۔ وہ ایک ایسی بات کرتا ہے جسے آج تک کئی انسان دہراتے چلے آئے ہیں۔ مختلف زمانوں میں انسانوں نے یہی بات کہی ہے۔ گویا یہ ایک عالمی انسانی شبہ ہے اور تمام قوموں اور تمام نسلوں کو اس سوال نے ستایا ہے۔ ویقول الانسان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اخرج حیا (91 : 77) ” انسان کہتا ہے کیا واقعی جب میں مرچکوں گا تو پھر زندہ کرکے نکال لایا جائوں گا ؟ “ یہ سوال انسان کے دل میں محض اس کی غفلت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اس نے غور نہیں کیا کہ وہ موجود ہے اور اسے بہر ال پیدا کیا گیا ہے ‘ تو وہ موجود ہے۔ یہ کہاں تھا ؟ کیسے تھا ؟ یقیناً یہ نہ تھا پھر ہوا۔ اگر انسان ذرا بھی غور کرتا تو وہ سمجھ جاتا کہ پہلی بار کی پیدائش کے مقابلے میں دوبارہ اٹھانا تو بہت آسانکام ہے۔
Top