Urwatul-Wusqaa - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور (عقل و فکر سے عاری) انسان کہتا ہے جب میں مر گیا تو پھر کیا ایسا ہونے والا ہے کہ زندہ اٹھایا جاؤں ؟
منکرین قیامت کے متناقض خیالات اور ان کی تردید : 66۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کو تلقین صبر و استقامت کے بعد اب مخالفین کی تکذیب کا باعث بیان کیا جا رہا ہے ۔ (الانسان) سے مراد وہ خاص انسان ہیں جو ایسی ایسی باتیں کہنے والے ہیں اور اس وقت کے لحاظ سے وہ مشرکین عرب ہی تھے جو قیامت کا نام سنتے ہی تعجب کا اظہار کرنے لگتے تھے کہ یہ کیسا آدمی ہے اور کس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے ۔ مشرکین عرب ہوں یا دوسری اقوام وہ زبانی طور پر مانتے اور تسلیم کرتے تھے لیکن اس بات پر ان کے دلوں کو اطمینان نہیں تھا کہ مرکھپ جانے کے بعد حساب کتاب کے لئے دوبارہ پیدا بھی کئے جائیں گے ، آج کل کی طرح ان کے امراء اور اغنیاء اس غلط فہمی میں تھے کہ بالفرض اگر قیامت ہوئی بھی تو وہ وہاں بھی وہی کچھ پائیں گے جو ان کو یہاں دیا گیا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر ان کو اعتماد ان لوگوں پر تھا جن کے بت بنا کر انہوں نے رکھے تھے کہ یہ ہماری سفارش کرکے چھڑا لیں گے اگر کوئی ایسی حالت پیدا ہوئی اور ان کا سارا اعتماد دیویوں اور دیوتاؤں اور داتوں پر تھا یا ان فرشتوں پر جن کو وہ اپنے عقیدے کے مطابق اللہ کی بیٹیاں تصور کرتے تھے کہ یہ سب آخر کیوں ہیں ؟ اسی لئے تو ہیں کہ اگر کوئی ایسی مشکل پیش آ ہی گئی تو یہ لوگ ہماری سفارش کرکے ہمیں چھڑا لیں گے گویا اس طرح ان کے خیالات بالکل ایک دوسرے کے متناقض تھے اور وہ سب کے سب اگر مگر میں پھنسے ہوئے تھے اور بدقسمتی سے آج یہی حال ہم مسلمانوں کی اکثریت کا ہے اور جو کچھ اس وقت ان کا سواد اعظم تھا وہی آج ہم مسلمانوں کا ہے ۔ زیر نظر آیت میں بھی ان کے اسی وہم کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جب مر گئے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ؟ گویا اظہار تعجب بھی ہے اور اس کا انداز بھی ایسا ہے کہ اس سے انکار خود بخود ٹپک رہا ہے ۔
Top