Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور (کافر) انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا
66: شان نزول : ابی بن خلف جمنی نے ایک بوسیدہ ہڈی کو ہاتھ سے چورا کرتے ہوئے کہا کیا ہم اس طرح ہوجانے کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے پس یہ آیت نازل ہوئی۔ وَیَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ئَ اِذَا مَامِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا (کیا انسان یوں کہتا ہے کہ جب میں مرجائوں گا تو کیا پھر زندہ کرکے نکالا جائوں گا) ۔ نحو : اذا میں عامل دلالت کلام کے مطابق البعث ہے تقدیر کلام یہ ہے : اِذَامَامِتُ أبعثُ اس کو اخرجْ کی وجہ سے منصوب قرار دینا درست نہیں کیونکہ لام ابتدائیہ کا مابعد ماقبل میں عمل نہیں کرتا اس طرح نہیں کہا جاسکتا : الیوم لزید قائم۔ مضارع پر جو لام ابتدائی داخل ہوتی ہے وہ حال کا معنی دیتی ہے اور مضمون جملہ کی تاکید کرتی ہے۔ اب جب حرف استقبال آگیا تو خالص تاکید کا فائدہ اس سے حاصل ہوا اور حال کا معنی معدوم ہوگیا۔ ماؔ۔ اذاما میں تاکید ہی کیلئے ہے گویا اس طرح کہا گیا : أحقًا اَنَّا سَنُخْرِجُ مِنَ الْقُبُوْرِ اَحْیَاء حِیْنَ یتمکن فِیْنَا الموت والہلاک۔ کیا یہ برحق ہے کہ ہم عنقریب قبور سے زندہ کر کے نکالے جائیں گے جبکہ موت و ہلاکت ہم پر اپنے پنجے مکمل طور پر گاڑلے گی۔ اور یہ بطور استنکارو استبعاد ہے۔ ظرف کو مقدم کرنا اور پھر حرف انکار کے قریب لانا اسی قبیل سے ہے کہ موت کے بعد والے وقت میں زندگی کا ہونا انوکھی چیز ہے اور اسی سے ان کو انکار تھا۔
Top