Mafhoom-ul-Quran - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور کافر کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ؟
دوبارہ زندہ ہونا، قیامت اور پل صراط کا بیان تشریح : جب کفار نے دوبارہ زندہ کیے جانے اور حساب کتاب کے بارے میں سنا تو بولے یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا آسان سا جواب ہے اگر اللہ نے ہمیں یہاں زندگی دی ہے جو کہ یقینی طور پر موت آنے پر ختم ہوجائے گی تو سوچنے کی بات ہے کیا اللہ نے ہمیں بےمقصد پیدا کیا ہے ؟ ہرگز نہیں ہمیں ضرور پوچھا جائے گا کہ دنیا میں کیا کیا ؟ اور یہی حساب کا دن ہوگا۔ اور اسی کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے۔ ” پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل پڑا ہوا چھوڑ دیں گے۔ “ (مریم آیت :72 ) یہ سب غائب کی باتیں ہیں جن کے بارے میں ہمیں پہلے سے بتا دیا گیا اور مہلت بھی دی گئی ہے۔ انسانی عقل ان غائب کے معاملات کو، اللہ کی ذات کو صرف اتنا ہی جان سکتی ہے جتنا اللہ نے اس کو بتا دیا ہے۔ اس سے آگے انسان مجبور و بےبس ہے۔ ڈاکٹر کا منے ڈو نوائے نے اپنی کتاب The Human Destuny میں لکھا ہے۔ ” اگر ہم سائنس کے جمع شدہ سرمایہ کا تنقیدی مطالعہ کریں اور اس سے منطقی اور عقلی نتائج جمع کریں تو یہ نتائج لازمی طور پر ہمیں اللہ تک لے آتے ہیں۔ “ (از The Observer London 13 April 1930. ) اس لیے اللہ کی نشانیاں جو ہمارے چاروں طرف بکھری پڑی ہیں ان سے اللہ کو پہچان کر اس کی بتائی ہوئی راہوں پر چل کر نجات حاصل کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ آیت نمبر 1 تا 7 میں پل صراط کا ذکر ہے، یعنی جہنم کے اوپر جو پل قائم کیا جائے گا اس پر سے ہر ایک نے گزرنا ہے۔ سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ہم نے پوچھا کہ پل صراط کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ ایک پل ہے جو جہنم کی پشت پر رکھا جائے گا۔ (صحیح بخاری )
Top