Anwar-ul-Bayan - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا یہ ضروری بات ہے کہ میں عنقریب زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ؟
انسانوں کا قیامت کے دن زندہ ہونے سے انکار کرنا اور منکرین کا شیطان کے ساتھ حشر ہونا اللہ جل شانہ کی توحید اور اس کا قدرت و اختیار والا اور وحدہ لا شریک ہونا بیان فرمانے کے بعد معاد یعنی قیامت کا دن واقع ہونے اور میدان آخرت میں لوگوں کے جمع ہونے کا تذکرہ فرمایا، اول تو انسان کی اس جاہلانہ اور معاندانہ بات کا تذکرہ فرمایا کہ میں جب مرجاؤں گا تو کیا پھر زندہ ہو کر اٹھوں گا ؟ انسان کا یہ کہنا بطور تعجب اور انکار کے ہے، یہ لوگ قیامت کو نہیں مانتے وہ کہتے ہیں کہ یہ مر کر جی اٹھنا سمجھ میں نہیں آتا مر کھپ گئے ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوگئیں اب کیسے جئیں گے اور کیسے اٹھیں گے، قرآن مجید میں منکروں یہ بات کئی جگہ ذکر فرمائی ہے ان کے جواب میں فرمایا کہ انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ میں پہلی بار وجود میں کیسے آیا جبکہ انسان نہ موجود تھا نہ اس کا ذکر تھا جس ذات پاک نے اسے پہلی بار پیدا فرما دیا اسے یہ قدرت ہے کہ پھر سے زندہ فرما دے انسان مٹی سے پیدا ہوا اس کی نسل چلی اور یہ نسل مرد اور عورت کے ملاپ سے چلتی ہے اور بےجان نطفہ میں اللہ تعالیٰ جان ڈال دیتا ہے پھر یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ موت دے کر دوبارہ پیدا فرما دے اور ہڈیوں میں جان ڈال دے اور ان پر گوشت اور پوست چڑھا دے سورة یٰسین میں فرمایا (وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ قُلْ یُحْیْیْہَا الَّذِیْ اَنشَاَھَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ ) (اور انسان ہمارے لیے مثالیں دینے لگا اس نے کہا کہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جبکہ وہ ریزہ ریزہ ہوچکی ہوں گی آپ فرما دیجیے کہ انھیں وہی زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی بار پیدا فرمایا) ۔
Top