Maarif-ul-Quran - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور (کافر) انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا
اثبات معاد وبیان حال و مآل اہل طاعت و اہل معصیت قال اللہ تعالیٰ ۔ و یقول الانسان ءاذا مامت لسوف اخرج حیا۔۔۔ الیٰ ۔۔۔ ویاتینا فردا۔ (ربط) گزشتہ رکوع میں اہل طاعت اور اہل معصیت یعنی نیکوں اور بدوں کا انجام ذکر فرمایا کہ مرنے کے بعد ان کا یہ حال ہوگا۔ اب ان آیات میں ان لوگوں کے شبہات کا جواب دیا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو محال یا مستعبد سمجھتے ہیں۔ اہل غفلت اور ارباب شہوت کا عموما یہ طریقہ ہے کہ وہ حشر و نشر کے منکر ہوتے ہیں۔ اور تعجب سے کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مرجائیں گے تو پھر دوبارہ زندہ ہوں گے ؟ یہ لوگ دوبارہ زندہ ہونے کو محال اور خدا کی قدرت سے خارج سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہیں کہ اس نادان انسان کو یہ بات یاد نہیں رہی کہ یہ پہلے نیست اور نابود تھا۔ ہم نے ہی اس کو پیدا کیا تو پھر ہم کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ نیز گزشتہ آیات میں صبر اور عبادت کا حکم تھا۔ اب ان آیات میں یہ بتلاتے ہیں کہ صبر اور عبادت کا پھل قیامت کے دن ملے گا۔ چناچہ فرماتے ہیں : اور جو آدمی حشر و نشر کا منکر ہے وہ بطور استہزاء و تکذیب یہ کہتا ہے کہ بھلا جب میں مرگیا تو پھر زندہ کر کے قبر سے نکالا جاؤں گا ؟ یہ کہنے والا ابی بن خلف جمحی تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ کیا یہ منکر حشر آدمی یہ نہیں سوچتا کہ ہم نے اس کو اول پیدا کیا اور کچھ بھی نہ تھا۔ یعنی عدم محض تھا۔ پس اس آدمی کو یہ خیال کرنا چاہیے تھا کہ جو خدا معدوم محض کے موجود کرنے پر قادر ہے کیا وہ پراگندہ اور ریزہ ریزہ شدہ چیز کو جمع کرنے پر قادر نہیں ؟ جو ذات والا صفات نیست کو ہست اور ہست کو نیست کرنے پر قادر ہے وہ جمع اور تفریق پر بلاشبہ قادر ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگر تمام مخلوق حشر کی دلیل لانے پر جمع ہوجائے تو اس سے بڑھ کر اور اس سے بہتر کوئی دلیل نہیں لاسکتا۔ سو قسم ہے تیرے پروردگار کی۔ ہم قیامت کے دن ضرور ان مشرکوں کو زندہ کر کے میدان حشر میں جمع کریں گے جو حشر کے منکر تھے اور ان کے ساتھ ان شیاطین کو بھی جو دنیا میں ان کے ساتھ رہ کر ان کو بہکایا کرتے تھے۔ ہر ایک کافر کو اسی کے شیطان کے ساتھ ایک زنجیر میں جکڑ کر ساتھ باندھ دیں گے۔ ہر مجرم کا شیطان اس کے ساتھ پکڑا ہوا آئیے گا۔ جیسا کہ ارشاد ہے قال قرینہ ربنا مآ اطغیتہ۔ پھر ہم ان سب کو جہنم کے گردا گرد گھٹنوں کے بل گھسٹتا ہوا حاضر کریں گے۔ پھر نکالیں گے ہر فرقہ میں سے جو نسا ان میں کا دنیا میں اللہ تعالیٰ کا شدید سرکش تھا۔ تاکہ پہلے سب سے بڑے مجرم کو اور پھر اس کے بعد والے مجرم کو دوزخ میں داخل کیا جائے۔ کفار علی حسب المراتب دوزخ میں داخل ہوں گے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر فرقہ سے اس شخص کو کھینچے گا جو ان میں زیادہ متمرد اور سرکش ہوگا۔ پھر جب وہ جمع ہوجائیں گے تو ان کو جہنم میں پھینک دے گا۔ اور جو جس طبقہ کے لائق ہوگا وہاں ڈال دیا جائے گا۔ پھر یہ نہیں کہ اس جدا کرنے میں ہم کو تحقیقات کی ضرورت پڑے کیونکہ البتہ تحقیق ہم خوب جاننے والے ہیں کہ ان میں دوزخ میں داخل کرنے کا سب سے زیادہ لائق اور سزاوار کون ہے۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ کون پہلے دوزخ میں ڈالنے کے قابل ہے گناہوں کی کمیت اور کیفیت کا تفصیل کے ساتھ علم اللہ ہی کو ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ پہلے کس مجرم کو آگ میں ڈالا جائے گا۔ یہاں تک خاص کافر اور منکر حشر و نشر انسان کے بارے میں کلام تھا۔ اب آئندہ آیات میں عام انسانوں کو خطاب عام فرماتے ہیں جو مومن اور کافر سب کو شامل ہے غرض یہ کہ گزشتہ آیت میں خاص اس انسان کو خطاب تھا جو حشر و نشر کا منکر تھا۔ اب آئندہ آیت میں مطلق انسان کو خطاب فرماتے ہیں۔ اور اے نبی نوع انسان نہیں ہے تم میں سے کوئی انسان خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر نیکوکار ہو یا بدکار ہو، مگر یہ کہ وہ دوزخ کے پاس پہنچنے والا اور اس پر سے ضرور گزرنے والا ہے لیکن جب مومن دوزخ پر سے گزریں گے تو آگ بجھ جائے گی اور ٹھنڈی ہوجائے گی۔ یہ دوزخ پر سے گزرنا حسب وعدہ بمقتضائے حکمت تیرے پروردگار پر لازم اور قطعی اور قضاء محکم ہے ضرور بالضرور اپنے وقت مقررہ پر واقع ہو کر رہے گا۔ مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ یہ قطعی فیصلہ کرچکا ہے کہ ہر شخص کو دوزخ کے اوپر سے یعنی پل صراط سے ضرور بالضرور گزرنا ہے جنت میں جانے کا راستہ یہی ہے اہل ایمان اور اہل تقویٰ اس پر سے صحیح وسالم گزر جائیں گے اور کافر سر اور گھٹنوں کے بل اس میں اوندھے جا کریں گے۔ اور گنہگار مسلمان بھی الجھ کر دوزخ میں گر پڑیں گے۔ لیکن کچھ مدت بعد اپنے اعمال صالحہ کی برکت سے اور انبیاء اور ملائکہ اور صالحین کی شفاعت سے دوزخ سے نکال لیے جائیں گے۔ پھر آخر میں براہ راست ارحم الراحمین اپنے دست رحمت سے ان گنہگاروں کو نکالے گا جنہوں نے سچے دل سے کلمہ پڑھا تھا اب اس کے بعد جہنم میں صرف کافر باقی رہ جائیں گے اور دوزخ کا منہ بند کردیا جائے گا۔ جیسا کہ فرماتے ہیں پھر اس ورود اور مرورو عبور کے بعد ہم نجات دیں گے۔ ان لوگوں کو جو خدا سے ڈرتے تھے۔ یعنی ہم اہل تقویٰ کو بقدر تقویٰ نجات دیں گے اور ان کو بچا لیں گے۔ اور ان کو صحیح سالم نکال کرلے جائیں گے اور جو گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں گر پڑا ہے اس کو بعد میں دوزخ سے نکال لیں گے۔ اور ظالموں کو ہم اس میں گھٹنوں کے بل پڑا ہوا چھوڑ دیں گے۔ اگر وہ ظالم کافرو مشرک ہے اور ظلم عظیم کا مرتکب ہے تو اس کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں گے اور اگر گنہگار مسلمان ہے تو چند روز کے لیے چھوڑ دیں گے اور پھر اس کو نکال لیں گے۔ اکثر مفسرین کا قول یہ ہے کہ و ان منکم کا خطاب عام ہے جس کے مخاطب سارے عالم کے لوگ ہیں جس میں مومن اور کافر اور صالح سب ہی داخل ہیں اور ورود کے معنی عبور اور مرور کے ہیں یعنی کسی چیز کے پاس پہنچنے کے لیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے و لما ورد مآء مدین۔ وارسلوا وردھم فادلٰی و لوہ اور ورود سے پل صراط پر سے گزرنا مراد ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ مومن اور کافر سب کو پل صراط پر سے ہو کر گزرنا ہے۔ جو جہنم کی پشت پر قائم کیا جائے گا۔ جنت میں جانے کا راستہ یہی پل صراط ہے۔ مومن تو اس پر سے صحیح وسالم گزر جائیں گے اور کافر اسی میں گر پڑیں گے جیسا کہ بعد والی آیت اس معنی پر دلالت کرتی ہے کہ ہم مومنوں کو بچالیں گے اور ظالموں کو اس میں گرا دیں گے۔ اور پل صراط پر سے گزرنے کی رفتار بقدر اعمال ہوگی۔ کوئی مثل برق (بجلی) کے گزرے گا اور کوئی مثل تیز گھوڑے کے اور کوئی مثل شتر سوار کے اور کوئی مثل دوڑنے والے آدمی کے اور کوئی مثل معمولی رفتارر کے۔ خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ ورود سے عبور اور مرور کے معنی مراد ہیں۔ خدا تعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہے کہ دوزخ کی پشت پر جو پل قائم کیا جائے گا تم سب کو اس پر سے گزرنا ہے۔ جنت میں جانے کا راستہ یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی پشت کو جنت میں جانے کا راستہ بنایا ہے۔ اہل ایمان اور خدا سے ڈرنے والے اپنے اپنے درجہ اور مرتبہ کے موافق اس سے صحیح سالم گزر جائیں گے۔ اور گنہگار اور بدکار الجھ کر دوزخ میں گر پڑیں گے۔ پھر کچھ عرصے بعد گناہگار اہل ایمان انبیاء اور ملائکہ اور صالحین کی شفاعت سے دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور پھر اخیر میں براہ راست ارحم الرحمین کے دست رحمت سے وہ لوگ بھی دوزخ سے نکال لیے جائیں گے کہ جن میں زرہ برابر بھی ایمان ہوگا اور صرف کافر جہنم میں باقی رہ جائیں گے جو ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ و ما ھم بخارجین من النار۔ اور بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ وان منکم کا خطاب خاص کفار کو ہے اور ورود کے معنی دخول کے ہیں کما قال اللہ تعالیٰ ۔ لو کان آٰؤ لآء اٰلھۃ ما ور دوھا اگر یہ بت معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے۔ و قال اللہ تعالیٰ یقدم قو مہ یوم القیٰمۃ فاورد ھم النار و بئس الورد المورود۔ اور جب ورود کے معنی دخول کے ہوں گے تو یہ دخول نار کفار کے لیے مخصوص ہوگا۔ حضرات انبیاء ومرسلین (علیہ السلام) اس حکم میں داخل نہ ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ان الذین سبقت لھم منا الحسآٰی اولٰٓئک عنھا مبعدون لا یسمعون حسیسھا۔ و ھم من فزع یومئذ اٰمنون ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مومنین مخلصین جہنم سے دور اور بالکلیہ اس سے مامون اور محفوظ رہیں گے۔ اور جابر بن عبد اللہ ؓ سے منقول ہے کہ آیت میں ورود سے دخول کے معنی مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ مومن اور کافر سب اس میں داخل ہوں گے اور جابر ؓ نے اپنی انگلیاں دونوں کانوں کی طرف دراز کیں اور کہا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی نیک و بد باقی نہ رہے گا مگر ضرور جہنم میں داخل ہوگا، مگر وہ آگ مومن کے حق میں برد وسلام ہوجائے گی جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) پر ہوگئی تھی۔ (اخرجہ احمد و الحکیم الترمذی و الحاکم و صحہ) اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور رحمت سے آگ کا کسی کے حق میں برد اور سلام ہوجانا کوئی محال نہیں اس لیے کہ احراق نار کا طبعی اور ذاتی اقتضاء نہیں بلکہ آگ کا کسی کو جلانا اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ آخر جو فرشتے جہنم پر مقرر ہیں آگ ان کو نہیں جلاتی اور موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ تھا کہ ایک ہی پیالہ پانی کا قبطی کے حق میں خون ہوجاتا تھا اور وہی پیالہ سبطی یعنی اسرائیلی کے حق میں شیریں پانی ہوجاتا تھا نیز عقلا یہ بھی ممکن ہے کہ جہنم کے وسیع علاقے میں کچھ حصے ایسے بھی ہوں جو آگ سے خالی ہوں اور مومن جہنم کا معائنہ کر کے صحیح سالم واپس آجائیں۔ (تفسیر کبیر صفحہ 573 ؍ ج 5) خلاصہء کلام یہ کہ اس آیت میں دو قول ہیں۔ ایک قول تو یہ ہے کہ ورود کے معنی دخول ہیں اور مطلب یہ ہے کہ سب لوگ مسلمان ہوں یا کافر دوزخ میں ضرور جائیں گے مگر اہل ایمان کے حق میں آتش دوزخ بردو سلام ہوجائے گی اور دوسرا قول یہ ہے کہ ورود کے معنی مرور اور عبور کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ دوزخ کے اوپر سے مسلمان اور کافر سب گزریں گے پل صراط دوزخ کی پشت پر ہے سب کو اوپر سے گزرنا ہوگا۔ مسلمان تو پار ہوجائیں گے اور کافر کٹ کر دوزخ میں گریں گے۔ (اب رہا یہ سوال) کہ مومنین کے اس طرح دخول جہنم میں کیا حکمت ہے کہ آگ ان کے حق میں برد وسلام ہوجائے (سو جواب یہ ہے) کہ اس میں بہت سی حکمتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اہل ایمان کے سرور اور فرحت میں اضافہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہولناک مقام سے خلاصی بخشی اور اس نعمت عظمیٰ پر اللہ کا شکر کریں۔ دوم یہ کہ کافروں کے غم اور حسرت میں اضافہ ہو کہ جن کو ہم نے دنیا میں ذلیل اور حقیر سمجھا تھا وہ تو آج عیش و عشرت میں ہیں اور ہم عذاب اور مصیبت میں گرفتار ہیں۔ سوم یہ کہ مسلمانوں کے دشمن ان کے روبرو فضیحت ہوں۔ چہارم یہ کہ کافروں کو معلوم ہوجائے کہ جس حشر و نشر کی ہم تکذیب کرتے تھے وہی حق نکلا۔ پنجم یہ کہ مسلمانوں کو جنت کی نعمت کی قدر معلوم ہو اور اس کی لذت محسوس ہو اس لیے کہ کسی نعمت کی قدر و قیمت مقابلہ سے ہوتی ہے و بضد ھا تتبین الاشیاء (تفسیر کبیر صفحہ 573؍ج 5) اور علماء تفسیر کے اس گروہ کے نزدیک جو ورود کو بمعنی دخول لیتے ہیں آیت اولٰٓئک عنھا مبعدون سے نفس جہنم سے بعد اور دوری مراد نہیں بلکہ اس کے عذاب سے دوری مراد ہے۔ برگزیدہ حضرات کے حق میں تھوڑی دیر کے لیے بطور معائنہ جہنم کے علاقہ میں داخل ہونا موجب رحمت و کرامت ہوگا۔ جیل خانہ میں مجرموں کا داکل ہونا اور نوع کا ہے اور حکام کا بطور معائنہ اس میں داخل ہونا یہ اور نوع کا ہے۔ دونوں دخول میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کفار کے ایک مخالطہ کا جواب : گزشتہ آیات میں منکرین کے ذلت آمیز عذاب کا ذکر فرمایا کہ ان ظالموں کو ذلت و خواری کے ساتھ ہم اسی جہنم میں گرا دیں گے۔ یہ ظالم جب اس قسم کی آیتیں سنتے جن میں ان کے ذلت آمیز انجام کا ذکر ہوتا تو بطور استہزاء و تفاخر غریب مسلمانوں سے یہ کہتے کہ اگر بالفرض قیامت ہوئی تو ہم وہاں بھی تم سے اچھے رہیں گے جس طرح دنیا میں ہم تم سے مال و دولت اور عزت و وجاہت کے اعتبار سے بہتر ہیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ ان کے اس مغالطہ کا جواب دیتے ہیں اور ان ظالموں کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے ہماری واضح اور روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور قیامت کے دلائل ان کے سامنے بیان کیے جاتے ہیں اور وہ ان کے جواب سے عاجز آجاتے ہیں تو ازراہ جہالت کافر، ایمانداروں سے یہ کہتے ہیں کہ بتلاؤ تو سہی کہ ہم دونوں فریق میں سے کون سا فریق مرتبہ کے اعتبار سے بہتر ہے اور کونسا باعتبار مجلس کے عمدہ ہے ؟ منکرین حشر جب دلائل حشر کے جواب سے عاجز آتے تو یہ کہتے کہ بتلاؤ دنیا میں کون زیادہ معزز ہے اور کس کی مجلس اور سوسائٹی بہتر ہے اور کون عمدہ مکانات اور بنگلوں کا مالک ہے اور کون ٹھاٹھ سے زندگی گزار رہا ہے ؟ پس جس طرح ہم یہاں راحت و عزت میں ہیں اور تم ذلت اور مصیبت میں اسی طرح ہم عالم آخرت میں معزز اور سربلند ہوں گے اور تم اسی طرح پستی میں ہو گے۔ اگر تم حق پر ہوتے اور ہم باطل پر ہوتے تو تمہارا حال ہم سے بہتر ہوتا۔ اللہ تعالیٰ آئندہ آیت میں اس بات کا جواب دیتے ہیں اور فرماتے ہیں اور یہ لوگ اس بات کو نہیں دیکھتے کہ ان کفار مکہ سے پہلے کتنی ہی امتیں اور جماعتیں ہلاک کرچکے ہیں۔ جو سامان زندگی یعنی مال و متاع میں اور مال و دولت اور عزت و شوکت میں اور نمود اور منظر میں ان سے بہت تھے۔ جب انہوں نے انبیاء کے مقابلہ میں سرکشی کی تو اللہ نے ان کو تباہ اور برباد کردیا۔ معلوم ہوا کہ دنیا کی چند روزہ خوشحالی اور مال و دولت کی فراوانی مقبولیت اور حسن انجام کی دلیل نہیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان مغرور متکبردولت مندوں اور عیش پرستوں کو دنیا میں تباہ و برباد اور ذلیل و خوار نہ کرتا ان کا مال و منال اور ان کی عزت و وجاہت ان کی ہلاکت اور ذلت کو دفع نہ کرسکتی۔ : ” اثاث “ کے معنی ساز و سامان کے ہیں جو تمام اقسام کے اموال کو اور اونٹ اور گھوڑے اور حشم و خدم کو اور اسباب خانہ کو شامل ہے اور رئی کے معنی یہ ہیں کہ جو منظر اور ظاہری ہیئت میں خوبصورت ہو اور دیکھنے میں اچھی معلوم ہو جیسے آج کل بنگلوں کا سمان آرائش و زیبائش جسے قارون اور فرعون بھی دیکھ کر دنگ رہ جائے، ان کافروں کی نظر صرف دنیا پر تھی۔ اہل مکہ کو کچھ عزت ووجاہت ملی اور کچھ مال و دولت ملا مست ہوگئے اور اترانے لگے اور غریب اور نادار مسلمانوں کو حقیر سمجھنے لگے۔ اپنی فراخی اور مسلمانوں کی تنگدستی کو اس بات کی دلیل ٹھہرانے لگے کہ ہم حق پر ہیں اور مسلمان باطل پر ہیں۔ قریش مکہ کو یہ ہوش نہ آیا کہ نصاریٰ روم بھی ہمارے مکالف ہیں اور ایران کے مجوسی بھی ہمارے مخالف ہیں اور دونوں گروہ مال و دولت اور عزت و وجاہت میں مکہ کے بت پرستوں سے ہزار درجہ بڑھ کر تھے۔ تو کیا قریش مکہ کے نزدیک نصاریٰ اور مجوس کی یہ ہوش ربا مالداری ان کے حق ہونے کی دلیل ہوسکتی ہے ؟ جواب دیگر : اب آئندہ آیت میں اسی شبہ کا دوسرا جواب دیتے ہیں اور اپنے نبی کو حکم دیتے ہیں کہ اے نبی آپ ﷺ ان کافروں سے یہ کہہ دیجیے کہ اللہ کی عادت یوں جا ری ہے کہ جو شخص گمراہی میں غرق ہے سو رحمٰن اس کو ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے۔ خوب ڈھیل دینا۔ یعنی اس کو رحمٰن کی رحمت اور اس کے علم سے مہلت مل رہی ہے ورنہ اس کے جرم کا مقتضا یہ تھا کہ فورا ہلاک کردیا جاتا لیکن اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ گمراہوں کو فورا پکڑ لے، وہ حلیم و کریم ہے۔ پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ اسکو طویل مہلت دیتا ہے اور اس کی رسی کو دراز کرتا ہے اور پے در پے اس کو نعمتیں پہنچاتا رہتا ہے تاکہ اس پر حجت پوری ہوجائے۔ کما قال تعالیٰ ۔ اولم نعمر کم مایتذکرفیہ من تذ کرو جآء کم النذیر وقال تعالیٰ انمانملی لھم لیزدادو آ اثما یعنی ہم ان کو اس لیے مہلت دیتے ہیں کہ دل کھول کر کفر کریں اور دل کی حسرتیں نکال لیں اس لیے دنیا ان پر خوب کشادہ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں جس کا اللہ کی طرف سے وعدہ یا وعید کی گئی ہے۔ خواہ دنیاوی عذاب کو دیکھیں اور خواہ قیامت کو دیکھیں جو عذاب کی انواع و اقسام کا مجموعہ ہے۔ تو اس وقت ان پر حقیقت حال کھل جائے گی اور اس وقت جان لیں گے کہ کون بد تر ہے باعتبار جگہ اور ٹھکانہ کے یا باعتبار مقام اور مرتبہ کے اور کس کے مددگاروں کی فوج کمزور ہے۔ یہ ان کے اس قول کا جواب ہے جو یہ کہتے تھے کہ دونوں فریقوں میں سے کس کے مکانات عمدہ اور کس کی مجلسیں شاندار ہیں اور کس کے یار و مددگار زور دار ہیں۔ وہاں ان کے لیے نہ کوئی ٹھکانہ ہوگا اور نہ کوئی یار و مددگار ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی کریم آپ ﷺ ان گمراہوں سے جو اپنی مال و دولت کے نشہ میں مسلمانوں کو حقیر سمجھ رہے ہیں ان سے یہ کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ حلیم اور کریم ہے، سرکشوں کے پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ سنت اللہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ضلالت کو مہلت دیتا ہے کہ اپنے غرور اور جہالت کی امنگیں پوری کرلیں جب ان کی سرکشی حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو یکایک ان کو دنیاوی یا اخروی عذاب میں پکڑتا ہے۔ اس وقت وہ جان لیتے ہیں کہ ذی عزت اور صاحب منزلت کون ہے اور کون ذلیل و خوار ہے۔ معلوم ہوا کہ حسب و نسب اور مال و دولت مدار فضیلت نہیں بلکہ عقائد حقہ اور اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ مدار فضیلت ہیں۔ کافر دنیا میں غرور اور فخر سے یہ کہتا تھا ای الفریقین خیر مقام و احسن ندیا۔ قیامت کے دن اس کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کا مقام برا ہے اور کس کی مجلس بری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حلم نے تم کو دھوکہ میں ڈال دیا ہے۔ ؂ ہیں مشو مغرور بر حلم خدا دیر گیرد سخت گیر و مرترا خلاصۂ کلام : یہ کہ آیات بینات کی تلاوت سے گمراہوں کی گمراہی میں اضافہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان آیات بینات سے راہ راست اختیار کرنے والوں کے لیے ہدایت بڑھاتا ہے۔ جس قدر آیات بینات کو سنتے ہیں اسی قدر ان کے ایمان اور ہدایت میں زیادتی ہوتی ہے۔ آیات بینات سے مومنین کے ایمان اور ایقان میں زیادتی ہوتی ہے اور کافروں کی گمراہی میں زیادتی ہوتی ہے۔ جواب دیگر : دلداد گان دنیا جو بطور تمسخر اور استہزاء غریب مسلمانوں سے یہ کہا کرتے تھے کہ جس طرح ہم دنیا میں باعتبار مال و دولت کے تم اسے بہتر ہیں اسی طرح ہم آخرت میں بھی تم سے اچھے رہیں گے۔ ان کی اس بات کے دو جواب پہلے گزر گئے۔ اب آگے ایک اور جواب دیتے ہیں۔ اور باقی رہنے والی نیکیاں یعنی اعمال صالحہ اور اعتقادات حقہ تیرے پروردگار کے نزدیک باعتبار جزاء کے بھی بہتر ہیں اور باعتبار انجام اور ثمرہ کے بھی بہتر ہیں۔ ” باقیات صالحات “ سے وہ اعمال صالحہ مراد ہیں جو مرنے کے بعد انسان کے کام آویں۔ حدیث میں سبحان اللہ والحمد اللہ و لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول و لا قوۃ الا باللہ ان کلمات کو باقیات صالحات فرمایا ہے۔ یہ محض مثال کے طور پر ہے ورنہ تمام اعمال صالحہ اس میں داخل ہیں۔ سورة کہف کے چھٹے رکوع میں اس کی تفسیر گزر چکی ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ آخرت میں پہنچ کر معلوم ہوگا کہ عزت و راحت کا دار و مدار باقیات صالحات پر ہے اور اصلی دولت اعمال صالحہ اور اعتقادات حقہ ہیں نہ کہ دنیاوی مال و دولت اور اس دار فانی کا ساز و سامان اور چند روزہ رونق۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوگا کہ خیر مقاما و احسن ندیا کا بہترین مقام کس کو حاصل ہے۔ اہل ایمان کو یا اہل کفر کو مرنے کے بعد مال و اولاد کام نہ آئیں گے صرف باقی رہنے والی نیکیاں کام آئیں گی۔ منکرین حشر کے ایک اور تکبر اور تمسخر کا جواب : گذشتہ آیات کیطرح ان آیات میں بھی منکرین بعث و نشر کے ایک تمسخر کا جواب دیتے ہیں۔ اول حق تعالیٰ نے کفار کے ایک قول کا ذکر کیا جو دنیا کی ظاہری رونق اور زینت پر فخر کرتے تھے اور اپنے مال و دولت اور قوت و شوکت اور کثرت اعوان و انصار پر اور عمدگی مکانات پر اتراتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا سسکت جواب دیا۔ اب پھر اسی قسم کے غرور وتکبر کا ایک قول نقل کر کے اس کا جواب دیتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ خباب بن ارت صحابی ؓ آہنگری کا کام کرتے تھے جاہلیت کے زمانہ میں عاص بن وائل کافر نے ان سے ایک تلوار بنوائی جس کی قیمت اس کے ذمے قرض تھی۔ زمانہء اسلام میں خباب ؓ نے اس سے اپنے قرض کا تقاضہ کیا اس نے کہا کہ جب تک تو محمد ﷺ کی نبوت کا انکار نہ کریگا اس وقت تک میں تیرا قرض نہیں دوں گا۔ خبابؓ نے کہا واللہ ہرگز ہرگز میں آپ ﷺ کی نبوت کا انکار نہیں کروں گا یہاں تک کہ تو مرے اور پھر دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے تو وہ بولا کہ جب میں مر کر زندہ ہوں گا تو وہاں بھی میرے پاس مال اور اولاد سب کچھ ہوگا جیسا کہ اب ہے۔ پس اسی وقت تیرا سارا قرض چکا دوں گا۔ جلدی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اسی بدبخت کا قول نقل فرمایا اور اس کا جواب دیا جس کا حاصل یہ ہے کہ اس بدبخت کو کیونکر معلوم ہوا کہ وہاں بھی اس کو مال اور اولاد ملے گا ؟ کیا یہ عالم الغیب ہے یا اس نے خدا سے اقرار کرلیا ہے ؟ ہم اس کی یہ سب باتیں لکھ رہے ہیں۔ قیامت کے دن باز پرس کریں گے اور سزا دیں گے۔ چناچہ فرماتے ہیں (اے نبی ﷺ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور بطور استہزاء و تمسخر یہ کہا کہ اگر بالفرض قیامت ہوئی تو وہاں بھی مجھ کو مال اور اولاد دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں۔ کیا یہ کافر غیب پر مطلع ہوگیا ہے کہ قیامت کے دن اس کو سب کچھ ملے گا ؟ ” اطلاع “ کے معنی بلند مقام پر چڑھ کر کسی چیز کو جھانکنے کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ کیا اس کافر نے بلند مقام سے جھانک لیا ہے کہ وہاں مجھ کو یہ ملے گا یا اس نے اللہ سے اس بات کا عہد لے لیا ہے کہ وہ قیامت کے دن اس کو مال اور اولاد دے گا ؟ ہرگز نہیں یہ سب غلط ہے وہاں کچھ نہیں ملے گا۔ یہ کلمۂ زجر ہے یعنی جھڑکی ہے جھڑکنے اور ڈانٹنے کے لیے یہ لفظ مستعمل ہوتا ہے۔ اور یہ شخص جھوٹا اور بدکار ہے اور سخت گستاخ ہے ضرور ہم اس کا یہ گستاخانہ قول اس کے اعمال نامہ میں لکھ لیں گے اور قیامت کے دن اس گستاخانہ قول پر خاص طور پر سزا دین گے۔ اور اس گستاخی و جرأت کی وجہ سے ہم اس کے لیے عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے۔ اول تو کفر اور پھر یہ گستاخی اس لیے اس پر عذاب پر عذاب ہوگا۔ اور جس مال اور اولاد کا وہ ذکر کرتا ہے اس کے ہم وارث ہوں گے اس کے مرتے ہی وہ سب اس سے چھن جائے گا اور وہ قیامت کے دن ہمارے پاس تن تنہا آئیگا۔ نہ اس کے ساتھ اس کا مال ہوگا اور نہ اس کی اولاد ہوگی۔ قیامت کے دن کافر کو نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد ساتھ دے گی بخلاف مسلمان کے کہ وہاں اس کو مال بھی کام آئے گا اور اولاد بھی کام آئے گی۔
Top